خواب نامہ ۲
از، ضیغم رضا
اعجاز رافع، شاعر ہے۔ خالی خولی شاعر نہیں… وہ روح کہ شاعری جس کا انتخاب خود کرتی ہے۔ وہ بہاول نگر کی تحصیل فورٹ عباس کا باسی ہے جہاں تا حدِ نظر ریت ہی ریت ہے۔ شاید یہی پیاس اور ارد گرد کی ویرانی اس کے اندر شادابی کی چاہ بڑھاتی ہے۔ میں جو بیسوں میل اس سے دور ہوں، میٹھا پانی پی کر بھی کبھی پیاس نہیں بجھی۔ سو یہ اتفاق کہیے یا حادثہ۔
ہم دو اداس روحیں ہر رات ملنے اور ابدی نیند کی آرزو لیے سو جاتے۔ اس خواب نامے کا ورود بھی انھی راتوں میں ہوا جب کہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور ایک دوسرے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دیکھیے ہم کب تک یونھی سوچتے رہیں اور یہ بڑبڑاہٹ چلتی رہے!
عزیزم رافع!
تمھیں خوب معلوم ہو گا کہ سردیوں کی راتوں میں یا بَل کہ دھندلکا ہونے کے بعد اور جب کہ ہمارے دیہاتی گھرانوں میں دونوں سمے ملتے ہی تیسرے وقت کا کھانا کھا لیا جاتا ہے؛ ہم بستر میں دبکے ہوتے ہیں۔
تمھاری بھی نیند اچاٹ رہتی ہے اور کبھی کبھار مجھے بھی بے خوابی آن گھیرتی ہے تو طویل رات کاٹنے سے پہلے میں چاہتا ہوں مجھ پہ الکساہٹ کا ورُود ہو… یا شاید نہ چاہتے ہوئے بھی اونگھ مجھ پہ طاری ہوجاتی ہے۔
ایسے ہی کسی لمحے میں جب میری سوچ کا دھارا میری منشاء کے مخالف بہہ رہا تھا؛ مجھے نہیں معلوم کب مجھ پہ نیند غالب آ گئی۔
کیا دیکھتا ہوں کہ تم میرے گھر میں آئے ہو۔ اصولی طور پر تمھیں یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر مجھے چونک پڑنا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ میری بار ہا منت سماجت کے با وجود تم مجھ سے ملنے میرے گھر نہیں آئے۔
سو اس اچانک ورُود پہ میں حیران ہوتا اور لازماً میری آنکھ کھل جاتی؛ مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید خوشی کی انتہا بھی ایک بھاری صدمہ ہوتا ہے جس کے زیرِ اثر میں میں ساکن ہو کے رہ گیا، اور خواب بیدار رہا۔
مجھے یاد ہے کہ میں نے سب سے پہلے تمھیں پانی پیش کیا تھا جس کے دو ایک گھونٹ حلق سے اتارتے ہی تم نے جذباتی انداز میں کہا:
“پانی تے بڑا مٹھا اے یار”
اس پہ میں نے شوخا سا جواب دیا کہ تم اب کون سا فورٹ عباس کے چولستان میں ہو جو کڑوے پانی سے واسطہ پڑتا۔
یہ سنتے ہی تمھیں افسردہ ہونا چاہیے تھا، مگر یارا! میں حیران ہوا کہ تم نے مجھے گالی دی تھی… شاید پانی کی مٹھاس سے تم میرے خلوص کی تعریف کر رہے تھے۔
مگر دوستا یہ کیا؟ یکا یک منظر تبدیل ہو گیا…!
یقین جانو مجھے خواب پہ رشک آیا کہ کاش میں افسانہ نگار کی بَہ جائے ایک خواب ہوتا تو بڑی آسانی سے ایک منظر کو دوسرے مختلف منظر کے ساتھ دکھا سکتا۔
خیر ہم اب ایک ٹیلے پہ کھڑے تھے جس پہ چند ایک پِیلُو کے گھنے درخت تھے۔ تمھیں پتہ نہیں کیا سوجھی کہ ان کی جڑیں کھودنا شروع کر دیں۔
میرے پوچھنے پہ تم نے بتایا کہ جڑیں کھود کر ہم ان کا دندوَن (دانتون) بنائیں گے۔ میں بھی تمھاری مدد کرنے لگا۔
جڑوں پہ مٹی نرم تھی اسی لیے کچھ ہی دیر میں ہم ڈھیر ساری مٹی کھودنے میں کام یاب ہو گئے۔ جب ہم نے دندوَن بنا لیے تو تم نے بالشت سے انھیں ناپا۔
ایک دندوَن کی لمبائی بالشت سے کم تھی جس کے سبب تم افسردہ ہو گئے۔ تم نے بتایا کہ سنت یہی ہے کہ دندوَن بالشت بھر ہو۔ میں نے کہا یار وہ تو کہتے ہیں؛ اس سے لمبا نہ ہو کہ اس پہ شیطان بیٹھ جاتا ہے۔ الٹا یہ تو کم ہے اس پہ شیطان تو کیا اس کی پونچھ بھی نہیں بیٹھ سکتی۔
یہ سنتے ہی تم جی کھول کے ہنسے اور مطمئن بھی نظر آئے۔
دفعتاً ہم نے دیکھا کہ ٹیلے پہ چند قبریں بھی ہیں (اب اگر یہ خواب کی بَہ جائے میرا افسانہ ہوتا تو نقاد سونٹا لے کے پیچھے دوڑ پڑتا کہ بھیا اچانک سے یہ قبریں کیسے نمُو دار ہو گئیں؟) میں نے کہا یار ایک دفعہ سورۂِ فاتحہ اور گیارہ دفعہ قل شریف پڑھ کے ان قبروں والوں کی روحوں کو بخش دو۔ یہ جتنی بھی قبریں ہیں ان کی تعداد کے حساب سے ثواب ملے گا۔
تم جلدی جلدی مُنھ ہی مُنھ میں کچھ بڑبڑانے لگے۔ میں نے تمھیں ڈانٹا کہ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ تم نے آنکھوں کے اشارے سے منع کیا اور کچھ ہی لمحوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی جس کی تقلید میں، مَیں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔
دعا مانگنے کے بعد تم نے مجھ سے کہا کہ جلدی گھر چلو تمھارا باپو انتظار کر رہا ہو گا۔
میں حیران ہوا کہ جب وہ آیا تھا تب تو میرے باپو گھر پہ نہیں تھے پھر ان کی ملاقات کب ہوئی؟ میں نے حیرت ظاہر کی تو اس نے مجھ سے پوچھا:
“تم نے کبھی سگریٹ پی ہے؟”
میری نفی کے بعد تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا:
“درداں ماریے، درد والے لَبدھے نے…” میری حیرت ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ مجھے اپنے سامنے ایک مردہ نظر آیا۔ مردہ ایسے نہیں کہ اس کے جسم پہ کفن لپٹا تھا۔
وہ بھی ہماری ہی طرح تھا بس لگ رہا تھا کہ قبر سے اٹھ کہ آیا ہے۔ (دیکھ لو! خواب کیسی نا قابلِ برداشت چیزوں کو کتنی آسانی سے قابلِ برداشت بنا دیتا ہے)۔ اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:
“تمھارا باپو تم سے متنفَّر ہے کہ تم سگریٹ نہیں پیتے اور اور اعجاز کا باپ اس لیے اس سے نفرت کرتا ہے کہ یہ سگریٹ پیتا ہے۔”
یہ کہتے ہی وہ رونے لگا۔
(مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے فلموں میں ہمیشہ مُردوں کو قہقہے مارتے دیکھا تھا)۔ اسے روتا دیکھ کر تم نے اس کی ڈھارس بندھانا چاہی:
“دیکھو ہم زندہ ہیں مگر تم مردوں سے نفرت نہیں کرتے؛ ابھی ہم نے تمھارے لیے فاتحہ بھی پڑھی ہے۔”
یہ سنتے ہی مردے نے ایک دَم رونا بند کر دیا۔ اس نے ہمارے چہرے پہ نظریں گاڑیں اور بڑی سنجیدگی سے پوچھا:
“کیا واقعی تم زندہ ہو؟” ہمیں شش و پنج مبتلا دیکھ کر وہ قہقہے مارنے لگا:
بتاؤ… بتاؤ…
ہنستے ہنستے وہ اپنی قبر میں گم ہو گیا اور میرا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ واقعی ایک مردہ تھا۔
فقط
ضیغم رضا