ڈونلڈ ٹرمپ بَہ مقابلہ جو بائیڈن
دورانِ مباحثہ میزبان کرس ویلس نے ٹرمپ کو 76 بار جب کہ بائیڈن کو 16 بار ٹوکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی اسی ڈھٹائی کی بَہ دولت امریکی عوام کی اکثریت اب مزید کسی صدارتی مباحثے کو دیکھنے کے لیے عدم دل چسپی کا اظہار کر چکی ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے پچاس ریاستوں میں ایک بھر پُور، طویل اور مہنگی ترین انتخابی مہم جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔
از، حسین جاوید افروز
بین الاقوامی تعلقات میں امریکہ کو سرد جنگ کے بعد سے ہی واحد سپر پاور کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اگر چِہ نائن الیون کے بعد عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکہ کے یونی پولر تصور کو قدرے متأثر بھی کیا ہے اور اس کے مقابل بیجنگ اور ماسکو بھی اہم متبادلات کے طور پر ابھرنا شروع ہو چکے ہیں؛ جب کہ خصوصاً عالمی سیاست کی بساط پر اب چین کو بھی امریکہ کے سامنے ایک مضبوط حریف کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن ان نئی عالمی صف بندیوں کے با وجود امریکہ کا بین الاقوامی امیج اور کردار اب بھی گلوبل سیاست کی حرکیات پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور مستقبل قریب میں بھی کرتا رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی الیکشن 2020 پر دنیا بھر کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان یہ انتخاب تین نومبر کو برپا ہو گا اور اس کے نتیجے میں بیس جنوری 2021 کو فاتح امیدوار امریکہ کے 46 ویں صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس پر قابض ہو جائے گا۔
ان دو امیدواروں کی موجودہ پوزیشن کیا ہے؟
مختلف موضوعات پر دونوں کے کیا مؤقف اور کیا پالیسیاں ہیں؟
ٹرمپ اور بائیڈن کی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں؟
اور سب سے اہم دونوں کے پاس ایسے کیا ٹرمپ کارڈز ہیں کہ جن کی بناء پر یہ وائٹ ہاؤس پر اگلے چار سال تک راج کر سکیں گے؟
آئیے اس انتہائی دل چسپ مقابلے اور اس کی کی حرکیات کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا کہیں۔ وہ ہر لحاظ سے ایک ٹیسٹ کیس ہیں اور ذاتی و عوامی زندگی کو اپنے ہی زاویے سے دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے کسی کی پروا نہیں کرتے۔ بچپن سے ہی ایک ارب پتی خاندان کے چشم و چراغ کے طور پر وہ سامنے آئے۔
اپنی غیر معمولی کاروباری سمجھ بوجھ اور رئیل اسٹیٹ کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنی ایک الگ ساکھ بنائی۔ پھر رئیل اسٹیٹ سے میڈیا پرسنالٹی اور وہاں سے سیاسی میدان تک ٹرمپ نے اپنی مُتلوِّن مزاجی، رعونت، جارحانہ برتاؤ، بے حس فطرت اور سب سے بڑھ اپنی نرگسیت پسندی سے ایک عالم کو اپنے چارم میں جکڑے رکھا۔
ٹرمپ کے اصول بہت سادہ ہیں کہ وہی جینئس ہے جو میری ہاں میں ہاں ملائے۔ جب کہ میرے مخالف کی اوقات دو پیسے کی بھی نہیں۔ ٹرمپ اپنی طاقت کسی کے ساتھ بانٹ نہیں سکتے اور ان کو ذاتی زندگی سے سیاسی زندگی تک کے ہر لمحے سے خود کو نمایاں کرنا آتا ہے؛ چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔
مختصراً، ٹرمپ کی ڈکشنری میں معافی، عاجزی، نرم مزاجی، شرمندگی اور وضع داری کی کوئی جگہ نہیں۔ علاوہ ازیں ٹرمپ نے ایک سبق اور بھی سیکھا کہ میڈیا کو ہمیشہ غلط ثابت کرو اور نتائج سے پہلے ہی فتح کا اعلان کرو۔ وہ کرونا کو کبھی ایک فلو سے تعبیر دیتے ہیں۔ وہ سائنس کی حقانیت سے بھی انکاری ہیں اور وہ گلوبل وارمنگ کو ایک دھوکا ہی گردانتے ہیں۔
ان کا چار سالہ دورِ صدارت امریکیوں کے لیے ہمیشہ باعثِ شرمندگی ہی رہے گا کہ جس مسندِ صدارت پر لنکن، تھیوڈور روزویلٹ، فرینکلن ڈی روزویلٹ، کینیڈی، کلنٹن، ریگن اور نکسن جیسے قابل، اہل اور مدبر رہ نماء براجمان رہے وہاں جنسی ہراسانی سے اٹا ایک جامد سوچ رکھنے والا گھمنڈی شخص ٹرمپ بھی ان کا صدر رہا جس کو ایک صدر کے طور پر نہیں بل کہ ایک آفس انچارج کے طور پر ہی اہمیت ملتی رہی۔
بہ ہر حال، کرونا وائرس اور جاج فلائیڈ نسلی امتیاز کے گھمبیر ایشوز نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے سیماب صفت کو صدر کو ایک دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ان کے لیے اگلی بار صدارت کا حصول مشکل تر دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ کے بَہ طور صدر اغلاط کچھ ایسی ہیئت کے حامل ہیں کہ جو بائیڈن کو بے شمار ریٹنگ تو ٹرمپ سے بے زاری کی صورت میں بھی ملتی دکھائی دیتی ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک ٹرمپ کارڈ رکھتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں ٹرمپ کی پالیسی اور سب سے اہم امریکی متوسط سفید فام کی اکثریت جن میں انتہا پسند سفید فام بھی شامل ہیں۔ وہ ٹرمپ کی کور بیس کا حصہ ہیں۔ یاد رہے اسی سفید فام حلقے کے ووٹوں کی بَہ دولت ٹرمپ 2016 میں انتخاب جیت پائے تھے۔
اسی لیے ری پبلکن پارٹی اب بھی ٹرمپ کے پیچھے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر چِہ، کرونا فیکٹر نے ٹرمپ کے امکانات کو خاصا مخدوش کر دیا ہے مگر 2016 کے سرپرائز کو ابھی فراموش کرنا غیر دانش مندی ہو گی کیوں کہ ٹرمپ کو محض کسی پولز اور سروے کی بناء پر اس وقت ریس سے باہر نہیں کیا جا سکتا۔
ٹرمپ کے مدِّ مقابل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن امریکی سیاسی سسٹم میں ایک سنجیدہ مدبر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کا امیج عوام میں ایک شریف، ملن سار، ہم درد اور جہاں دیدہ سیاست دان کا ہے۔ اگر چِہ وہ کافی حد تک ایک روایتی سیاست دان رہے مگر ان کا دھائیوں پر مبنی سیاسی تجربہ ان کو ایک متوازن اور تجربہ کار صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے۔
جو بائیڈن نے ریاست ڈیلاوئیر کے ایک متوسط خاندان میں جنم لیا۔ اوائلِ عمری سے ہی وہ ہکلاہٹ کا شکار تھے جس کی وجہ سے ان کو دوستوں کی چھیڑ چھاڑ کا بھی سامنا رہا مگر اپنی ماں کی حمایت اور شفقت سے انھوں نے آئینے کے سامنے تقاریر کر کے روانی سے بات کرنا سیکھا۔
اپنی ان تھک محنت کے سبب انھوں نے ستر کی دھائی میں اپنے مد مقابل گھاگ سیاست دان بوگس کو شکست دے کر سینیٹرشپ حاصل کی۔ بائیڈن نے جان ایف کینیڈی کو اپنا رول ماڈل بنایا اور امریکی صدر بننے کا خواب سجا کر متعدد بار صدارتی امیدوار بننے کی ٹھانی مگر ہر بار چند مشکلات کے سبب نا کام رہے۔ 2008 ان کے سیاسی کیریئر کی معراج ثابت ہوا جب باراک اوباما نے ان کو اپنے نائب صدر کے طور پر منتخب کیا۔
اوباما نے بائیڈن کے سینٹ میں گزارے گئے طویل عرصے اور تعلقات کی اہمیت کو پہچانا اور یوں اگلے آٹھ برس تک دونوں ایک مثالی ٹیم ورک اور ورکنگ ریلیشن شپ کی شکل میں سامنے آئے۔ تاہم ذاتی طور پر بیٹے بیو بائیڈن کی موت نے بائیڈن کو توڑ کر رکھ دیا اور وہ 2015 میں امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے دست بردار ہو گئے۔ لیکن 2020 میں بَہ طور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے کملا ہیرس کے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کی اور باوجود ان کے ساتھ اختلاف کے ان کو اپنا ڈپٹی امیدوار چنا اور یوں اس سے پارٹی کا مثبت چہرہ بن کر ابھرا۔
بائیڈن کی خامیوں پر بات کی جائے تو وہ اب تک بَہ طور صدارتی امیدوار ٹرمپ کی بیش تر پالیسیوں پر محض اپنا رد عمل ہی دے پائے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوا جب انھوں نے اپنا ٹھوس منصوبہ عوام کے سامنے رکھا ہو۔ اس کے ساتھ جس طرح صدارتی مباحثے کے دوران وہ ٹرمپ کو جذبات میں شٹ اپ کال دے گئے اس سے ان کی قوتِ برداشت پر بھی سوالات اٹھے۔
مگر بَہ حیثیتِ مجموعی ان کی سب سے بڑی صلاحیت ذاتی و سیاسی زندگی میں کئی طوفانوں اور بحرانوں کا سامنا کر کے دوبارہ طاقت پکڑنے کے جذبے کی ہے۔
جوانی میں ہی اپنی بیوی نیلا بائیڈن اور بیٹی کو ایک حادثے میں کھو دینا اور پھر اپنے بیٹے بیو بائیڈن کی برین کینسر سے موت کے صدمے کو جھیلنا اور دوبارہ خود کو ایک مضبوط شخص کے طور پر پیش کرنا یہ خصائص بائیڈن کی اصل طاقت ہیں۔
اگر ہم بائیڈن اور ٹرمپ کی مختلف اہم انتخابی موضوعات پر سوچ کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت جیسے اہم ایشو پر بائیڈن اس بات کے حامی ہیں کہ کرونا زدہ معیشت کو اب بَہ تدریج کھولنے کا وقت آ چکا ہے، مگر ریاستوں میں کاروبارِ حیات اور دیگر سرگرمیوں کو فی الفور کھولنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ جب کہ بائیڈن نے اشرافیہ کو بھی نشانہ پر رکھا کہ وہ اقتدار میں آ کر اس پر ٹیکس لگائیں گے اور بے روزگاری کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہو گی۔ امریکی مصنوعات کو بیرونی مصنوعات پر فوقیت دینے کے حوالے سے ٹرمپ بھی بائیڈن کی سوچ کے حامی ہیں مگر وہ معیشت کو کرونا کے عِفرِیت کے باوجود تیزی سے کھولنے کے حامی ہیں۔ وہ اشرافیہ پر محدود ٹیکس لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں ٹرمپ نے ٹیکس اصلاحات سے متعلق بھی اہم بلوں کی بھی منظوری دی۔ معیشت کے حوالے سے بائیڈن کے نقطۂِ نظر کو 50 فی صد جب کہ ٹرمپ کو 48 فی صد حمایت میسر ہے۔
امریکہ میں نسلی امتیاز بھی اس سال ٹرمپ کے لیے خاصی مشکلات لے کر آیا جب جارج فلائیڈ سانحہ نے امریکی عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بلیک لائف میٹرز نامی تحریک سرگرمِ عمل ہو گئی۔ لیکن ٹرمپ کے سفید فام انتہا پسند گروپس کے خلاف ڈانواں ڈول پالیسی نے عوام کو اس ایشو پر خاصا متنفر کیا ہے۔
بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں سیاہ فام عوام کی بھاری حمایت لینے میں کام یاب دکھائی دیتے ہیں اور وہ بر ملا کہتے ہیں کہ میری کابینہ متنوع ہو گی۔ بائیڈن کا کمیلا ہیرس کو بَہ طور نائب صدر نام زد کرنا بھی اس حوالے سے گیم چینجر سمجھا جا رہا ہے۔
نسلی امتیاز کے سلگتے معاملے پر بائیڈن کو 62 فی صد، جب کہ ٹرمپ کو 36 فیصد حمایت حاصل ہے۔ رواں برس کرونا وائرس نے ٹرمپ کو صحتِ عامہ کے حوالے سے حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے اور کرونا جس کو ٹرمپ نے فروری میں محض ایک فلو قرار دیا اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایسٹر تک ختم ہو جائے گا مگر ٹرمپ کے لیے یہ وائرس واٹرلُو ہی ثابت ہوا ہے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ٹرمپ کے صدارتی چناؤ سے قبل ہی کرونا ویکسین کی آمد اب ایک خوابِ غفلت بن کر ہی رہ گئی ہے۔ وہی ٹرمپ جو جنوری میں فوری ایمرجنسی اقدامات کی بَہ دولت لاکھوں امریکیوں کو بر وقت خبردار کر کے بچا سکتے تھے، لیکن ان کی سستی اور غیر سنجیدہ سوچ آڑے آئی اور دو لاکھ امریکی موت کے مُنھ میں چلے گئے، جب کہ ستر لاکھ کے قریب متأثر ہوئے۔
ٹرمپ محض کرونا کو چائنا وائرس ہی قرار دیتے رہے مگر وہ اپنے عوام کے لیے کچھ نہیں کر سکے اور یہی کرونا ان کی صدارت کا سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ خود بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اور ایسا مانا جا رہا ہے کہ صحت یابی کے باوجود وہ دوبارہ اس مہلک وائرس کا شکار بن سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ٹرمپ نے صحت کے شعبے میں اوباما کیئر کے بڑے حصے کو بھی منسوخ کرایا۔ دوسری جانب بائیڈن کا سات ٹریلین کا صحت پروگرام عوام میں پسندیدگی حاصل کر رہا ہے اور وہ عالمی ادارۂِ صحت کے ساتھ کرونا کو قابو کرنے کے حوالے سے بھی مستعد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یقیناً وہ اوباما کیئر پروگرام کو بھی امریکی عوام کے لیے بَہ حال کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی کو 59 فی صد حمایت ملی، جب کہ ٹرمپ صحت اور کروونا کنٹرول کرنے کی کوششوں کے حوالے سے 39 فی صد نمبر ہی لے سکے۔
تارکین وطن کے حوالے سے بھی ٹرمپ کی نا روا پالیسیوں کی بَہ دولت ہسپانوی، ایشین کمیونٹیز کی بھی اکثریت بائیڈن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی دکھائی دیتی ہے۔ علاوہ ازیں جہاں ٹرمپ نے اپنے دعووں کے بر عکس میکسیکو سرحد پر 450 میل طویل دیوار قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جس میں آدھا کام مکمل کیا جا چکا وہاں بائیڈن کا مؤقف واضح ہے کہ جتنا کام اس دیوار کے حوالے سے ہوا وہ کافی ہے۔ لہٰذا میں اس ضمن میں سارا پراجیکٹ مکمل کرنے کا حامی نہیں ہوں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ جہاں ہمیشہ ایک مفروضے سے تعبیر کرتے رہے ہیں وہاں وہ نہایت ڈھٹائی سے اس بات کا بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ میرے دور میں امریکہ کا ماحول بہترین رہا ہے۔ جب کہ جو بائیڈن سائنس پر بھی یقین رکھتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے امریکہ کو ایک بار پھر پیرس معاہدے میں شامل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
بائیڈن ٹرمپ کے بر عکس جوہری ٹیکنالوجی کو بھی ماحول کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کے حامی ہیں اور گلوبل وارمنگ کے تدارک کے لیے دو ٹریلین ڈالر کے پروگرام کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
آخر میں اگر خارجہ امور پر بحث کی جائے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کو خاصا متحرک رکھا ہے اور جہاں انھوں نے ایران کے ساتھ 2015 میں ہونے والے معاہدے سے انحراف کیا وہاں غیر متوقع طور پر شمالی کوریا کے کم جونگ کے ساتھ خاصے دوستانہ انداز میں مذاکرات جاری رکھے۔ جب کہ امریکہ کے دیرینہ یورپی اتحادیوں اور نیٹو سے ٹرمپ کا رویہ مسلسل سرد مہری کا ہی رہا اور اپنے امریکہ فرسٹ نعرے پر عمل کرتے ہوئے ہمسایوں کینیڈا اور میکسیکو سے بھی دوری بنائے رکھی۔ یوں ٹرانس پیسفیک پارٹنر شپ معاہدے سے بھی دوری اختیار کی۔
علاوہ ازیں اس سارے عرصے میں چین ٹرمپ کے مسلسل نشانے پر رہا۔ جہاں ایک طرف انھوں نے کرونا وائرس کو چین کی کار ستانی قرار دیا اور چین سے تجارتی محاذ پر بھی گرم رکھا وہاں انڈو پیسفیک محاذ پر بھی بھارت آسٹریلیا اور جاپان کے ہم راہ چین کے خلاف صف بندیوں کو فروغ دیا۔
البتہ روسی صدر ولادی میر پیوٹین کے سامنے ٹرمپ نے نرمی سے کام لیا اور انہیں ٹکر دینے میں ناکام رہے۔ تاہم افغانستان کے حوالے سے فروری میں دوحہ مذاکرات کے ذریعے ٹرمپ ایک پُر امن کابل اور امریکی افواج کی با وقار واپسی کے حوالے سے خاصے سرگرم دکھائی دیے۔
اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ مڈل ایسٹ کا خطہ ہی تھا جہاں ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری جیسی خاصی کام یابیاں سمیٹیں۔ اسرائیل کے عرب امارات، بحرین سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاملہ ہو یا مسلم دنیا کے تحفظات کے باوجود یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی ہو۔ ٹرمپ نے مڈل ایسٹ میں خاصی سفارتی کام یابیاں بٹوریں۔
لیکن ٹرمپ نے تہران کو خطے میں سرخ دائرے پر ہی رکھا اور جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے خطے میں کشیدگی کو انتہاؤں تک پہنچا دیا۔ یاد رہے کہ اس ضمن میں صدر ٹرمپ نے امریکی مقتدرہ کو بھی پس پشت ڈال دیا تھا۔ لیکن شام اور عراق میں داعش کے انہدام کو بھی ٹرمپ اپنے لیے اہم سنگِ میل قرار دیتے ہیں۔
جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی تاہم ٹرمپ سے کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکی عالمی وقار کی بَہ حالی ان کا اولین مشن ہے۔ جب کہ وہ بَہ طورِ صدر چین اور روس کو شیر کی نگاہ سے دیکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹرمپ کے بر عکس یورپی اتحادیوں سے قریبی تعلقات کے حامی بھی ہیں اور نیٹو کو بھی فعالیت دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ ایران کے جوہری پروگرام پر بائیڈن، باراک اوباما کی پالیسی کو اپناتے دکھائی دیتے ہیں اور اس معاملے کو تہران کے ساتھ ڈپلومیسی سے حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
بائیڈن شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے حوالے سے انتہائی سخت مؤقف رکھتے ہیں اور اس ضمن میں کم جونگ سے ملاقات کے بھی سخت مخالف ہیں۔ جب کہ بائیڈن افغانستان کے پیچیدہ مسائل کے حوالے سے ایک ڈسپلن کے تحت امریکی افواج کی واپسی کے خواہش مند ہیں۔
ان امور کے علاوہ صدر ٹرمپ کو 2019 کے آخر میں مواخذے کی کارروائی کا بھی سامنا ہوا جب ان پر الزام لگا کہ انھوں نے فون پر یوکرائنی صدر ولادی میر زیلنسکی پر پریشر ڈالا کہ وہ بائیڈن کے بیٹے کے خلاف بد عنوانی پر تحقیقات کرائیں۔ تاہم فروری 2020 میں سینٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کی بَہ دولت ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کیا گیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے ما بین 29 ستمبر کو ہونے والا پہلا صدارتی مباحثہ بھی خاصا ہنگامہ خیز رہا۔
صدارتی مباحثے سے قبل ٹرمپ کو جو بائیڈن کے مقابل ٹاؤن ہال سیشن میں بھی تجربہ کار اور گھاگ صحافیوں کے تند و تیز سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کہ عوام کے تیکھے ترش سوالوں کے سامنے بھی ٹرمپ کوئی تسلی بخش پوزیشن نہ لے سکے۔ اس کے بر عکس جو بائیڈن نے نہایت اعتماد سے عوام اور صحافیوں کے جوابات سنجیدگی اور مدلل انداز میں دیے۔ آخر کار دونوں حریفوں کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ کلیو لینڈ میں 29 ستمبر کو منعقد کیا گیا۔ جہاں بائیڈن اور ٹرمپ کا پہلا ٹاکرا شدید کشیدہ ماحول میں جاری رہا اور دوران بحث تلخی کا گراف آسمان کو چھونے لگا۔
اس مباحثے کے دوران معیشت، کرونا وائرس کی تباہ کاریوں، نسلی امتیاز، اعلیٰ عدلیہ میں جج تعیناتی، پر سیر حاصل گفتگو خاصے جارحانہ انداز میں جاری رہی۔ لیکن مباحثے کے نوے منٹ وقت میں ٹرمپ نے اپنے نہایت جارحانہ اور ڈھٹائی سے بھر پُور رویے کی بَہ دولت جس طرح جو بائیڈن اور میزبان کرس ویلس کو زچ کیے رکھا اس سے اس اہم ترین مباحثے کا معیار پست ترین ہو گیا اور امریکی عوام اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے صدر ٹرمپ پر کڑی تنقید کی۔
چند ایک انٹرنیشنل اخبار جیسے گارڈین نے اسے قومی توہین قرار دیا۔ اطالوی لا رپبلکا کے مطابق یہ مباحثہ انتشار زدہ اور باہمی منافرت پر مبنی رہا۔ فرانسیسی اخبار لبریشن نے اس بچگانہ اور ایک بد ترین طوفان سے تعبیر کیا۔
چین کے گلوبل ٹائمز کی نظر میں یہ مباحثہ امریکی انتخابی تاریخ کا بد ترین مباحثہ قرار پایا۔ مشہور ہندوستانی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے خاصا تیکھا تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکہ نے اس پلیٹ فارم سے مسلسل نوے منٹ تک خود کو شرمندہ کیا۔
حقیقت تو یہ رہی کہ ٹرمپ ایک گستاخانہ حملہ آور کے طور پر اس بحث میں کودے مگر وہ دلائل سے عاری باتیں ہی کرتے رہے جو محض الزام تراشی، خود پسندی کے درمیان ہی گھومتی رہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن کی پرفارمنس قدرے ٹرمپ سے بہتر رہی، مگر وہ بھی ٹرمپ کی بے جا مداخلت سے اتنا زچ ہوئے کہ اسے لائیو مباحثے میں جوکر کہہ بیٹھے اور واضح شٹ اپ کال بھی دے ڈالی۔ حالاں کہ وہ ٹرمپ کو انکم ٹیکس کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر لتاڑ بھی سکتے تھے۔
بائیڈن جذبات میں بھول گئے کہ کیچڑ میں کسی سور کے ساتھ نہیں گرنا چاہیے کیوں کہ آپ دونوں ہی گند میں گریں گے اور سور کو یہی پسند ہوتا ہے۔ ٹرمپ مسلسل انھیں کہتے رہے کہ 47 سالہ سیاسی کیریئر میں بائیڈن کچھ نہیں کر سکے۔
بہ ہر حال مباحثے کے بعد جو جائزے سامنے آئے CBS کے مطابق بائیڈن 48 فی صد ریٹنگ، جب کہ ٹرمپ 41 فی صد ریٹنگ تک ہی پہنچ سکے۔ تقریباً 83 فی صد امریکی عوام نے اس مباحثے کو منفی رجحان کا حامل قرار دیا۔ 17 فی صد نے اس کاوش کو معلومات افزاء قرار دیا۔ فارکاسٹر کے تحت پہلی صدارتی ڈبیٹ کے بعد بائیڈن کی مقبولیت 78 فی صد تک جا پہنچی ہے۔ سی این این پولز کے مطابق بائیڈن کو 57 فی صد جب کہ ٹرمپ کو 41 فی صد مقبولیت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ مارچ میں ٹرمپ کی حمایت 50 فی صد تھی جب کہ اب 67 فی صد عوام ٹرمپ کے خلاف ہو چکے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ دورانِ مباحثہ میزبان کرس ویلس نے ٹرمپ کو 76 بار جب کہ بائیڈن کو 16 بار ٹوکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی اسی ڈھٹائی کی بَہ دولت امریکی عوام کی اکثریت اب مزید کسی صدارتی مباحثے کو دیکھنے کے لیے عدم دل چسپی کا اظہار کر چکی ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے پچاس ریاستوں میں ایک بھر پُور، طویل اور مہنگی ترین انتخابی مہم جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔
دونوں امیدواروں کا فوکس اس وقت ان پچاس ریاستوں میں شامل ان سوئنگ سٹیٹس یعنی ایسی ریاستوں پر ہے جہاں ری پبلکن یا ڈیموکریٹ جماعتوں میں سے کوئی بھی سبقت لے جا سکتا ہے۔ ان ریاستوں میں شمالی کیرولائنا، آئیوا، اوہائیو، وسکانسن، پینسلوینیا، مشی گن، ایرزونا اور فلوریڈا شامل ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ما سوائے آئیوا کے دیگر تمام سوئنگ ریاستوں میں جو بائیڈن کی برتری ٹرمپ پر ہنوز برقرار ہے۔ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ قریباً دس سوئنگ ریاستوں میں ہیلری کو پچھاڑنے میں کام یاب رہے تھے۔ لیکن اس بار حالات سرخ ری پبلکن کے لیے کچھ سازگار معلوم نہیں ہوتے۔
تاہم دوسری طرف نیلے ڈیموکریٹس زیادہ پُر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں مگر سب کچھ تین نومبر کی صبح تک آشکار ہوجائے گا۔ اس سارے منظر نامے سے قطع نظر یہ مہیب خدشات بھی امریکی مقتدرہ اور کانگرس میں موجود ہیں کہ اگر ٹرمپ تین نومبر کا انتخاب ہار گئے تو ان کا رد عمل کیا ہو گا؟
کیا وہ پہلے سے ہی جیت کا اعلان کر دیں گے؟ کیا وہ ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ووٹوں کی حقانیت پر سوالات اٹھا کر انتخابات کی شفافیت کو تہس نہس کرنے کی کوشش کریں گے جس سے ایک بار پھر 2000 کے جارج ڈبلیو بش اور الگور کے متنازع الیکشن کی یاد تازہ ہو جائے گی؟ امریکی مقتدرہ، پینٹاگون، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور خفیہ اداروں پر مشتمل ہوا کرتی ہے اور گزشتہ چار برس وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیماب صفت اور غیر متوقع شخصیت کے سبب خاصی شاکی رہی ہے۔ لہٰذا وہ اس امر سے واقف ہے کہ ٹرمپ کبھی رولز کے مطابق نہیں چلتے اور انتشار پھیلا کر اسے کام یابی سے بیچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اس لیے یہ سوچ اعلیٰ امریکی حلقوں میں شدت سے پائی جاتی ہے کہ
The insider threat is sitting in the Oval Office.
خواتین و حضرات تین نومبر کی صبح تک انتظار کیجیے۔ دیکھتے ہیں ڈیلاوئیر کے جو بائیڈن یا نیو یارک کے ڈونلڈ ٹرمپ میں کون 270 الیکٹرول ووٹوں کے جادوئی ہندسے کو حاصل کر پاتا ہے اور امریکی عوام کی اجتماعی دانش ان دونوں میں سے کس فریق کو وائٹ ہاؤس کے اگلے مکین کے طور پر منتخب کرتی ہے؟