نااہلیت کی تلوار : کوئی بچے گا بھی؟
شیخ خالد زاہد
ماضی کے ایک وزیرِ داخلہ پاکستان کوحفاظتی حصار اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کسی بھی اہم موقع یا دن پر رابطے کے ذرائع بند کرنے کی ریت ڈالی جو ابھی تک چل رہی ہے اورکسی بھی اہم دن موبائل سروس بند کر دی جاتی ہے۔ نئے (جوکہ پرانے ہوچکے) وزیر داخلہ صاحب نے پاکستان میں شفاف تحقیقات کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا تحفہ دیا ہے۔
ہر کیس کے لیے مختلف اداروں سے افراد چن کر ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ خصوصی طور پر اس کا آغاز کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی شکل دے کر اپنے انجام کی جانب لے جانا تھا۔ ان ٹیموں نے کام کیا رپورٹیں بھی جمع کروائیں اور ان رپورٹوں کی بدولت ملزم اپنے کیے کے ثابت ہونے پر مجرم قرار پائے اور تختہ دار پر بھی لٹکائے گئے۔
ایک ٹیم پانامہ کیس کی چھان پھٹک کے لیے بھی بنائی گئی جس پر تقریباً ساری سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ظاہر کیا اور ساری سیاسی جماعتیں اس تحقیقاتی ٹیم کی تحقیقات پر مطمئن نظر آئیں سوائے تحقیقات کی زد میں آئی ہوئی میاں صاحب کی مسلم لیگ کے۔
یہ تحقیقاتی ٹیم ۲۰ اپریل کے پہلے فیصلے کی صورت میں تشکیل پائی، پہلے فیصلے کی سماعت جو تین جج کر رہے تھے ان میں سے دو جج صاحبان نے اسی دن اور اس وقت تک کی جرح کی بنیاد پر میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیا تھا، مگر حفظِ ماتقدم یہ ٹیم تشکیل دلوائی اور بھرپور چھان پھٹک کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر میاں صاحب کو نااہل قرار دیا گیا۔
جو کام ۲۰ اپریل کو نا ہوسکا وہ ۲۱ جولائی کو ہو گیا اور سن ۲۰۱۷ ہی رہا (ہم نے اپنے مضمون بعنوان ۲۰ اپریل آکر رہیگی میں لکھ دیا تھا)۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ جس نے نا جمہوریت کو گرنے دیا اور نا ہی بوٹوں کی آواز نے عوام اور سیاستدانوں کو خوفزدہ کیا اوران کے دلوں کو دہلایا، بلکہ پاکستان کی عدلیہ بھر پور کھوج سے دستیاب ہونے والے شواہد کی روشنی میں بغیر کسی سیاسی و عسکری دباؤ کے موجودہ وزیر اعظم کو سیاسی نااہل قرار دے دیا۔
چندغور طلب باتوں میں میاں نواز شریف صاحب اور ان کے اہل خانہ پر کوئی سیاسی کیس نہیں تھا (کیونکہ وہ اقتدار میں تھے سیاسی کیس بننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا) بلکہ ملک سے لوٹی گئی یاغیر واضح طریقے سے کمائی گئی رقم باہر منتقل کرنے کا الزام تھا جس کی باقاعدہ تحقیقات ہوئی اور تحقیقات کی روشنی میں پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ کے پانچ رکنی بینچ کے پانچوں معزز جج صاحبان نے میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیا۔
ایک طرف میاں صاحب اس بات پربضد ہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ ان کا قصور کیا ہے۔ وہ یہ تو بارہا پوچھ چکے ہیں کہ مجھے میرا قصور بتایا جائے مگر انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بچوں کا کیا قصور ہے انہیں کیوں اس معاملے میں گھسیٹا گیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بارہا میاں صاحب کے بچوں اور دیگرتعلق داروں کو بھی بلایا کہ وہ یہ بات واضح کردیں کے آمدنی کے ذرائع کیا تھے اور جو پیسہ ملک سے باہر گیا وہ کیسے گیا، مگر یہ بات ثابت کرنے کے لیے پیش کی جانے والی دستاویزات ناکافی ثابت ہوئیں۔ جو لوگ تفصیلی فیصلے کی ورق گردانی کر چکے ہیں وہ یہ بتاسکتے ہیں کہ فیصلے میں غلط تو بہت واضح ثابت ہوگیا اور دنیا نے دیکھ لیا مگر کوئی پیش کی جانے والی دستاویزات ٹھیک بھی تھیں یا نہیں۔
ہمارے ملک میں کسی بھی معاملے، حادثے یا کسی بھی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسی وقت اقدامات کئے جاتے ہیں جسے ہنگامی اقدامات کہا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی باقاعدہ حکمتِ عملی تیار نہیں کی جاتی ۔ پانامہ لیکس کے بعد سے پاکستان کے سیاسی ماحول میں ایک ایسی گرما گرمی تھی جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اس گرماگرمی کی وجہ سے ہی ملک میں گرم موسم بھی بہت طویل اور شدید ہوگیا۔
میاں صاحب آخری دم تک یہی سوال کرتے رہے کہ مجھے نااہل کرنے کی وجہ تو بتا دو بہر حال آج پاکستان کے نئے عبوری وزیرِ اعظم حلف اٹھائیں گے جس کے لیے قوی امکان ہے کہ محترم شاہد خاقان عباسی صاحب ایوان میں واضح اکثریت ہونے کی بناء پر اس عہدے کو رونق بخشیں گے۔ دوسری جانب اس خیال کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ نواز لیگ میں اگر کوئی منفی گروپ بن گیا ہے اور وہ نواز لیگ کے ساتھ آگے چلنے کو تیار نہیں تو پھر شائد ہُما کسی اور کے سر پر بیٹھ جائے جس کے امکان بہت کم ہیں مگر ہیں۔
آخر یہ احتساب ایسی کون سی بلا ہے جس سے سب ہی بوکھلائے ہوئے اور خوفزدہ دکھائی دیتے ہیں ۔ احتساب کرنے والے بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی بھی ہیں تو پھر بوکھلاہٹ اور خوف کس بات کی ہے۔ اگر واقعی انصاف چاہتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کردیں۔
ہمیں کوئی احتساب کا پیمانہ بنانا پڑے گا اور اس کے لیے ایک دستاویز مرتب کرنی پڑے گی۔ جیسی ایک دستاویز ۲۰۰۷ میں قومی مفاہمتی فرمان (NRO) بنایا گیا یا لگایا گیا جس کے تحت سارے کہ سارے کرپٹ اور بے ایمان لوگ ایسے ہوگئے جیسے کبھی کسی ایسے گناہ کے مرتکب ہی نا ہوئے ہوں۔ کیا اس قومی مفاہمتی فرمان کا نام بدل کر ۲۰۱۷ میں پاکستان تحریک انصاف تو نہیں رکھ دیا گیاہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پاکستان میں تو سیاست کرنے والا کوئی نہیں ملے گا یہاں تو انتخابات میں پارٹی ٹکٹ ہی اسے ملتا ہے جو اپنی سیاسی جماعت کے لیے یا پھر جماعت کی قیادت کے لیے کسی نا کسی قسم کی کوئی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔
ہم مسلمانوں کو تو ایک دن ایک ایسے احتسا ب کے عمل سے گزرنا ہے جہاں پاکستانی ، سعودی یا قطری نہیں ہونگے بس مسلمان ہونگے وہاں احتساب کرنے والوں کو ہمارے کاغذات کی ضرورت نہیں ہوگی انہیں ہمارے بینک کے گوشوارے نہیں چاہئے ہونگے اور نا ہی گھروں کے کاغذات اور وہاں تو بچوں کے بارے میں بھی کوئی بات بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ، اس دن تو ہماری زبانیں گنگ ہونگی کیونکہ ہمیں وہ سب کچھ ہمارا خالق و مالک ہمارا حقیقی محتسب سزا و جزا سنا رہا ہوگا کسی کو اپیل کرنے کی بھی جرات نہیں ہوگی اس وقت تو اگر کچھ ہوسکے گا تو انسان صرف ایک ہی صدا لگائے گا کے ہائے خسارہ ہائے خسارہ۔
بغیر کسی سیاسی جماعت کی سوچ سے حمایت یا اختلاف کرتے ہوئے گزشتہ چار سالوں کا جائزہ لیجیے، پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا جبکہ دوسری طرف دہشت گردی سے بری طرح اثر انداز ہوئے ہیں، عوامی مسائل اپنی جگہ جوں کے توں ہی رہے۔ ایک انتخابات پر کتنا خرچہ آتا ہے اس بات کا اندازہ لگانا بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
اپنے اس مضمون کے توسط سے پاکستان کی اعلی عدلیہ اور وہ پالیسی ساز اداروں سے درخواست کرنا چاہونگا کے نااہلی کی کوئی شرط الیکشن کمیشن کی ان شرائظ میں شامل کروائیں جس کی بنیاد پر کسی کاغذات جمع کروانے والے امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اگر اسی طرح لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے آتے رہے اور پھر ان پر الزامات کی بنیاد پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل پاتی رہیں اور تین سے چھ ماہ تک یہ ٹیمیں تحقیقات کر کے نااہل قرار دیتی رہیں تو ہمارے ملک کی خصوصیات میں ایک اور اضافہ ہوجائے گا کہ جہاں انتخابی عمل سے گزر کر نااہل قرار پاتے ہیں۔
یہ انتخاب کے عمل میں بہت بڑی خلیج ہے جس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اوراتنی ضرورت شائد اس سے قبل کبھی بھی نہیں رہی ہوگی۔ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے شفاف احتساب کی ابتداء بہت ضروری تھی اور وہ یقیناً ہو چکی ہے اب اس عمل کو آگے لے کر جانا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دہشت گردی کے خلاف سارا پاکستان ایک ساتھ کھڑا ہے اسی طرح معاشی دہشت گردی کے خلاف بھی، کرپشن کیخلاف بھی بغیر کسی سیاسی نعرے بازی اور سیاسی مفاد کے ایک ساتھ کھڑے ہونا پڑے گا۔
جس کسی پر بھی انگلی اٹھتی ہے اسے اپنے آپ کو احتساب کے لیے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ کون ۶۲ اور ۶۳ پر پورا اترتا ہے اور کس کو نااہلیت کی تلوارذبح کرتی ہے بلکہ قتل کرتی ہے۔