خواب نامہ ۳

Zaigham Raza

خواب نامہ ۳


اعجاز رافع، شاعر ہے۔ خالی خولی شاعر نہیں… وہ روح کہ شاعری جس کا انتخاب خود کرتی ہے۔ وہ بہاول نگر کی تحصیل فورٹ عباس کا باسی ہے جہاں تا حدِ نظر ریت ہی ریت ہے۔ شاید یہی پیاس اور ارد گرد کی ویرانی اس کے اندر شادابی کی چاہ بڑھاتی ہے۔ میں جو بیسوں میل اس سے دور ہوں، میٹھا پانی پی کر بھی کبھی پیاس نہیں بجھی۔ سو یہ اتفاق کہیے یا حادثہ۔

ہم دو اداس روحیں ہر رات ملنے اور ابدی نیند کی آرزو لیے سو جاتے۔ اس خواب نامے کا ورود بھی انھی راتوں میں ہوا جب کہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور ایک دوسرے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دیکھیے ہم کب تک یونھی سوچتے رہیں اور یہ بڑبڑاہٹ چلتی رہے!


از، ضیغم رضا 

یار اعجاز!

تمھیں ایک حیران کن بات بتاؤں؟ مجھے سفر میں نیند نہیں آتی، بَل کہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ کسی گاڑی پہ سفر کرتے ہوئے مجھے نیند نہیں آتی۔ بالفرضِ محال یوں ہو کہ میں خاصی دیر سے سو نہ سکا ہوں تو ایک ذرا سی دیر کو آنکھیں مُند جاتی ہیں۔

اونگھ سے مُشابِہ یہ نیند بدن کے یک سَر ساکن ہونے پہ اکھڑ جاتی ہے، جب سیٹ پہ بیٹھے ہوئے سر ایک طرف کو ڈھلک جاتا ہے۔ یا یوں بھی ہوتا ہے کہ گاڑی کو ایک ذرا سا دھکا لگا (تمھیں اندازہ تو ہے ہماری سڑکوں کا کیا حال ہے) اور فوراً سے میری آنکھ کھل گئی۔

لیکن کل رات میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں بس میں سفر کرتے ہوئے سو گیا ہوں اور سویا بھی اس لیے ہوں کہ آنکھ لگتے ہی خواب کے حِصار میں جکڑا گیا۔

میں نے خواب دیکھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ ہے نہ حیران کن بات؟

اچھا اب اگلی سنو! میں نے خواب میں دیکھا کہ بس میں اونگھتے ہوئے میں خواب دیکھ رہا ہوں اور اس خواب میں تمھیں دیکھا۔ اس سے بھی زیادہ ششدر کرنے والی بات یہ ہے کہ تم بھی کسی  بس میں سفر کر رہے ہو اور خواب دیکھتے ہو۔

یہ خواب تم پہ کیسے طاری ہوا، اس کی تفصیل مجھے یہی یاد پڑتی ہے کہ تم ذرا پریشان تھے۔ اس پریشانی کو جَھٹکنے کے لیے تم نے سیٹ سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر لیں۔

سب سے پہلے تم نے اپنے آپ کو مال دار شخص کے روپ میں دیکھا۔ چمکتی دمکتی گاڑیاں، بنگلے کوٹھیاں؛ زرق برق لباس اور کھانے اوڑھنے کو وہ سب کچھ تمھارے پاس تھا جس کی ہمارے جیسے انسان کو خواہش ہو سکتی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ تم جلد ہی اس کھیل سے اکتا گئے کہ جیسے تم نے غلط خیال کا انتخاب کر لیا ہو۔

اس بیچ مجھے ہارن سنائی دیے۔ میں نہیں جانتا یہ اس بس کا ہارن تھا جس پہ میں سفر کر رہا تھا، یا اس بس کا جس پہ تم سفر کر رہے تھے۔ تم بے چین نظر آئے جو میں نہیں سمجھ سکا کہ ہارن کے سبب تھا، یا پھر خیال کا دھارا مڑنے کی وجہ سے!

اب تم نے خود کو کوئی مُشاعَرہ پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ہاں میں جانتا ہوں تمھیں مُشاعَرہ بازی میں کوئی دل چسپی نہیں، مگر شاید کچھ وقت نیند کے حصول کے لیے تمھیں اس سے بہتر سرگرمی نظر نہ آئی ہو، یا ممکن ہو تم واقف ہی اسی سرگرمی کی جُزئیات سے تھے، اسی لیے اس کی جزئیات بہتر انداز میں تشکیل دے سکے۔

مشاعَرہ، شہر کے ایک وسیع ہال میں ہو رہا تھا۔ تمھیں سب سے کم عمر ہونے کے سبب_ جیسا کہ عموماً ہوتا ہے_ سب سے پہلے مدعُو کیا گیا۔

جب تم نے پڑھا تو لوگوں کو احساس ہوا تمھیں سب سے پہلے نہیں بلانا چاہیے تھا۔ اپنی خِفَّت مٹانے کے لیے انھوں نے بڑھ چڑھ کر داد دینا شروع کر دی۔ بعض اوقات تو وہ اتنی داد دیتے کہ تم خود بھی شرمندہ نظر آتے۔

خیر میرے اندر کہیں یہ بات موجود تھی کہ مجھے گہری نیند نہیں سونا چاہیے؛ مبادا کہ جیب کٹ جائے، یا اپنا سٹاپ گزر جائے۔ لیکن کچھ تو اس لیے کہ میں خواب در خواب کے گرداب میں پھنس چکا تھا اور شاید مجھے یہ بھی یاد تھا کہ بہاول پور رک کر کنڈَکٹر زیادہ دیر آواز لگاتا ہے کہ بہاول پور کی سواریاں اتر جائیں، اس لیے بھی میں پُر سکون تھا۔

خیر اب میں کیا دیکھتا، بَل کہ تم کیا دیکھتے ہو کہ مشاعَرہ ختم ہو چکا ہے۔ یہیں سے مجھے لگا کہ تم خواب کے حصار میں آ چکے ہو بَہ صورتِ دیگر اگر خواب تمھارے حصے میں ہوتا تم شعر پڑھتے رہتے اور داد سمیٹتے رہتے۔ مشاعَرہ ختم ہونے کے بعد سب لوگ چائے اور سگریٹ پینے کے بہانے مختلف دائروں میں بَٹے نظر آئے۔ ایک دو خواتین تمھارے پاس آ کے تمھاری شاعری کی تعریف کرنے لگیں۔

تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد ہی تمھیں اندازہ ہوا کہ ان میں سے ایک خاتون تم سے اپنے لیے ایک نظم لکھوانا چاہتی ہے۔ جب تم نے کوئی خاص ردِّ عمل ظاہر نہ کیا تو وہ ایک اور شاعر کی طرف متوجُّہ ہو گئیں۔

اتنی دیر میں ایک اور نو جوان تم سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملا۔ اس کے ماتھے پہ آئی بالوں کی لَٹیں اور ناک پہ جما نظر کا چشمہ اسے ایک سنجیدہ نو جوان کے روپ میں پیش کر رہے تھے۔ تھوڑی بہت شناسائی کے بعد اس نے تم سے درخواست کی کہ اپنی دو ایک غزلیں دے دو جسے میں اپنے یُوٹیوب چینل پہ پڑھوں گا۔

میں جانتا ہوں تمھیں کیسا لگا ہو گا، مگر اس نو جوان کو تم نے یک سَر بے رخی جتانے کی بَہ جائے اس کا وَٹس اَیپ نمبر مانگ لیا۔ میں جانتا تھا کہ تم نے اپنی غزلیں بھیجنے کے لیے نہیں، بَل کہ اسے بلاک کرنے کے لیے نمبر لیا تھا۔

ممکن تھا کہ کچھ اور لوگ بھی تمھاری طرف متوجُّہ ہوئے، مگر اس سے پہلے تم نے مجھے بلایا۔ میں جو خواب دیکھ رہا تھا کہ بس میں خواب دیکھتے ہوئے تم خواب دیکھنے میں مگن ہو؛ میں نہیں جانتا کیسے مگر میں تمھارے بلانے پہ آ گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک اخبار تھا جسے کھولنے پہ اس سے ایک تیز دھار ٹوکہ برآمد ہوا۔

تمھارے اشارے پہ میں نے تمھارے بازو کاٹ دیے۔ انھیں ایک طرف رکھ کر میں نے تمھاری ٹانگیں، کان، ناک، غرض جسم کا ہر عُضو کاٹ دیا۔ میرے لیے یہ عمل کسی قسم کی اذیّت، یا لطف سے خالی تھا۔

جب میں نے تمھارے جسم کو الگ الگ عضو میں تبدیل کر دیا، تو مجھے تمھاری آواز سنائی دی:

“جا کے ٹَنگ دے چوک تے…”

میں نہیں جانتا میرے دوست اس کے بعد کیا ہوا، البتہ میں نے اس خواب کے بارے میں  ضرور سوچا، جو میں ہمیشہ دیکھتا آیا تھا کہ کسی پُر وقار تقریب میں افسانہ پڑھوں۔

محوِ خواب

ضیغم رضا