خاکم کہ ہستم

Naseer Ahmed
نصیر احمد

خاکم کہ ہستم

از، نصیر احمد

پیٹر: سنو، اپنا تماشا ختم ہوا۔ اپنی بازی تمام ہوئی۔ مختصر یہ کہ ہم ہار گئے۔ اپنا کردار نبھا نہ سکے۔ نہ دیکھنے سننے والے مسحور ہوئے، نہ اپنے من کو شانتی ملی۔ اب ہم میدان سے، تماشا گاہ سے نا کام و نا مراد رخصت چاہتے ہیں۔ ضروری نہیں ہر کوئی سُرخ رُو ہو کر ہی جائے۔ کوئی سر جھکا کر، مُنھ چھپا کر بھی تو جاتا ہے۔ ہر کوئی ہنستا کھکھلاتا تو نہیں جاتا۔ کچھ چہروں سے شکست کی ندامت کے داغ نہیں دھلتے۔ گھر کے کچھ حصے تو ہمیشہ ہی تاریک رہتے ہیں۔ اپنے کرموں کا بھگتان ہی سہی، گھاٹے کا سودا ہی سہی۔ تمھیں سب پتا ہے احتساب کرو یا ہم دردی۔ کوئی صورت بنتی ہے تو بتا دو۔ تمھاری چارہ گری کے تو سارے میں چرچے ہیں۔ کوئی اُپائے نہیں، تو شما کرو ہم سدھارتے ہیں۔

شاخ نبات: ابھی سے، ابھی تو سارے میں چھاؤں ہے۔ چاروں اور اجیارا۔ دن کو سورج، شب کو چندا، تمھاری دل داری اور غم گساری کو جگ مگ روشنی بکھیرتے ہیں۔ ابھی تو جوبنا کھلا ہے۔ ابھی تو رنگ دیکھنا شروع کیا ہے۔ ہر جانب ہریالی ہی ہریالی ہے۔ اتنی جلدی آنکھوں پر پٹی ڈال لی۔ جوبن کی ندیا نے بہنا شروع کیا اور تم سمندر میں گر جانے کی آرزو کرنے لگے۔ مہا راج مستی کرو، رنگ دیکھو، اپسرا کے شریر کا سوم رس تو پی لو، سندری کے دامن میں چھپی لپٹوں کی کھوج تو کرو۔ لکشمی اپنے پیچھے بھاگنے والوں کو نہیں دھتکارتی۔ حسن کے غلام، جگ کے پجاری اتنی جلدی نہیں ہارتے۔ ابھی تو ناٹک چلا ہے، ابھی سے پردے کیوں گراتے ہو؟ ابھی تو نرتکی کے تال پر مٹکنے تھرکنے کا جادو چلا ہے، اس کے پاؤں سے پائیلیں کیوں اتارتے ہو؟ کوئی بڑا گنی ڈھونڈ لو، سر بھی سیدھے ہو جائیں گے، ناچنا گانا بھی آ جائے گا۔ اپنا بے سُرا پن خلوص سے مان تو لو۔ پھر یہ کٹی پھٹی بے ہنگم صداؤں کا شور، سچے سروں کی اہمیت کو اجاگر تو کرتا ہی ہے۔

پیٹر: عیش و عشرت میری منزل نہیں ہے۔ دل لگی، دل بستگی کا ایک ذریعہ موج مستی بھی ہے لیکن مآل نہیں۔ سستانے کے لیے ایک پڑاؤ سمجھ لو۔ اور سندری کے مکھڑے پر چاندنی تو چھٹکتی ہے مگر میری طرح اس کے بھیتر اندھیر ہی ہے۔ سانوری کے نینوں کی جوتی تو جگی ہے مگر اس کے ہردے میں شمشان بستے ہیں۔ باہر کا اجلا پن اندر کی تاریکی تو ختم نہیں کر سکتا۔ میں بھی جب سندری پورے چاند کی آب و تاب دکھلاتی ہے تو اسے دِیدے پھیلا کر دیکھتا ہوں۔ اسے آرائش و زیبائش میں گزارے وقت کا صلہ مل جاتا ہے اور مجھے بھی کچھ خوشی مل جاتی ہے کہ پھول اگانے والا اور خوش بُو کا سواد لینے والا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن نِکہتِ گل سے سجا آدمی دوسروں کی زندگی بے رنگ و بو کردے اس کی خوش ذوقی کی داد دیں یا اس کی ستم ظریفی کی مذمت کریں؟ اپنا چہرہ نکھارنے کے لیے جو دوسرے کا چہرہ بگاڑ دے، ایسے کی تعریف کرنے میں کون سا انصاف ہے؟ اپنے گھر کا اسباب بڑھانے کے لیے جو دوسروں کا مال دھونس سے اٹھا لے جائے، وہ تو ڈاکو ہے نیتا تو نہیں۔ خواہش کو زمانے کی بربادی کا سبب بتانے والا اگر دوسرے سے خواہش سے نجات کا مطالبہ کرتے ہوئے نفس پروری میں مصروف رہے، وہ مہاتما نہیں لوبھی ہے۔ اور اگر خواہش کو زمانے کی ترقی کا باعث جاننے والا اپنی ذاتی املاک میں اضافے کو بہبود عام سمجھے تو…

خواتین کو پردے میں بند کر دو، بے حیائی کم ہو گی۔ گانے والیوں کے چہروں پر تیزاب چھڑک دو، مذہب کی تعلیمات کی تشریح جنسی مظالم سے کرنے والا تو لائقِ تعظیم نہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ اپنے پسندیدہ کے مظالم سے وہ کیسے چشم پوشی کر لیتے ہیں اور غربت اور بد خلقی کے درمیان کیسے رشتے اجاگر کرتے ہیں؟ ستم گر کو کیسے مہر باں کہتے ہیں اور اٹھائی گیرے کو رکھوالا؟ اور کیسے انسانیت کے قاتلوں کو انسانیت پسندی کے تمغے دیتے ہیں؟ اور کیسے مذہب کو ذاتی مفادات کی پرورش کا ہتھیار بنانے والے کو مجاہد کہتے ہیں؟ اور مجرم کو کیسے منصف بناتے ہیں؟ اور علم کو جو اپنی بد اعمالیوں کے سیاہ خانے کا اسیر بنا دے اسے وہ کیسے روشن خیال اور ترقی پسند قرار دیتے ہیں؟ یہ بھی تم نے دیکھا ہو گا، دوسروں کے احساسات سے بے نیاز خود پرستی میں مبتلا کو کیسے عزت و مرتبت دیتے ہیں؟ یہ تو اب سچی بات کہتے ہی نہیں۔


مزید دیکھیے:  خالہ مومنہ کی گٹھڑی اور عیبوں کے نئے قصے  از، فارینہ الماس

ہماری بد صورت دنیا  از، خضرحیات


کہتے ہیں پرلی طرف جانا ہے تو یہاں کیوں پیر دھنسائے جاتے ہیں؟ یہاں کا سب فریب ہے تو اتنی بلند عمارتیں کیوں کھڑی کیں؟ یہاں کا سواد ہی سب کچھ ہے تو یہاں سے جانا کیوں پڑتا ہے؟ ادھر ادھر دونوں سچ ہیں تو کدھر رہیں؟ دو کشتیوں کا سوار تو ڈوبتا ہی ہے۔ دنیا اور عقبی دونوں ایک ساتھ کیسے سدھریں؟ باہر کی روشنی تو نظام شمسی کی مرہونِ منت ہے، اندر کیسے دیا جلائیں؟ میں بھی اسی ہجوم کا حصہ ہوں، نہ لکشمی کی بَلّی چڑھا نہ رام نام ست کی سولی۔ مال بھی نہ بنا پایا اور آخرت بھی نہ سنوری۔ ان سے بھی زیادہ نا کام آدمی۔ نہ نوشہ، نہ باراتی، بس بے کار ہی میں سواری اٹھ جائے گی۔ دیوالیہ تاجر تو آتم ہتیا کرتے ہی رہتے ہیں۔ کوئی دیا نہ جلا سکا تو خود ہی کیوں بجھ نہ جاؤں؟ تم تو بڑے گیانی دھیانی انتریامی ہو، تم ہی کچھ بتاؤ؟

گریگوری: بالک کبھی پریم کا مدھو پیالہ پیا ہے؟ کبھی عشق کیا ہے؟ کبھی کوئی اپنی جان سے بڑھ کر عزیز ہوا ہے؟ کبھی کسی کے جانے کے ذکر سے ہی خوف فزوں ہوا ہے؟ کبھی ساری دنیا تج کر ایک نام جپنے کا مرحلہ آیا ہے؟ کبھی ہار کر جیت کا مزا لیا ہے؟ کبھی کسی در سے دھتکارے جانے پر بھی اسی در کا پتھر بننے کی آرزو جاگی ہو؟ کبھی دو آنکھوں میں خود کو کھو کر پوری کائنات پانے کی معراج نصیب ہوئی ہے؟ کبھی ایک ادائے شیریں کے لیے کوہ کنی کی نوبت آئی ہے؟ کبھی ہنگامِ وصل ہجر کا خوف بے قرار کرتا رہا ہے؟ کیا کبھی غم سے چھلنی دل لیے مسکراتے رہے ہو؟ کیا کبھی ہاتھوں کی کویتا سنی ہے؟ کیا کبھی نینوں کا ناچ دیکھا ہے؟ کیا کبھی آنکھوں سے کہی اور سانسوں سے سنی ہے؟ کیا کبھی کسی سے لپٹ کر ہاتھوں کو متاع دنیا اور آنکھوں دنیا کی ہوس سے دور کرنے کا اتفاق ہوا ہے؟ کیا کبھی تم پر حسن الہام ہوا ہے؟ کیا کبھی نغموں کی دل کشی کسی کی ہنسی کے لطف و کرم کا نتیجہ بنی ہے؟ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کسی ایک کی رخصت کے بعد ایسا لگا ہو کہ پوری کائنات غمگین ہو گئی ہے؟ کیا کبھی کسی کے جانے کے بعد تمھاری آنکھیں راہوں کی دھول کی منتظر رہی ہیں؟

پیٹر: یہ تو سوالوں کا جواب نہیں۔ میرے مسئلے سے تیری شاعری کا تو کوئی تعلق ہی نہیں۔ تم نے تو سِرا سلجھانے کی بجائے اور گنجھل ڈال دیے ہیں۔ تمھاری یہ بے وقوفی انسان کی تکمیل کیسے کر سکتی ہے؟ دنیا کسی ایک آدمی کا ذکر سننے کے لیے فراموش کر دی جائے، یہ تم کیسی باتیں کرتے ہو؟ ایک آدمی جو ایک مسکراہٹ سے دکھوں کا مداوا کر دیتا ہے، یہ تو خیالوں اور خوابوں کی باتیں ہیں۔ ایک ایسا آدمی جسے دیکھ کر ایسا سکون ملے کہ کسی اور نظارے کی تمنا نہ رہے۔ یہ تو کرامتیں ہیں، کرامتیں کہ دوسروں پر راج کرنے کے پھندے۔ اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہوئے کسی کی شان بڑھانا تو اچھی بات نہیں۔ کوئی آدمی آخری نہیں ہوتا۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے کہ سونی جگہ کو آباد کرنا عقل مندی ہے۔ درست اور موزوں فیصلہ ہے۔ جس آدمی کی تم بات کرتے ہو، وہ قیس صحرا گرد، وہ فرہاد کوہ کن، وہ ڈھور چرانے والا، بنسری بجانے والا رانجھا تو حسرت نا کام نے اپنے اظہار کے لیے تخلیق کیے ہیں۔ وہ سبک خرام غزال دشت، وہ الھڑ مٹیار نا روا اخلاقی نظام کی نا روا پابندیوں کےخلاف شعور عام ایک نرم سے احتجاج ہی لگتی ہیں۔ یار لوگوں نے رائی کا پہاڑ بنا دیا۔ وہ جس کا وجود ہی دھوپ اور چھاؤں کا محتاج ہے، وہ روشنی میں سورج سے بڑھ کر کیسے ہو سکتا ہے؟ تصورات کے تراشے ہوئے ہیولے مادی اجسام سے بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟ دیو مالا میں موجود کردار آدمی کی نا رسائی کا اعتراف ہیں اور اس نا رسائی کے ذریعے اس نے اپنے ہم قبیلوں پر حکم رانی کرنے کے لیے ان بڑی اور توانا قوتوں کا جادو جگایا ہے۔ طاقت اور دولت سے متعلق اپنے اغراض و مقاصد کی افزائش کے لیے ان دیکھی شکتیوں کا سوانگ رچایا ہے۔ پتا نہیں یہ مادے سے بنے آدمی کو اتنا کم تر کیوں جانتے ہیں؟ اپنے جیسے آدمی کو محبت اور عزت دے نہیں پاتے تو دیوی دیوتا تراش لیتے ہیں۔ اور ان دیوتاؤں کی قربان گاہوں پر ماتھے رگڑ رگڑ کر بہت ساری زندگیاں ضایع کر دیتے ہیں۔ اور دیویوں کی چاہت میں حقیقی آدمی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ پرلی طرف بھی کچھ دیویوں کا وعدہ ہے۔ مجھ گنہ گار کو تو شاید نہ ملیں مگر دیکھتے ہیں شاید چمن کی زینت بڑھانے کے لیے موجود ہوں۔

ڈیوڈ: پیٹر، اپنی طرف بھی تو دیکھو، تم بھی تو غور و فکر کی مشکلات سے گریزاں ہو کر تصورات و تخیلات کی آسانیوں میں پناہ گزین ہو۔ تمھارے پاس دو راستے ہیں، مشکل راستہ چن لو کہ جینے میں ہے۔ اور یہی بہترین فیصلہ ہے۔ تمھاری نا آسودگی خوشی کو دنیا سے ختم تو نہیں کر دے گی؟ اب بھی دنیا میں انسانیت کے ہم درد موجود ہیں۔ تصوراتی مجسموں کی بجائے آدمی تراشنے کی کرشمہ کاری ہو رہی ہے۔ تم ایک سبک خرام تیز گام زمانے کے سنگ بھاگنے کے لیے تیار نہیں اور ہر وقت سستانے کے بہانے ڈھونڈتے ہو۔ سفر سے زیادہ قیام کی آرزو۔ صعوبتیں سہے بغیر منزل تک پہنچنے کی آرزو ہے۔ قیس و فرہاد قصے ہی سہی مگر تم تو جیتے جاگتے آدمی ہو، یہ جتنے ظلم گنوائے ہیں، ان کو کم کرنے یا دور کرنے کے لیے ابھی کیا ہی کیا ہے اور ہمت ہے کہ ٹوٹ گئی ہے۔ تم سوالی بنے، کسی نے جھڑکا تو تہی دامن لوٹ آئے۔ راج سنگھاسن پر بیٹھے، پرجا پر اُفتاد پڑی تو آسن جما لیا۔ اپنے حصے کے کام تو تم نے ابھی نمٹائے نہیں۔ ابھی بہت بگاڑ ہے اور بہت سدھار کی ضرورت ہے۔ اور سدھار کے لیے تمھاری ضرورت ہے، اس لیے امید ہے اچھا فیصلہ کرو گے۔