ڈاکٹر امبیدکر اور اچھوتوں کا تبدیلی مذہب
از، ملک تنویر احمد
کراچی میں گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے کتب میلے میں دوسری کتابوں کے علاوہ منفرد اسلوب نگارش کے حامل اور صاحب طرز ادیب مختار مسعود کی چوتھی تصنیف حرف شوق بھی خریدی ۔ آواز دوست، سفر نصیب اور لوح ایام جیسی تصانیف سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے مختار مسعود کی چوتھی کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی ۔یہ کتاب بنیادی طور پر علی گڑھ یونیوسٹی، سر سید احمد خان اور مختار مسعود کے ذاتی مشاہدات اور تجربات کے گرد گھومتی ہے اس کے ساتھ ساتھ تاریخی حالات و واقعات کا بھی تذکرہ کرتی ہے جس نے برصغیر کے خطے میں تاریخ کا دھارا موڑا۔ مختا ر مسعود ہندوستان میں بسنے والے اچھوتوں کے سب سے بڑے رہنما ڈاکٹر امبیدکر کے بارے میں بڑے دلچسپ حقائق بیان کرتے ہیں۔
ڈاکٹر امبیدکر ہندو سماج میں ذات پات کی بنیادوں پر پروان چڑھنے والی نفرت کے باوجود اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ اسکول میں جہاں دوسرے اچھوت لڑکے اونچی ذات کے ہندو لڑکوں کی نفرت کا نشانہ بن کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے وہیں پر ڈاکٹر امبیدکر نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہائی اسکول پاس کر لیا ۔ڈاکٹر امیبدکر جب کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آئے تو بڑودا ریاست کے شودر مہاراجہ نے انہیں ایک عہدہ دے دیا لیکن انہیں یہاں بھی قرار نہ آیا اور پھر وہ انگلستان میں مزید تعلیم کے لیے چلے گئے۔اس اچھوت نوجوان کے لیے سب سے آسان تھا کہ وہ انگلستان کے رنگین ماحول کی وسعتوں میں کھو جاتا لیکن اس نے ہندوستان آنے کو ترجیح دی۔
اس پیدائشی شودر نے واپس آکر وکالت شروع کی اور ساری عمر ایک ہی مقدمہ لڑنے میں زندگی صرف کر دی۔یہ اچھوتوں کا مقدمہ تھا۔اچھوت بنام اعلیٰ ہندو ذاتیں، اچھوت بنا م ہندو مذہب، اچھوت بنام بر طانوی سرکار، اچھوت بنام دیگر مذاہب۔
ڈاکٹر امبیدکر اور ان کے قریبی ساتھی کئی سال تک یہ تحقیق کرتے رہے کہ کون سا مذہب ہے جسے اختیار کرنے سے شودر اس خطے میں ایک عام انسان کی طرح عزت اور وقار سے زندگی گزار سکتے ہیں۔تحقیقات کا نتیجہ بہت دلچسپ رہا۔اس تحقیق کے مطابق، عیسائیت اختیار کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ مذہب تبدیل کرتے ہی شودر دنیا کے ایسے معاشرے سے منسلک ہو جائیں گے جو تہذیب، تعلیم، صنعت، تجارت اور فوجی قوت کے اعتبار سے سب سے ممتاز ہے۔ یہ ایک لبرل معاشرہ ہے جہاں شراب، سود، سور اور عورت پر کوئی پابندی نہیں ہے تاہم اس تجویز میں دو بڑی خرابیاں ہیں۔
پہلی یہ کہ ہندوستان میں پیدائشی مسیحی چونکہ تعداد میں کم ہیں اس لیے وہ شودروں کے اپنے سے کئی گنا بڑے گروہ کی مصلحت آمیزی اور روحانیت سے عاری تبدیلی مذہب کے اس منصوبے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے اپنے گروہی مفاد کے منافی سمجھتے ہیں۔دوسری خرابی یہ ہے کہ ہندوستان پر برطانوی سامراج کی حکومت ہے اور عہد غلامی میں ان مسیحی حکمرانوں کے خلاف جمع شدہ رنجشیں اور نفرتیں مذہب تبدیل کرتے ہی شودروں کے کھاتے میں لکھ دی جائیں گی۔
یہی نہیں بلکہ آزادی کی تحریک میں وہ غلط رخ پر کھڑے ہو جائیں گے۔ سب سے کٹ جائیں گے، تنہا رہ جائیں گے اور ناکردہ گناہوں کا حساب اور دور غلامی کی زیادتیوں کا انتقام ان سے لیا جائے گا۔سکھ مذہب میں شمولیت اختیار کرنے کے نفع نقصان کا حساب لگانے کے لیے شودروں کے نمائندوں نے کچھ عرصہ گولڈن ٹمپل میں قیام کیا۔انہیں سکھ مذہب اختیار کرنے کا یہ فائدہ نظر آیا کہ عیسائی ہوجانے بر خلاف اس طرح شودر ہندوستان قومیت کو برقرار رکھ سکیں گے۔
اس فائدے کے بر خلاف تجویز میں دو خامیاں تھیں۔شودروں کو جو سار ے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے یہ بات کیونکر پسند آسکتی تھی کہ وہ کیونکر ایک ایسے مذہب میں شامل ہو جائیں تو علاقائی نوعیت کا ہے اور وہ بھی ہندوستان کے فقط ایک صوبے تک محدود ہے۔
ادھر سکھوں نے بھی اس تجویز کا خیر مقدم نہیں کیا۔ اکالی سکھوں نے سوچا اتنی مشکلوں سے گردواروں کا قبضہ ہندوؤں سے لیا ہے اور اگر شودر آگئے تو تعداد کے بل بوتے پر وہ ہماری عبادت گاہوں پر مکمل قبضہ کر لیں گے۔سکھوں کے آدھ فرقے نے شودروں کے رہنماؤں کو ڈرایا کہ ہم توخود سکھوں کے اچھوت ہیں۔ ہماری حالت دیکھو، عبرت حاصل کرو اور اس مذہب سے دور رہو۔
اب اسلام کی باری آتی ہے۔ مسلمان بڑے یقین اور زور و شور کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ جیسی مساوات اسلام میں ہے ویسی کہیں بھی نہیں۔ادھر حالت یہ ہے کہ ہندوستان پر کئی صدیوں تک حکومت کرنے کے بعد بھی وہ عدم مساوات کے ستائے ہوئے ذلیل و خوار اچھوتوں کی قابل ذکر تعداد کو مسلمان نہیں بنا سکے۔اب انگریز راج میں وہ کون سی دلیل یا نظیر لائیں گے کہ اچھوتوں کو اسلام اختیار کرلینا چاہیے۔ دوسری جانب اسلام اختیار کر لینے سے وہ ایک ایسی قوم کا حصہ بن جائیں گے کہ ہندوستان کی تقسیم کے تنازعے میں ایک فریق ہے اور کلمہ پڑھتے ہی وہ فسادات کے فریق کے طور پر انہیں محاذ جنگ پر ہی نہ بھیج دے۔
اسلام اختیار کرنے والوں کے مخالف طبقے نے کہا کہ ہندوستان میں بسنے والوں مسلمان تو خود نسلی اور پیشہ وارانہ ذاتوں میں تقسیم ہیں۔ شودروں میں بحیثیت مجموعی دوسرا مذہب اختیار کرنے معاملے میں ایک گروہ کا تقاضا یہ تھا کہ آریا سماجی ہو جاؤ، سکھ ہو جاؤ، بدھ ہو جاؤ جو چاہو ہو جاؤ مگر ہر گز ہر گز مسلمان نہ ہونا۔ بالآخر یہی فیصلہ ہوا۔
مہاسبھائی ڈاکٹر مونجے جنہوں نے جے۔کے۔برلا کے ہمراہ ڈاکٹر امبیدکر سے اس سلسلے میں خفیہ ملاقات کی اور اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دیا۔ یہ فیصلہ چند سال تک تعطل کا شکار رہا لیکن آخر کار ڈاکٹر امبیدکر نے اپنے دو لاکھ پیروؤں کے ساتھ اس وقت ہندو مذہب چھوڑا جب انہیں ایک متنازع تقریر کی بناء پر ہندوؤں کی اونچی ذات نے ہدف تنقید بنایا۔
ناگپور شہر میں ڈاکٹر امبیدکر نے دو لاکھ شودروں کے ساتھ ہندو مت چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا۔ آبائی مذہب سے بیزاری کا اتنا بڑا نظارہ ہندوستان نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ڈاکٹر امبیدکر نے وعدہ کیا تھا کہ کہ ہندو کی حیثیت سے نہیں مروں گا۔ اسے انہوں نے دو حصوں میں پورا کیا۔ اکتوبر کے مہینے میں تبدیلی مذہب کا جشن منعقد کیا اور چند ہفتے بعد دسمبر میں ان کا انتقال ہو گیا۔