ڈاکٹر ڈینس آئزک کہاں ہیں۔۔۔؟
از، سرفراز تبسُّم
ڈرامہ نگار ہو شاعر ہو موسیقار ہو یا پھر ایک مصّور اُسے فن کی داد دینے والوں کی ضرورت رہتی ہی ہے اگر فن کار کے فن کو سراہا نہ جائے تو پہلے فن مرتا ہے پھر فنکار اور اگر خوش قسمتی سے کسی تخلیق کار کو مخلص پیار کرنے والے چاہت والے لوگ مل جائیں تو تخلیق کار کی تخلیق یافن پارہ بے مثال ہوجاتا ہے۔
ایک وقت تھا جب لوگ پی ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں کا ہفتہ بھر بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ 80ء کے آغاز میں ایک نام ڈرامہ رائٹر کے طور پر اُبھرا ان کا پہلا ڈرامہ سیریز 1982’دو راہ‘ کے نام سے ٹیلی وژن پشاور سے ٹیلی کاسٹ ہوا۔ پھر سلسلہ وار ان کے مشہور ڈرامے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے گئے ان کے ڈراموں کی فہرست میں سلاخیں 1988، کرب، بارش 1990، کروبی 1992، اور پھر کچھ اقساط گیسٹ ہاؤس 1992 کے علاو ہ تھوڑی سی زندگی 1999، شامل رہے ہیں۔ جن کے خالق کا نام آج کہیں نظر نہیں آتا وہ نام ہے ڈاکٹر ڈینس آئزک کا جن کے لکھے ڈرامے ثمینہ پیرزادہ کی پروڈکشن میں نشر ہوا کرتے تھے تو لوگ بڑے جوش و جذبے اور عقیدت سے ان کے لکھے ڈرامے اور فلمیں دیکھا کرتے تھے۔
آغاز کے دنوں میں ہی انہوں نے شہرہ آفاق فرانسیسی ناول (Around the World in Eighty Days) کا اردو ترجمہ بھی کی۔ اسی دور میں ثمینہ پیرزادہ کی پروڈکشن میں ایک فلم (انتہا 1999) بھی ریلیز ہوئی جو سپُرہٹ رہی۔ اسی فلم کے لیے انہیں بہترین سکرین پلے رائٹر نیشنل فلم فیئرایوارڈ سے نوازا گیا۔
ایوارڈ ز کا باقاعدہ سلسلہ PTV ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی 1979 ڈرامہ سیریل کروبی سے شروع ہوا پھر ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی 1978 ڈرامہ سیریل ‘کرب‘، ہزارہ آرٹس کونسل ایوارڈ 1985، پاکستان کرسچین آرٹس کونسل ایوارڈ 1995، تاک کاشمیری لٹریری ایوارڈ 1996، جوشوا فضل دین ایوارڈ 1996، PTV گولڈن جوبلی گولڈ میڈل 1997، بزمِ فانوس ایوار ڈکینیڈا 2010 سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر ڈینس آئزک 11 جنوری 1951 کو پاکستان کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے۔ 1970 میں خیبر میڈیکل کالج سے انہوں نے گریجویشن کیا۔ بعدازاں لیڈی ریڈنگ ہوسپٹل میں 25 سال بطور ڈاکٹر خدمات انجام دیں۔ پھر 2000 میں اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا ہجرت کر گئے۔
تاہم میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ 90 کی دھائی میں نئے لکھنے والوں کے لیے ایک پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ و کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا اور یوں مجھے چند دن ڈاکٹر ڈینس آئزک کی قربت نصیب ہوئی۔ یاد پڑتا ہے کہ میرا ان سے پہلا تعارف کچھ اس طرح ہوا کہ ہم لوگ ورکشاپ سے ایک دن پہلے ہی پہنچ گئے اور کچھ ذمہ داریاں بھی ہمیں سونپ دی گئیں۔
اس دن اتنا کام کرنا پڑا کہ ہم جلدی ہی سو گئے اور پھر اگلی صبح میں اپنی عادت کے مطابق علی الصبح ہی اُٹھ گیا۔ نہا دھو کر میں ایک ادبی رسالہ اُٹھائے باہر نکل گیا اور ہوٹل کی راہ داری کے ساتھ لگی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور (ادبی جریدہ تسطیر) کی ورق گردانی کرنے لگا کہ اچانک میرے دوسری جانب ایک گاڑی رکنے کی آواز آئی جس میں سے ڈاکٹر ڈینس آئزک صاحب نمودار ہوئے۔
ایک شخص ان کا سامان پکڑے آگے آگے چل رہا تھا۔ میرے قریب سے گزرتے ہوئے انہوں نے میری طرف دیکھ کرHello کہا اور ہلکا سا مسکرائے۔ اچانک ان کی نظر میرے ہاتھ میں پکڑے جریدہ تسطیرپر پڑی توپوچھنے لگے ’کیایہ تسطیر کا نیا شمارہ ہے؟‘، میں نے کہا جی سر۔ یہ سن کر انہوں نے مثبت انداز میں سر ہلایا اور پروگرام میں ملنے کا کہہ کر چلے گئے۔
اس ورکشاپ میں کوئی 40/50 نئے لکھنے والے شامل رہے ہوں گے۔ مگر اس وقت سب سے زیادہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ فارغ وقت گزارتاتھا۔
ہم ہر شام فارغ ہوکر ہوٹل کیساتھ ایک جھیل کے کنارے لگے بنچوں پر بیٹھ جاتے اور دیر تک باتیں کرتے۔ مجھے آج بھی ان کے سنائے لطیفے خاص طور پر یاد ہیں کچھ لطائف میں تو میڈیم نورجہاں اور جگجیت سنگھ کا بھی ذکر بھی ہوا کرتا تھا۔ اسی دوران مجھے ڈاکٹر صاحب کی دیگر خصوصیات کا بھی علم ہوا کہ وہ جتنے اچھے ڈرامہ نگار ہیں اتنے ہی باکمال شاعر، مصّور، اور موسیقارو گائیک بھی ہیں۔ اسی ورکشاپ کے دوران انہوں نے اپنی شاعری اپنی کمپوزیشن میں گیت اور غزلیں بھی گائیں۔ ان کے اتنے روپ دیکھ کرمجھے دیر تک واقعی حیرت ہوتی رہی۔
سپین میں ایک ڈیڑھ دھائی رہنے کے بعد آج کل میں انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں مقیم ہوں، اس سال میں نے جناب نذیر قیصر (ہمارے عہد کے باکمال شاعر دانشور و فلاسفر) کے ساتھ ایک شام منانے کا پروگرام ترتیب دینا شروع کیا تو ڈاکٹر ڈینس آئزک صاحب کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنے کاخیال آیا۔
میں نے ان کی تلاش شروع کی تو دو دن میں نے کئی فون کیے انٹرنیٹ پران کی تلاش کی مگرکہیں سے ان کوئی پتا نہ ملا۔ مجھے بہت حیرت ہونے لگی پھر مجھے اچانک ان کے ایک قریبی دوست جناب ڈاکٹر خالد سہیل (جو عرصہ درازسے کینیڈ امیں مقیم ہیں) کا فون نمبر مل گیا۔ میں نے ان کے نمبرپر بے شمار کال کیں، میسج بھی چھوڑا۔ مگر بات نہ ہوسکی اگلے روز میں نے پھر کوشش کی تو میری ڈاکٹر خالد سہیل سے بات ہوگئی تو میں نے عرض کیا کہ جی سر مجھے ڈاکٹر ڈینس آئزک صاحب کا کوئی رابطہ نمبر مل سکتا ہے، میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں تو ڈاکٹر خالد سہیل مجھے پوچھنے لگے ’آپ کون بول رہے ہیں تومیں نے عرض کیاجی میں ان کا ایک چھوٹا سا عقید ت مند سرفراز تبسم انگلینڈ سے عرض کررہا ہوں۔
وہ فرمانے لگے مدت ہوئی میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جن دنوں وہ نئے نئے کینیڈا آئے تھے تو ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ اب بہت وقت ہوا ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم میں ان کا ایک پرانا نمبر جو میرے پاس ہے آپ کو دے دیتا ہوں۔‘
میں نے وہ نمبر نوٹ کیا اور دوسری کال ان کے دیے نمبر پر کی تیسری گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا توگفتگو کچھ اس طرح ہوئی:
جی، (Good Evening) میں سرفراز تبسم انگلینڈ سے عرض کررہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک چاہنے والا کیا میں ان سے بات کرسکتا ہوں؟
فون پر ڈاکٹر ڈینس آئزک صاحب کی اہلیہ ماریہ آئزک گویا ہوئیں: سوری ڈاکٹر صاحب سو رہے ہیں، وہ آپ سے بات نہیں کرسکتے۔
میں نے پوچھا جی میں کس وقت فون کروں کہ میری ان سے بات ہوسکے تو میڈم کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحب بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتے۔ تو میں نے استفسار کیا تو انہوں کہا کہ ڈاکٹر صاحب کوچار سال پہلے (dementia) ہوگیا اور وہ ذہنی طور پر آسودہ نہیں رہے، و ہ سب بھول گئے ہیں۔ انہیں اپنے کسی دوست کی کوئی پہچان نہیں رہی۔
اس گفتگو کے بعد میں سکتہ میں آگیا اور دیر تک ماضی کے جھروکوں میں خیالی تصویریں بنتا رہا۔ اس کے بعد ایک ہفتہ تک اداس و پریشان رہا اور سوچتا رہا کہ آخرایسا کیوں ہوا۔۔۔؟