ماحولیاتی تنقید پہ ڈاکٹر اورنگزیب نیازی کا احسان
از، نوشین قمر
میں ٹھہری ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں کی مصداق۔ کتاب کی خبر تو کب کی مل چکی تھی مگر اس کے دیدار سے محروم رہی۔ اتنی کالیں اور ای میلز زندگی میں کسی کو نہیں کی ہوں گی جتنی سائنس بورڈ والوں کو کیں۔ بھلا ہو یاسر چٹھہ کے آرٹیکل کا جس کے آخر پہ اس کتاب کو منگوانے کا ایک اور پتا درج تھا۔ جوں توں کر کے بالآخر کتاب زیرِ دست تھی۔
ماحولیاتی تنقید: نظریہ و عمل (منتخب مضامین) ترجمہ: ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، جیسے قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو ۔ میرے لیے اسے قارون کا خزانہ کہا جائے یا مَن و سلوٰی ایک ہی بات ہے کیوں کہ مجھے اس موضوع پر اپنا مقالہ لکھنا ہے اور اس سے متعلقہ مواد اردو میں تقریباََ نہ ہونے کے برابر تھا۔
انگریزی کے کتنے مضامین پڑھتی آخر ایک حد ہوتی ہے اسے ہضم کرنے کی (اور میری جیسی طالبہ اسے پڑھنا دردِ سر سمجھتی ہے)۔ چند ایک مقالے اس موضوع پر ملے،کچھ مضامین نظر سے گزرے مگر تشنگی ابھی باقی تھی۔ میں کسی ایسے جگاڑ کی تلاش میں تھی کہ گھی بھی نکل آئے اور انگلی بھی ٹیڑھی نہ کرنی پڑے اور میری یہ تلاش اورنگ زیب صاحب نے تمام کر دی۔
فطرت نگاری، منظر نگاری، نیچرلزم وغیرہ جیسی اصطلاحات سے تو واقفیت تھی ہی جن کی پیدائش کا سہرا انیسویں صدی کو جاتا ہے، لیکن آخر یہ ماحولیاتی تنقید کیا بلا تھی۔ پی ایچ ڈی کے پہلے سمسٹر میں اس سے سرسری سا تعارف ہوا، دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور اس کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔
مگر وہی بات کہ محترم سہیل احمد کا ایک ہلکا پھلکا مضمون، جناب عزیز احمد کا تعارفی مضمون اور نسترن احسن فتیحی کی ایک کتاب، ایکو فیمینزم اور عصری تانیثی اردو افسانہ، دیدبان کے تیسرے شمارے کا اداریہ میرا کل سرمایہ تھے۔ مزید خواری کے بعد چند اور مقالے ہاتھ لگے مگر ان میں نیا کیا تھا؟ تعارفی نوٹ، چند شعری مثالیں، یا افسانوں کے مختصر تجزیے۔ شکر اس بات کا ادا کیا کہ چلو کچھ ہے تو سہی۔
اگرچہ انگریزی ادب میں بھی ایکو کرٹی سزم (ماحولیاتی تنقید) بیسویں صدی کے آخری عشروں میں متعارف ہوئی اور اس پر باقاعدہ لکھا جانے لگا۔ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور جزنلز نکلنے لگے۔ ان کا مطالَعَہ کیا جائے تو ابتدائی طور پر وہاں کے مصنفین بھی یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس موضوع پر جو عالمی توجہ کا طالب تھا اب تک کچھ نہیں لکھا گیا۔
وہ تحریریں جو اس نظریے کے تحت پرکھی جانی چاہییں تھیں اب تک توجہ چاہتی ہیں۔ وہاں کا رونا کام آیا اور اس جانب توجہ دی گئی مگر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں اردو والوں میں کسی کو اب تک رونا نہیں آیا۔ ناول، افسانے شاعری اپنا رونا خود رو رہے ہیں کہ ہمیں فطرت و منظر نگاری کا اور کتنا رگڑا لگانا ہے۔
مجید امجد کا جانے ہم کب پیچھا چھوڑیں گے۔ ایک دوسرے کے مضامین کے حوالے دینا تو ضروری ہیں ہی مگر خود کیا تلاشا؟ کیا نیا سامنے لائے؟ اس پہ تنقید خاموش ہے۔
بھلا ہو ڈاکٹر اورنگ زیب کا کہ انھوں نے اس کمی کو محسوس کیا اور اس حوالے سے ترجمے کی صورت اس کارِ خیر میں حصہ ڈالا۔ میں اسے کسی احسان سے کم نہیں گردانوں گی۔ انھوں نے جن کتابوں کا حوالہ پیش کیا ہے وہ اس کی بنیاد مانی جاتی ہیں اور انھی کو اردو کے قالب میں ترجمے کی صورت میں ڈھالنا ایک معرکہ سَر کرنے سے کم نہیں۔ اس کے ابتدائی چند مضامین کو خود بھی ٹیڑھا میڑھا ترجمہ کر چکی تھی، مگر اس ترجمے کے بعد انہیں دیکھا جائے تو… ۔
خیر اورنگ زیب نیازی صاحب نے جس طرح اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تحریر کو ڈھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ بات آنکھ بند کر کے قبول کی جانے والی ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ کہنا کہ انھوں نے کوشش کی ہے کہ ترجمے کو آسان اور روانی کے ساتھ پیش کیا جائے تا کِہ قارئین کو پڑھنے میں آسانی رہے۔ میرے جیسا قاری تو صد شکر ادا کرتا ہے۔
نئی اصطلاحات، نئے مفاہیم اور نظریات جن کو جُوں کا تُوں بیان نہیں کیا جا سکتا، مگر اسے سمجھ کر اس کے مفہوم کی ادائیگی کو بیان کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہر مضمون کے ساتھ اس کے متعلقہ حوالہ جات بیان کرنا، حواشی کی صورت وضاحت پیش کرنا، ماحولیاتی تنقید سے متعلقہ اصطلاحات کا تعارف پیش کرنا، مضمون نگاروں سے آشنائی کرانا، ماخذات کا بیان اور پھر آخر میں اسماء کا ذکر ایک مکمل کتاب کی صورت میں موجود ہے۔ جسے ایک مترجم کی بڑی خصوصیت مانا جاتا ہے کہ ایک ایسے موضوع کا انتخاب کرنا جو اردو میں بالکل نیا ہے اور اس کا ترجمہ کرنا جس کی اصطلاحات بھی ہمارے ہاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ایک قابلِ تعریف کام ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر صاحب نے ابتداء میں اس کتاب کی اہمیت کو خوب بیان کیا ہے اور جانب ہماری توجُّہ دلائی ہے کہ ادب کا ہتھیار کس طرح اس بڑے نقصان سے ہمیں آگاہ کر سکتا ہے جس میں آج صرف مغربی دنیا ہی نہیں بَل کہ ہم بھی گِھرے ہوئے ہیں۔ وہ ماحول جو ہمارے جینے کی وجہ تھا اور جس نے ہمیں ہمارا ہونا بتایا تھا آج کن خطرات سے دو چار ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اب ہم اسے کس طرح تلاش کرتے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے کون سا ہتھیار چنتے ہیں۔ اس کار خیر میں اورنگ زیب صاحب تو بسم اللہ کر چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلا قدم کون اٹھاتا ہے۔