ڈپٹی سپیکرز کی رولنگ اور مظفر شاہ کی سینٹ میں گنتی
از، یاسر چٹھہ
جناب رشید چودھری سیاست، شہریت اور ترقی کے موضوعات پر رائے رکھتے ہیں اور مناسب انداز اور سنجیدگی سے رائے پیش بھی کرتے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے پنجاب اسمبلی کی پنجاب اسمبلی میں سپریم کورٹ کے حکم پر وزیر اعلیٰ پنجاب رن آف الیکشن کے دوران ایک رولنگ دی ہے۔ اس رولنگ پر سیاسی حلقوں اور عوام میں ایک مکالمہ چل نکلا ہے۔ اس مکالمے میں حصہ لیتے ہوئے رشید چودھری نے اپنی رائے پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
اچھی بات یہ ہے کہ دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف بہت سے غیر جانب دار ماہرین بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔ مگر وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں جو اس سے پہلے اَن ہونیاں ہوئیں ان پر اس طرح کی ہاہا کار مچتی تو یہاں تک نوبت ہی نہیں آتی۔
چند ایک حالیہ واقعات پر مبنی یہ نِکات ملاحظہ ہوں:
- پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ان کی پارلیمانی پارٹی نہیں، بَل کہ پارٹی سیکرٹری جنرل نے روکا، اس کے با وُجود وہ نا اہل ہو گئے۔
- سپریم کورٹ کی پارٹی پوزیشن سے انحراف پر ایڈوائس حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد آئی، جس میں منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کا عجیب فیصلہ دیا گیا۔
- اس کے باوجود لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کے انتخاب میں ان کو ملنے والے ووٹوں میں سے پچیس ووٹ شمار نہ کرنے کا حکم دے کر رن آف الیکشن میں جانے کا حکم دیا۔
- یعنی جو کل دوست محمد مزاری نے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ کیا، وہی عدالت نے حمزہ کے ساتھ کیا۔
- لاہور ہائی کورٹ کے فوری طور پر الیکشن کے دوسرے مرحلے کا حکم دیا، جس میں سادہ اکثریت کی بَہ جائے حاضر اراکین کی اکثریت سے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوتا۔ اس انتخاب کی تاریخ اور وقت بھی مقرر ہو گیا۔
- چوں کہ حمزہ شہباز کے پاس حاضر اراکین کی اکثریت موجود تھی لہٰذا اس کے خلاف سپریم کورٹ جایا گیا اور یوں ضمنی انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر اتفاق ہوا۔
- اس فیصلے سے بیس نشستوں کا انتخاب پورے پنجاب کی قسمت کا انتخاب بن گیا جس میں پارٹیوں نے زور لگایا۔
- اگر حمزہ کے پہلے انتخاب کو تاویلوں کی زَد میں لا کر ختم نہ کروایا جاتا اور ضمنی انتخاب میں اسمبلی کی بدلتی ساخت کے مطابق عدمِ اعتماد کے ذریعے وزیر اعلیٰ بدلے جاتے تو سب پارٹیوں، عدالتوں اور آئین و قانون کی عزت پَت بچی رہتی۔ اب ایک فریق کے کل کے دلائل آج کے دلائل بن گئے ہیں، اور ایک سرکس ہے جو جاری ہے۔
سپریم کورٹ جب ‘عارضی’ نوعیت کے فیصلے/ایڈوائس جاری کرتا ہے تو ‘نیوٹرل’ ماہرین اور کارکن ٹائپ نیوٹرل ماہرین بغلیں بجاتے ہیں۔ عارضی نوعیت کے بلبلے فیصلوں پر ناچ خوشی بھی بلبلے جیسے ہوتی ہے۔ یہ فطرت کی عادت ہے اور اصول ہے۔
سپریم کورٹ قانون کو بالائے طاق رکھ کر پنچایتی موڈ میں کَچیاں اور خام باتیں مارتا جاتا ہے۔
جب ان کَچی کَچیوں سے کسی کی بھی قسمت جاگتی ہے تو واہ واہ ہوتی ہے، اور جب ان کی قسمت پر پانی پڑتا ہے تو وہی آہ آہ کرنے لگتے ہیں۔
صدارتی ریفرنس بھیجا کا جانا (کہا گیا کہ حق بات ہے جی، ملک کا اہم موڑ ہے، ڈی فائنِنگ مَومَنٹ ہے جی!)
سپریم دربار کا ایڈوائزری اعلامیہ یا فیصلہ آتا ہے۔
ایک گروہ کا روزہ رکھتے جیسے وقت میں ووٹ نہ گِنا جانا (کام یابی تھا۔) روزہ طویل ہوا تو ووٹ نہ گِنا جانا (بے ہودہ ہو گیا۔)
یہی مذاق ہے جو چلتا جاتا ہے۔
دوست مزاری کی رُولنگ، قاسم سوری کی رولنگ، دوست محمد مزاری کی گنتی اور مظفر حسین شاہ کی بہ طورِ الیکشن پریزائڈنگ افسر سینٹ چیئرمین سنجرانی کے لیے گنتی اور رولنگ (ان پر نیوٹرل اور اشد نیوٹرل ماہرین کو اپنے فہم اور اس فہم اور اخلاق کو پرکھنے کے لیے پیمانہ دے گا۔
جب تک ہم پاکستان عوام اور ہمارے ماہرین کو پیمانہ نہیں ملتا تو پھر ہمیں قلندری کرتے جانا چاہیے، جھومتے جانا چاہیے اور ماتم کرتے رہنا چاہیے۔ سچ ہے کہ ہم ٹریجی کامیڈی ہی تو ہیں۔
ہم چند حالیہ رُولنگز دینے والے افراد کی پروفائلز پیش کرتے ہیں، تا کہ ان لوگوں کے پسِ منظر سے آگاہی کے کام آ سکیں۔
سردار دوست محمد مزاری
دوست محمد مزاری پاکستانی سیاست دان ہیں جو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی سنہ 2018 سے چلتی آتی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ہیں۔ وہ اگست 2018 سے اس عہدے پر موجود ہیں۔
وہ 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار کے طور پر حلقہ NA-175 (راجن پور-II) سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے 78,427 ووٹ حاصل کیے اور سردار نصراللہ خان دریشک کو شکست دی۔
انھوں نے 2013 کے پاکستان کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حلقہ این اے 175 (راجن پور-II) سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا لیکن وہ ناکام رہے۔ انھوں نے 73,885 ووٹ حاصل کیے اور حفیظ الرّحمان سے سیٹ ہار گئے۔
وہ 2018 کے پاکستانی عام انتخابات میں حلقہ پی پی-297 (راجن پور-V) سے پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے انتخاب کے بعد، پی ٹی آئی نے انھیں پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے نام زد کیا۔ 16 اگست 2018 کو وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے مد مقابل ملک محمد وارث کالو کے مقابلے میں 187 ووٹ حاصل کیے جنھوں نے 159 ووٹ حاصل کیے۔
6 اپریل 2022 کو، 2022 کے پاکستانی آئینی بحران سے پیدا ہونے والے حالات کے بعد ان کی اپنی پارٹی نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کی تھی۔
قاسم خان سوری
قاسم خان سوری (16 جنوری سنہ 1969) ایک پاکستانی سیاست دان ہیں۔ انھوں نے 15 اگست 2018 سے 16 اپریل 2022 تک پاکستان کی قومی اسمبلی کے 19 ویں ڈپٹی سپیکر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
وہ جنوری 1969 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، اس قبیلہ کے ایک پشون خاندان میں، جو خلجیوں کا ذیلی قبیلہ ہے۔ ان کے والد کا دواؤں کا کاروبار تھا جو سوری نے 1997 میں اپنے والد کی وفات کے بعد سنبھالا۔
ان کی والدہ اردو بولنے والے پسِ منظر کی ہیں۔ سوری نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اسلامیہ سکول سے حاصل کی اور سنہ 1988 میں فیڈرل گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ انھوں نے 1990 میں پولیٹِکل سائنس میں بیچلر ڈگری اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں سنہ 1992 یونی ورسٹی آف بلوچستان سے ماسٹر ڈگری حاصل کی ہیں۔
قاسم سوری سنہ 1996 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے وابستہ ہیں، لیکن 2007 میں فعال رکن بن گئے۔
انھوں نے 2013 کے پاکستانی عام انتخابات میں حلقہ این اے 259 (کوئٹہ) سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے حصہ لیا لیکن وہ کام یاب نہیں ہوئے۔ انھوں نے 16,006 ووٹ حاصل کیے اور محمود خان اچکزئی سے نشست ہار گئے۔
وہ 2018 کے پاکستانی عام انتخابات میں NA-265 (کوئٹہ-II) سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے 25,973 ووٹ حاصل کیے اور نواب زادہ لشکری رئیسانی کو شکست دی۔
قاسم سوری کے انتخاب کے بعد، پی ٹی آئی نے انھیں 13 اگست 2018 کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے لیے نام زد کیا۔ 15 اگست 2018 کو وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ انھوں نے کل 327 میں سے 183 ووٹ حاصل کیے، اپنے حریف اسد محمود کو شکست دی جنھوں نے 144 ووٹ حاصل کیے۔
27 ستمبر 2019 کو، بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک الیکشن ٹربیونل نے قاسم سوری کے انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا اور حلقے میں نئے انتخابات کا حکم دیا، جس کے نتیجے میں ان کی ڈی نوٹیفی کیشن ہوئی۔ تاہم، 7 اکتوبر 2019 کو، سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو معطل کر دیا اور الیکش کمیشن آف پاکستان (ECP) کو حکم دیا کہ وہ NA-265 کے لیے انتخابی شیڈول جاری نہ کرے۔ سپریم کورٹ کا یہ سٹے آرڈر قاسم سوری کی مرضی تک سپریم کورٹ کا سٹے آرڈر ہی رہا۔
3 اپریل کو، بہ طورِ ڈپٹی سپیکر، قاسم سوری نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا، اور دعویٰ کیا کہ امریکی مداخلت آئین پاکستان کے آرٹیکل 5 کے خلاف ہے۔
انھوں نے 16 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے استعفیٰ دے دیا۔
مظفر حسین شاہ
سید مظفر حسین شاہ پاکستانی سیاست دان اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔ وہ 1968 میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سرگرم رکن ہیں۔ انھیں صدرِ مملکت نے نو منتخب سینیٹرز کی حلف برداری اور چیئرمین سینیٹ 2021 کے انتخاب کے اجلاس کی صدارت کے لیے نام زد کیا تھا۔
ان کا سیاسی کریئر درج ذیل ادوار پر مُحیط ہے:
- وہ سنہ 1980 سے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سینئر نائب صدر ہیں۔
- وہ (1982-1980) کے دوران ضیاء الحق مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔
- وہ (1983-1984) کے دوران وزیر صنعت سندھ حکومت رہے۔و
- وہ (1988-1986) کے دورکا سپیکر صوبائی اسمبلی سندھ رہے۔
- وزیر قانون، پارلیمانی امور، زرعی اراضی کا استعمال، وزیر رابطہ، حکومت سندھ (1990-1992)
- وزیراعلیٰ سندھ (1992-1993)
- سپیکر صوبائی اسمبلی سندھ (2008-2002)
- ممبر پارلیمنٹ (سینیٹر: 2012 سے 2018)
- ممبر پارلیمنٹ (سینیٹر: 2018 سے 2024)
ان کی سنہ 2021 میں چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران بہ طورِ پریذائڈنگ آفیسر اور ووٹوں کی گنتی اور رولنگ کا کافی چرچا رہا۔