خواب دیکھنے کی گستاخی معاف حضور
از، سرفراز سخی
یہ 25 جولائی 2018 کا دن ہے۔ چھ بج گئے۔ ٹن ٹن ٹن ٹن صبح آٹھ بجے سے شروع ہوا پولنگ کا وقت کہیں پٹتا، کہیں چیختا، کہیں ہنستا کہیں روتا، کہیں گاتا کہیں سوتا، کہیں بارش میں تر بہ تر تو کہیں گرمی کے باعث پسینے میں شرابور اپنے اختتام کو پہنچا۔
اب فیصلہ سنانے کے لیے ووٹوں کی گنتی جاری ہے، اور ساتھ ساتھ تسبیح بھی۔ دعاؤں کے کنٹینرز ہیں جو فرش تا عرش بھیجے جا رہے ہیں، جن کا شمار کسی طور گنتی میں نہیں لایا جاسکتا، بل کہ یہ تو ایسا ہے جیسے رات میں گگن تلے بیٹھے تاروں کو گننا، جن کی وجہ سے خلا میں خاصی ٹریفک جام ہو چکی ہے، ملک کا موسمیاتی ادارہ مسلسل ناسا والوں سے رابطے میں ہے، اور ناسا والے بھونچکا۔
مہینوں پہلے آغاز ہوا موضوع فی الوقت گھر گھر اپنے پورے زور و شور سے زیرِ بحث ہے کہ اس بار وزیرِ اعظم کون ہو گا؟ کہیں ایک ہی گھر کے الگ الگ سپوٹرز خواہ مخواہ آپس میں روٹھےہوئے ہیں، تو کہیں پڑوس میں الف ب ج کے سپورٹرز ایک دوسرے کو اپنی اپنی پارٹی کے اوصاف بتاتے ہوئے مات دینےمیں جُتے ہوئے ہیں۔ تو کہیں سوالات ہیں کہ آخر اب کون ؟ جو کہ اگلے پانچ برسوں تک مداری بن کر پوری قوم کو بندر ناچ نچائے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ نیکو کار کون ہو گا؟ جو اس بار ہمارے پیارے وطن کی عزت کو ان پانچ برسوں کے دوران خوب پا مال کرے گا!
میرا مطلب ہے کہ اس دفعہ وہ کون صاحبِ سعادت ہو گا؟ جو قوم کے ہر فرد کو جو کہ پہلے ہی سیاسی لُٹیروں کے فضل و کرم سے ایک جائزے کے مطابق ایک لاکھ ستر ہزار روپے کا مقروض ہے ، اُس کے اِس انجان قرضے میں اضافہ کرنے کا شرف حاصل کرے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ بے گھر کون ہو گا؟ جو کرسی پر تشریف رکھتے ہی بیچاری عوام کو بے گھر کرے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ بے زر کون ہو گا؟ جو حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی اپنی قمیض کی جیب کے طول و عرض میں اتنی تو لازماً پھیر پھار کروائے گا ہی جس میں ایک آدھی بینک بہ آسانی سما جائے!
میرا مطلب ہے کہ وہ صاحبِ نظر کون ہو گا؟ جو ملک کے مسائل کو بغور دیکھتے ہوئے، ایک دور اندیش کی طرح اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو، ماضی اور حال کی بھی دشواریوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، بڑے پیار سے ہٹائے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ معصوم سا خدمت گار کون ہو گا؟ جو اس قوم اور وطن کی دن رات بغیر تھکے لوٹ لوٹ کر بے غرض خدمت کرے گا!
مزید دیکھیے: ہماری اقدار اور کمپنی کا اشتہار
وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ہندوستانی شاعرہ لتا حیا کا کھلا خط
میرا مطلب ہے کہ وہ دانا و حکیم وہ علم سے ناواقف صاحبِ علم کون ہو گا؟ جو اس شعور سے عاری عوام کو علم جیسی بے بہا دولت سے رُو شناس کروا، ان کے کھوئے شعور کو لوٹانے میں مدد گار ثابت ہو گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ فن کار کون ہو گا؟ جو نسلوں کو جلسوں اور دھرنوں میں پیش آنی والی پیچیدگیوں کو سلجھانے تراکیب سمجھائے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ فراخ دست و دل کون ہو گا؟ جو مفلسوں کی مفلسی میں چار چاند لگانے کی تگ و دو میں اپنے خزانے کی مقدار گام گام بڑھاتا چلا جائے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ زبانوں سے محبت کرنے والا صاحبِ زبان کون ہو گا؟ جو اپنے مطلب کے واسطے زبان سے زبان کو لڑوانے میں ذرا پس و پیش نہ کرے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ صحرا کی پیاس کا مارا تشنہ لب کون ہو گا؟ جو اپنی پیاس بجھانے کے لیے کروڑوں لوگوں کو پیاسا مارے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ بھلا چاہنے والا، خیر خواہ کون ہو گا، جو اپنے حصے کی بلائیں ہمارے سر دے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ کم خوراک کون ہو گا؟ جو اس قوم کے حلق سے نوالے نکال کر اپنے پیٹ کی رونق بڑھائے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ قوم سے خطاب کرنے والا خطیب کون ہو گا؟ جو اپنی فکر سے اپنی تقاریر رقم کرے گا، اور اسے قوم کے حالات سے جوڑے رکھے گا نا کہ ڈی جے کی تال سے!
میرا مطلب ہے کہ وہ انسان کون ہو گا؟ جو قوم کے ہر ہرکس و ناکس، ہر ادنیٰ و اعلیٰ کو انسان ہی سمجھے گا!
میرا مطلب ہے کہ وہ قوم کا ہمدرد کون ہو گا؟ جو بیمار پڑ جانے کے سبب یہ سوچ اپنائے گا کہ اپنے ملک میں ہی کیوں نہ اس بیماری کے علاج کے لیے ہسپتال تعمیر کروانے جائیں!
خواب دیکھنے کی گستاخی معاف حضور