(ذوالفقارعلی)
کل شام 5 بجے میرے بھائی کا فون آیا کہ “ادا ٹی وی دیکھا ہے؟” میں نے کہا نہیں! میں ٹی وی کم کم دیکھتا ہوں۔ اُس نے جذبات اور افسوس کے انداز میں حکم دیتے ہوئے کہا، ٹی وی دیکھو جنید جمشید Junaid Jamshaid مر گیا ہے۔ میں اپنے گھر میں کھڑا ہوں میرے سامنے اس جہاز کا ملبہ جل رہا ہے۔
میں نے ٹی وی آن کیا تو ادھر بھی یہی چل رہا تھا کہ بد قسمت طیارہ کریش ہو گیا ہے اور اس میں جنید جمشید Junaid Jamshaid اور اُس کی اہلیہ بھی سوار تھیں۔ اُس کے بعد تو بس پھر ایک عجیب سی دوڑ لگ گئی۔ کوئی اس کے آخری ٹوئیٹ پر بحث کر رہا تھا تو کوئی اُس کی تیسری شادی کی معلومات بانٹ رہا تھا، کوئی اس کو گستاخ رسول (ص) ہونے کا طعنہ دے رہا تھا تو کوئی اس کے مبلغ ہونے کی خوبیاں بیان کر رہا تھا، کوئی اس کی پچھلی زندگی جو اس نے بطور گلو کار گزاری تھی اسے یاد کر رہا تھا، تو کوئی اس کو بطور بزنس مین ڈسکس کر رہا تھا۔ کوئی کراچی کی صفائی مہم کے حوالے سے اسے خراج پیش کر رہا تھا تو کوئی اس کی بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے شئیر کی گئی ویڈیوز پر تبصرہ فرما رہا تھا، تو کوئی اُس کی عمران خان کے ساتھ حالیہ ملاقات میں دئیے گئے سیاسی مشوروں کو اپنے چینل پر نشر کر رہا تھا۔
اس کے بعد میں نے باقی سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو وہاں پر بھی ایک عجیب سا ہیجان برپا تھا۔ کوئی اُسے وہابی مُلا کا طعنہ دے رہا تھا تو کوئی دوسرے حادثات میں مرنے والے عام لوگوں کی خبریں شیئر کر کے یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ لوگ بھی تو مرے تھے اُن کو تو کسی نے یاد نہیں کیا اور نہ ہی میڈیا نے اُن پر کوئی توجہ دی۔
پھر کچھ لوگ اپنی اپنی ڈی پی تبدیل کرنے پر اور جنید Junaid Jamshaid کی تصویر لگانے اور نہ لگانے پر ایک دوسرے پر جُملے کس رہے تھے اور پھر دیکھتے دیکھتے اس بحث نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔ اب لبرل اور قدامت پرست دونوں طبقئہ فکر کے سپاہیوں اور جہادیوں نے اپنے اپنے مورچے سنبھالے اور گُھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک نے توپ کا گولا داغا کہ “مُلا جب مرتا ہے تو اکیلا نہیں جاتا اپنے ساتھ اپنے امتیوں کو بھی جنت رسید کر دیتا ہے۔” دوسرے فریق نے جوابی وار کیا کہ ” جب بی بی دھماکے میں ماری گئی تھی تو وہ بھی اپنے ساتھ بہت ساروں کو لے کے گئی تھی۔” ایک اور سپاہی نے پُرانے ٹینک سے وار کیا ” ان کا بڑا بھی اس طرح طیارے پھٹنے کے باعث خاکستر ہو گیا تھا۔” اُدھر سے راکٹ لانچر فائر ہوا ” سلمان تاثیر کو ہم نے کس طرح۔۔۔۔۔۔کی موت مارا تھا۔” پھر ایک نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش اس طیارے میں مولانا طارق جمیل بھی سوار ہوتے۔
اور یوں یہ جنگ ننگی گالیوں کی تلواروں کے سائے میں لڑی جانے لگی اس طرح کی جنگ پوری رات جاری رہی اور اب تک جاری ہے۔ مُختلف طبقئہ فکر کے لوگ ایک دوسرے پر عجیب سی نفرت اور غُصے سے بھر پور کاری وار کر رہے ہیں اللہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کچھ زیادہ پڑھے لکھے لوگ مُشکل مُشکل انگریزی میں موت کا فلسفہ بیان کر رہے ہیں اور کچھ اسے شخصیت پرستی اور غلامی کی نفسیات کے تناظر میں پاکستانی قوم کا المیہ قرار دے رہے ہیں۔ کُچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دونوں فریقوں کے مابین صلح جوئی کی نا کام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اس چیز سے کسی کو غرض نہیں کہ یہ حادثہ کیونکر ہوا اس کے بنیادی محرکات کیا ہیں اور آئندہ ایسے حادثوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
مُجھے یہ سب کُچھ دیکھنے پڑھنے اور سُننے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم سب بُری طرح بٹے ہوئے ہیں۔ ہمارا زندگی کے بنیادی اصولوں اور فلسفے پر کوئی مُتفقہ سمجھوتہ نہیں ہے۔ ہم اپنی اپنی ذات کی بیرکوں میں بند ہیں اور اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں اور اپنے تئیں درست ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔
یہ رویہ یا سوچ ہماری پورے سماج پے اپنے منفی اثرات ڈال رہی ہے اور ہم ہر گُزرتے دن کے ساتھ ایک دوسرے سے کٹ رہے ہیں، بچھڑ رہے ہیں اور اپنی اپنی ذات کی کال کوٹھڑیوں میں مقید عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس طرح کی سوسائٹی میں ایک دوسرے کے درد کو سمجھنا نا ممکن ہے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا صرف ایک رسم کے سوا کچھ نہیں۔
اس سماجی پسماندگی میں احترام، محبت اور امید کے کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ ہم سب ایک دوسرے پر غصہ اتارنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ جس کی وجہ سے ہماری آنکھوں میں بسے خواب ٹوٹ رہے ہیں۔ خوشی سے جڑے لفظ اور استعارے کہیں کھو گئے ہیں۔ ہمیں ان لفظوں اور استعاروں کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پھر بہار موسموں کے تخیل کو اپنے وجود میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ اور دُکھ کی خزاں سے اس وقت تک نہیں نمٹا جا سکتا جب تک دل میں بہار کا یقین نہ ہو۔ جُنید جمشید کے Junaid Jamshaid لازوال گانے کے بول ہم سے کہہ رہے ہیں:
“آنکھوں کو آنکھوں نے جو سپنا دکھایا ہے دیکھو کہیں ٹوٹ جائے نا۔!”