خواب نامہ۴
اعجاز رافع، شاعر ہے۔ خالی خولی شاعر نہیں… وہ روح کہ شاعری جس کا انتخاب خود کرتی ہے۔ وہ بہاول نگر کی تحصیل فورٹ عباس کا باسی ہے جہاں تا حدِ نظر ریت ہی ریت ہے۔ شاید یہی پیاس اور ارد گرد کی ویرانی اس کے اندر شادابی کی چاہ بڑھاتی ہے۔ میں جو بیسوں میل اس سے دور ہوں، میٹھا پانی پی کر بھی کبھی پیاس نہیں بجھی۔ سو یہ اتفاق کہیے یا حادثہ۔
ہم دو اداس روحیں ہر رات ملنے اور ابدی نیند کی آرزو لیے سو جاتے۔ اس خواب نامے کا ورود بھی انھی راتوں میں ہوا جب کہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور ایک دوسرے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دیکھیے ہم کب تک یونھی سوچتے رہیں اور یہ بڑبڑاہٹ چلتی رہے!
اعجاز دوستا!
مجھے یاد ہے میرا یہی تخاطب تھا جب میں نے نیم تاریک کمرے میں اپنے بستر پہ تمھیں موجود نہ پایا تھا۔
دو تین دفعہ آواز دینے پہ بھی تم نے جب کوئی جواب نہ دیا تو میں نے اٹھ کر تمھارا بستر ٹٹولا: تم واقعی وہاں موجود نہیں تھے۔
مجھے تشویش نے گھیرا تو دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ یہ اہتمام کرتے ہوئے کہ ہمارا میزبان ہماری وجہ سے گہری نیند نہ چھوڑے، میں نے تمھیں آوازیں دیں۔
ہمارا میزبان کون تھا یہ میں نہیں جانتا۔ ہم تو ہمیشہ کی طرح بہاول پور ملے اور اندھیرا چھا جانے کے بعد اس مہربان شہر نے اپنی سفّاکی عیّاں کرنا شروع کر دی۔ بسیرے کو کوئی ٹھکانہ نہیں مل رہا تھا اور ہم ان لمحوں کو کوس رہے تھے جب اس شہر کی مامتا کے قصیدے کہتے تھے۔ ان برسوں پہ بھی ہم نے بار ہا لعنت بھیجی جو ہم نے اس شہر میں گزارے۔
اب کیا تھا، جس شناسا کو بھی پناہ کی گزارش کرتے یا تو شہر میں موجود نہ ہونے کا عُذر کرتا یا پھر جگہ کی تنگی سے الٹا مظلوم بن جاتا۔
ہمارے میزبان نے ہمیں کیسے پہچانا اور کیوں کر رات اپنے پاس گزارنے کی دعوت دی، میں نہیں جانتا۔
بس اتنا یاد ہے کہ ہم اس کے گھر میں داخل ہونے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ تنگ سیڑھیوں پہ چڑھتے چڑھتے ہماری سانس پھول گئی، مگر زینے تھے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔ ایک بار تو تم مکمل طور پر بے بس نظر آئے:
یار، مَیں تے کہنا اِتّھے ای لَمّے پَئے جاندے آں۔
میزبان نے یہ سنا تو قدرے خفیف نظر آیا۔ اس نے ہنستے ہوئے تمھارا حوصلہ بڑھایا:
“بس چند زینے رہ گئے ہیں۔”
مجھے لگ رہا تھا اس نے محسوس کیا کہ بَہ جائے ہمیں سہولت دینے کے اس نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا ہے۔
خیر، جیسے تیسے ہم اوپر پہنچ گئے، مگر مجھے نہیں معلوم کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ بس یہی نظر آیا کہ تم اپنے بستر سے غائب تھے اور میں تمھیں آوازیں دے رہا ہوں۔
خاصی دیر بعد تم نے مجھے پکارا اور آواز کے تعاقب سے میں نے جانا کہ تم نیچے زمین پہ ہو۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔ نیند میں اٹھ بیٹھنے کی یا کبھی کبھار چلنے کی عادت مجھے بھی ہے: بَل کہ ایک دفعہ آصف رضا کے ہوسٹل میں تھا تب بھی نیند میں اٹھ کر میں پچھلا دروازہ عبور کر گیا تھا۔ مگر تم نیچے کیسے گرے، یہ بات میرے لیے پریشان کن تھی۔
میں نے تمھاری آواز سے انداز لگایا کہ تم کراہ نہیں رہے۔ اس کا مطلب تم ٹھیک ہو… شاید یہی سوچتے ہوئے میں نے تمھیں آواز دی کہ اوپر آ جاؤ۔
یہ سنتے ہی میرے کانوں تک تمھاری غصیلی آواز پہنچی۔ میں نے تمھارے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے دو بارہ تمھیں آواز دی کہ جلدی سے اوپر آؤ مجھے بہت نیند آئی ہے۔ تم نے سختی سے انکار دیا، بَل کہ مجھے کوسنے لگے کہ یہاں لے آنے کی کیا ضرورت تھی۔
“دوبارہ مجھ سے یہ زینے طے نہیں ہوتے۔” یہ کہتے ہی تم نے الٹا مجھ سے تقاضا کیا کہ نیچے اتر آؤ۔ مگر مجھ پہ نیند کا غلبہ تھا۔ میں کش مکش میں پڑ گیا۔ اگر میں نیچے اترتا ہوں تو سیڑھیاں طے کرنے کی ساری مشقت رائیگاں جائے گی۔ دوسری صورت میں تمھیں نا راض کرنا بھی میرے لیے مشکل تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ واپس جاؤں یا سو جاؤں اور خواب ختم ہو گیا، حالاں کہ رات کا بہت سارا حصہ ابھی باقی تھا۔
فقط
ضیغم رضا