خواب نامہ ١
از، ضیغم رضا
اعجاز رافع، شاعر ہے۔ خالی خولی شاعر نہیں… وہ روح کہ شاعری جس کا انتخاب خود کرتی ہے۔ وہ بہاول نگر کی تحصیل فورٹ عباس کا باسی ہے جہاں تا حدِ نظر ریت ہی ریت ہے۔ شاید یہی پیاس اور ارد گرد کی ویرانی اس کے اندر شادابی کی چاہ بڑھاتی ہے۔ میں جو بیسوں میل اس سے دور ہوں، میٹھا پانی پی کر بھی کبھی پیاس نہیں بجھی۔ سو یہ اتفاق کہیے یا حادثہ۔
ہم دو اداس روحیں ہر رات ملنے اور ابدی نیند کی آرزو لیے سو جاتے۔ اس خواب نامے کا ورود بھی انھی راتوں میں ہوا جب کہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور ایک دوسرے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دیکھیے ہم کب تک یونھی سوچتے رہیں اور یہ بڑبڑاہٹ چلتی رہے!
اعجاز رافع!
بعد اَز سلام (کہ رسم ہے)، بعد از وفات تمھارے سکھی جیون کے لیے دعا گو ہوں۔ وہ اس لیے کہ میں جانتا ہوں اس زندگی میں تمھیں آسودہ دیکھنے کی خواہش کسی عزیز کو کھانے کی زیادتی کے سبب ہلاک کرنے کے مترادف ہے۔
اے میرے دوست! تم اگر حسبِ معمول ذہنی خِلجان میں مبتلا ہو تو ایک لحظے کو پُر سکون ہو جاؤ اور میری بات سنو: رات میں نے خواب دیکھا ہے۔
ایک نہر ہے جس کا پاٹ اتنا ہی چوڑا ہے کہ بَہ آسانی پھلانگا جا سکتا ہے، مگر تم جانتے ہو نہریں کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں انھیں ایک جَست میں نہیں پھلانگا جا سکتا۔
بس اسی لیے کسی پُل کی تلاش میں ہم کنارے پہ چلتے جا رہے ہیں۔ اپنے پیروں تلے نرم گھاس روندتے ہوئے ہم پھولوں، درختوں اور پرندوں کی باتیں کر رہے ہیں۔
دفعتاً مجھے یاد آیا کہ مجھے اب جگنو نظر نہیں آتے۔
میں نے تمھیں یہ بات بتائی تو تم بھی دکھی نظر آئے۔ تم نے صلاح دی کہ میں سگریٹ سلگاتا ہوں تم دور اندھیرے میں یہ تصور کرنا کہ جگنو ٹمٹما رہا ہے۔ میری ہنسی پہ تم آزردہ ہوئے اور مجھے ڈانٹا:
“یار کتابوں میں ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں میں نے…”
تمھاری یہ بات سن کر میں نے ضد کی کہ مجھے کتابوں میں اڑتے ہوئے جگنو دیکھنے ہیں…!
لیکن ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اوپر ٹاہلی کے درخت سے ایک طوطے کی ٹیں ٹیں سنائی دی۔ میں نے کہا، ضرور اس میں طوطے کے انڈے ہوں گے؛ آؤ اوپر چڑھ کر کُھڈ ڈھونڈتے ہیں۔
تم نے مجھے سمجھایا کہ ٹاہلی شاداب ہے سو ممکن نہیں کہ اس میں کوئی کُھڈ ہو۔ لیکن جب ہم نے غور کیا تو ٹاہلی ٹنڈ منڈ تھی۔ میں اوپر چڑھنا چاہتا تھا مگر تم نے منع کر دیا:
“ہم نے پرندوں کو قید نہیں کرنا۔”
“مگر یارا! ہم خود بھی تو قیدی ہیں۔” تمھاری بات سن کر میں نے جھنجھلاہٹ سے کہا:
“ہاں مگر قیدی یوں آزادی سے نہیں گھومتے۔”
“یہ تو ہم خواب میں آزاد ہیں۔”
یہ کہتے ہی میں نے آنکھیں موند لیں… کیا پتا کب جاگ ہو جائے۔
فقط
ضیغم