پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ : تمغۂ حسن کارکردگی اور اعترافِ خدمات
از، ڈاکٹر تہمینہ عباس
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو، جامعہ کراچی
ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا شمار اس عہد کے ان قلم کاروں میں ہوتا ہے جو تحقیق، لسانیات، طنز و مزاح، بچوں کے ادب اور کالم نگاری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں عرصہ دراز تک اردو لغت بورڈ سے منسلک رہے۔ انجمن ترقی اردو کے تحقیقی جریدے ’’سہ ماہی اردو‘‘ کے مدیر ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی تقریب ۱۵ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لڑکپن میں آپ کی تحریر اس دور کے معروف رسالوں، نونہال، تعلیم و تربیت، بھائی جان، نمک دان وغیرہ شائع ہوا کرتی تھیں۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے لکھنے کی ابتدا بچوں کی کہانیاں سے کی جو بیشتر مزاحیہ تھیں۔ پھر مزاحیہ کا لم اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ ’’اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ کے موضوع پر جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ آپ نے انگریزی کی شاہکار مزاحیہ تحریروں کا اردو میں ترجمہ کیا ان تحریروں کو مبین مرزا نے’’سرخاب کے پر‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
حکومت پاکستان نے (امسال ۲۰۱۸ء) میں تقسیم اعزازات کے موقع پر شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کے استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ اس موقع پر اظہار مسرت اور اعترافِ خدمات کی غرض سے شعبۂ اور ایم فل کے ریسرچ اسکالر کی جانب سے ۱۱ اپریل بروز بدھ، ۲۰۱۸ء کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جو سمعی و بصری مرکز کلیہ فنون و سماجی علوم، جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔
تلاوت کلام پاک حافظ طلحہ، نعت رسول مقبول حرا شبیر نے پیش کی جب کہ نظامت کے فرائض شعبۂ اردو کی استاد ڈاکٹر تہمینہ عباس نے انجام دیے۔
ایم فل کی ریسرچ اسکالر سیما عباسی (جن کا تعلق شعبۂ سندھی سے تھا) مگر ایم فل کی کلاسز شعبۂ اردو میں لے رہی ہیں کا کہنا تھا کہ جب میں نے کچھ نا گزیر وجوہات کی بنا پر شعبۂ سندھی کے بجائے شعبۂ اردو میں ایم فل کی کلاس لینا شروع کیں تو ڈاکٹر رؤف پاریکھ کو ایک بے حد محنتی اور مشفق استاد کے طور پر پایا۔ اور ان سے بے شمار چیزیں سیکھنے کا موقع ملا۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
ایم فل کے ریسرچ اسکالر اعجازبابو نے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی شخصیت کے حوالے سے ایک مزاحیہ خاکہ پیش کیا۔ یہاں اس خاکے سے ایک مختصر اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔
’’پاریکھ صاحب کا طریقہ تدریس بہت منفرد ہے۔ وہ چاہے تنقید پڑھائیں یا تحقیق، لسانیات پڑھائیں یا ادبی تاریخ، ہر شعبۂ ادب میں انہیں کامل مہارت حاصل ہے۔ ابتدا میں ہم یہ ہی سمجھتے رہے کہ ان کا پی ایچ ڈی مزاح نگاری پر ہے تو ان کی دل چسپی مزاح میں ہوگی۔ لیکن وہ مزاح نگاری کے علاوہ بھی دیگر کئی شعبوں میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ پاریکھ صاحب القابات دینے میں بڑے فراخ دل ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہ اودھ پنج کے زمانے میں ہوتے تو بڑے لکھاری ہوتے۔ وہ کام نہ کرنے پر طلبہ کو نااہلوں، نکموں، نالائقوں کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ طلبہ مانیں یا نہ مانیں القابات تقریبا ٹھیک ہی ہوتے ہیں۔‘‘
پی ایچ ڈی کی ریسرچ اسکالر کریم (جن کا تعلق بلوچستان سے ہے) نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ خود اہل زبان نہ ہوتے ہوئے اردو کو عزیز اور اس کا درد رکھتے ہیں۔ اور وہی صفات اپنے طالب علموں میں بھی منتقل کرتے ہیں۔ انھوں نے ہمارے اندر زبانوں سے محبت کے جذبے کو پیدا کیا۔ وہ ان وسیع القلب اردو دانوں میں شمار ہوتے ہیں جو علاقائی زبانوں کی اہمیت اور نمائندگی کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے میری توجہ بلوچی زبان سے متعلق موضوع پر تحقیق کی جانب مبذول کروائی۔
پاریکھ صاحب کا شاگرد ہونا، ان کے دوسرے طالب علموں کے لیے فخر مگر میرے لیے ایک قسم کی طاقت اور اطمینان کا باعث رہا ہے اور اسی طاقت کے سہارے میں نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے کراچی تک کامیابی سے اردو کی تدریس کی ہے۔ بلا شبہ مجھے شعبۂ اردو کے تمام اساتذہ کی رہنمائی میسر رہی مگر پاریکھ صاحب کی شخصیت میں موجود شفقت کا عنصر مجھے ان سے بات کرنے سے قبل سوچنے سمجھنے کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ اللہ تعالی انہیں اسی طرح آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کیے رکھے۔ صحت سلامتی دے اور ہمیں ان سے سیکھنے اور اردو کی خدمت کا شرف عطا کرے۔‘‘
ایم فل کے نابینا ریسرچ اسکالر بینجمن پاسکل نے استاد محترم ڈاکٹررؤف پاریکھ کے حوالے سے ایک بہت عمدہ نظم پیش کی۔
شعبۂ اردو کے ہر دل عزیز استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدا لرؤف پاریکھ کی نذر
(تمغۂ حسن کارکردگی ملنے کے موقع پر)
کیسے ان کو مبارک میں دوں دوستوں
میرے الفاظ تھوڑے نہ پڑ جائیں گے
ان کا عرصۂ محنت ہے آدھی صدی
لوگ لمحوں میں کیسے سمجھ پائیں گے
پڑھنے لکھنے میں گذری ہے یہ زندگی
ہر قدم پر سمیٹی نئی روشنی
صرف علم و ہنر سے محبت ہے کی
ہے اسی واسطے فکر میں تازگی
علم تحقیق ہو یا لسانی امور
ان کی اہل لغت میں بھی پہچان ہے
یہ ظرافت عروض اور تاریخ سب
دل یہ کس کس مہارت پر حیران ہے
اپنی تعریف سننا نہیں چاہتے
ہے سروکار ان کو تو بس کام سے
کام میں ان کی دیوانگی دیکھیے
صبح سے شام تک، صبح تک شام سے
نظم کی تشنگی سے سمجھ لیجیے
ان کے بارے میں لکھنا تو آسان نہیں
میں بھی زیر تلمذ ہوں اعزاز ہے
ان کی تعریف ان پر تو احسان نہیں
جو ملا ہے یہ چھوٹا سا ہے شکریہ
کارناموں کو مانا گیا تو نہیں
یہ جو اعزاز بخشا گیا ہے انھیں
محنت روز و شب کا صلہ تو نہیں
محنت روزو شب کا صلہ تو نہیں
اس تقریب میں ایم فل کی ریسرچ اسکالر ممتاز پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر شرف عالم، ایم فل ریسرچ اسکالر محمد صابر، لسانیات کے طالب، علم فہد، شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر خالد امین اور ڈاکٹر ذکیہ رانی نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اور ڈاکٹر صدف تبسم نے ایک نظم پیش کی۔
میرے استاد کے لیے
مرے سر پہ جو اک علم کی چادر تنی ہے
شعور و آگہی کے تار سے میرے معلم نے بنی ہے
جہالت کی تپش سے
اور تکبر کی ہواؤں سے مجھے محفوظ رکھتی ہے
کبھی بھی ناامیدی کا کوئی بادل نہیں آتا
مری تہذیب کا آنچل تمدن کی کناری سے سجاکر
حیا کے سارے رنگوں کو ملا کر
بہت سے علم و دانش کے نئے نغمے کھلا کر
کبھی قدما کے تیور سے، کبھی جدت کے زیور سے
مجھے آراستہ کرتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلم ہیں
معلم وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ج نھیں ہے بات کہنے کا سلیقہ بھی
تلفظ بھی، ادائی بھی
ذرا شعلہ نوائی بھی
کبھی لہجے میں سختی بھی، کبھی حسِ مزاحی بھی
مگر وہ علم کا دریا ۔ ۔ ۔ ۔ قواعد کے صدف سے گوہر الفاظ چنتا ہے
لسانی علم سے آواز کا انداز بنتا ہے
مری چادر میں موتی ٹانکتا
علم عروضی سے مرے الفاظ کی تزئین کرتا ہے
دعا ہے مری رب سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مری چادر کو سعت دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس چادر کے سائے میں
مرے افکار، مری نسل نو کا آئینہ، ٹھہریں
اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی رئیس کلیہ سماجی علوم و فنون پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری اور صدرِ محفل شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان تھے۔ مہمانان اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن، معتمد انجمن ترقی اردو، اور محمد حمزہ فاروقی، ماہر اقبالیات اور مشہور سفرنامہ نگار اورپرفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین شادابؔ احسانی استاد شعبۂ اردو تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے کہا کہ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ شعبۂ اردو کے اساتذہ اور طلبہ نے پاریکھ صاحب کی خدمات کے اعتراف میں یہ پروگرام منعقد کیا۔ یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے کہا کہ میرا تجربہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے تجربے سے بالکل مختلف رہا۔ میں جب ایک عالمی تمغہ حاصل کرنے کے بعد اپنے شعبے میں آیا تو میرے ہم کار ساتھیوں نے مبارک باد دینے کے بجائے منہ پھیر کر اور آنکھیں چرا کر نکلنا شروع کردیا۔ اور جب مجھے تمغہ حسن کارکردگی ملا تو اس وقت میرے ہم کار ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یقیناً میری کوئی سفارش ہوگی۔ میرے شعبے کے کسی استاد نے میری حوصلہ افزائی نہیں کی۔ میں جانتا ہوں کہ تمغہ حسن کارکردگی مسلسل محنت کا انعام ہے اور یہ کسی سفارش پر نہیں بلکہ مسلسل محنت پر عطا ہوتا ہے۔ شعبۂ اردو کے اساتذہ نے ایک نئی اور عمدہ روایت کی داغ بیل ڈالی ہے اور میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔
پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کو بہترین استاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا تعلق جامعہ کراچی سے بحیثیت استاد قائم رہنا چاہیے۔
انجمن ترقی اردو کی معتمد اور معروف شاعرہ و ادیبہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ رؤف پاریکھ صاحب شعبۂ اردو کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی اردو کے بھی روحِ رواں ہیں۔ انجمن کے تحقیقی جریدے ’’سہ ماہی اردو‘‘ کے مدیر بھی ہیں ہم ان کی خدمات کے حوالے سے تہہ دل سے مشکور ہیں۔
شعبہ اردو کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ شعبۂ اردو کے حوالے سے ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی خدمات قابل تحسین ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہمیں ان کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔
حمزہ فاروقی جو معروف سفرنامہ نگار اور ماہر اقبالیات ہیں، نے کہا کہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں اور ایک ہمہ گیر شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کی شخصیت کے متنوع پہلوؤں اور حسن اخلاق کی وجہ سے میں ان کا دل سے معترف ہوں۔
آخر میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے مزاحیہ انداز میں حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ اور محفل کو یہ کہہ کہ زعفران زار بنا دیا کہ دو دفعہ اس محفل میں مجھے دولھا کہا گیا۔ بڑا اچھا لگا۔ کئی لوگوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ آپ پروفیسر ہوگئے آپ کو تمغۂ حسن کارکردگی مل گیا۔ مٹھائی کھلائیے۔ میں نے کہا کہ دوسری شادی کا ولیمہ ہوگا تو ایک ساتھ ہی کھلادوں گا۔ شکر ہے کہ میری اہلیہ یہاں موجود نہیں ہیں۔ بلایا تو گیا تھا لیکن احتیاطاً نہیں لایا۔ اتنی تعریفیں میری ہوئیں کہ بہت دیر تک تو میں یہ سوچتا رہا کہ یہ ہے کون دولھا؟ پتا نہیں کیا کیا تعریفیں ہوئی کہ وی سی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ریٹائر ہوگئے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں ریٹائر ابھی تو نہیں ہوا۔ قریب الریٹائر ہوں۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ تقریب میرے ہی اعزاز میں ہے۔
پاریکھ صاحب نے اساتذہ اور طلبہ کی محبت و خلوص کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بھوکے پیٹ شاید یہ ساری باتیں اچھی نہ لگ رہی ہوں۔ اس لیے اپنے خطاب کا اختتام کرتا ہوں۔
مجموعی طور پر یہ شعبہ اردو کی جامعہ کراچی کی جانب سے منعقد ایک یادگار تقریب تھی۔ جس میں شعبہ اردو کے طلبہ و اساتذہ کے علاوہ جامعہ کراچی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں ڈاکٹر سیہیل شفیق، ڈاکٹر انتخاب الفت، ڈاکٹر معز خان، ڈاکٹر مقصود انصاری، ڈاکٹر غفران عالم، جناب ندیم علی خان صاحب شامل تھے۔