وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے : لگائے فقیر صدا
(ذوالفقار علی لُنڈ)
اس عید پر میں اپنے گاؤں گیا تو عید نماز سے پہلے میرے گھر کے دروازے پر ردھم اور دُکھ سے بھر پور پُکار نے مُجھے حیرت میں ڈال دیا۔ مردانہ آواز میں کوئی فقیر صدا لگا رہا تھا کہ اُن کے صدقے روٹی دے دو جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ میں جلدی جلدی چارپائی سے اُٹھا اور اُس آواز کی طرف لپکا دروازہ کھولا تو باہر سیاہ کپڑوں میں ملبوس آدمی کشکول اُٹھائے ایک ہاتھ میں کاسہ تھامے بچوں میں گھرا ہوا ہے، لمبی لمبی اُلجھی ہوئی زُلفیں، گلے میں موٹے موٹے منکوں کی مالا، ہاتھوں میں کڑا پیروں میں گُھنگرو، ہاتھوں کی اُنگلیاں مُندریوں اور چھلوں سے اٹی ہوئی تھیں۔
مُجھے دیکھتے ہی مُسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں گویا ہوا کہ گھر میں روٹی ہوگی مُجھے بہت بھوک لگی ہے؟ بابا اتنی صُبح روٹی تو نہیں پکی آپ بیٹھک پر بیٹھو میں روٹی پکوا لاتا ہوں۔ بابا معنی خیز انداز سے مُسکرا دیا اور زیر لب بڑ بڑایا جو مُجھے سمجھ نہیں آیا۔
اس دوران کُچھ اور لوگ بھی بابے کے ارد گرد جمع ہو گئے جو بابے سے زیادہ اُن کے منکوں، مُندریوں اور چھلوں کو دیکھنے میں محو تھے۔ بابے نے ہجوم کو نظر انداز کرتے ہوئے میرا نام لے کر مُجھے مُخاطب کیا تو میں ایک لمحے کے لیے چونک گیا کہ یہ اجنبی بابا مُجھے کیسے جانتا ہے، میرے ذہن میں وسوسوں اور گُمانوں کی دسیوں لال بتیاں جلنے اور بُجھنے لگیں۔ بابے نے میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے ایک جاندار قہقہہ لگایا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کیا سوچ رہے ہو؟
کُچھ نہیں بس ایسے ہی میں نے فوراً جواب دیا۔ بابا نے میرا بایاں ہاتھ تھاما اور اُس کی پُشت کو غور سے دیکھتے ہوئے یکدم سنجیدہ چہرہ بنا کر کہا وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے اُن کے نام پر روٹی بھی نہیں دو گے؟
اس حالت میں مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کو کیا جواب دوں کیونکہ میرا ذہن عجیب عجیب خیالات کی دلدل میں پوری طرح دھنس چُکا تھا۔ سلمان حیدر، وقاص گورایا، ایجنسیاں، جیکٹ والے، نا معلوم، پُر اسرار اور فرشتے جیسے تصورات میں گھرا ہوا پاکر میں نے اچانک بابے کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مُجھے بے حد ڈراؤنی محسوس ہوئیں۔ میں نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا بابا آپ آئیں نا بیٹھک میں بیٹھیں میں آپ کے لیے کھانے کا بندوبست کرتا ہوں۔
بابا نے سنجیدہ ہو کر کہا دیواروں کی قید میں مُجھے بند نہ کرو روٹی ہی مانگی ہے وہ دے دو میں نے سفر کرنا ہے۔ اس سے پہلے میں کُچھ کہتا بابا نے اوپر دیکھا اور اپنے کاسے کو زمین پر زور سے مارا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تُم بھی ذوالفقار ہو؟
یقین مانیے اُس کے منہ سے یوں سُن کر مُجھ پر وحشت سی طاری ہو گئی اور میں نے اپنے آپ کو سمبھالتے ہوئے کہا بابا آپ کو مولا کا واسطہ ہے مُجھے مزید پریشان نہ کرو سیدھی سیدھی طرح سے بتاؤ آپ کون ہو اور مُجھے کیسے جانتے ہو؟
بابا نے سیدھا سیدھا جواب دینے کی بجائے پہلے دل ہی دل میں کُچھ کہا اور پھر اونچی آواز میں بولنے لگا اپنے نام کی لاج رکھ لو روٹی ہی دے دو، کپڑے تو میرے اپنے ہیں اور مکان کے بغیر میں نے رہنا سیکھ لیا ہے۔
میں نے کہا اوہ بادشاہو بیٹھو تو سہی روٹی کا بندوبست ابھی کیے دیتا ہوں۔ بابا نے جلالی آواز میں کہا کُچھ خبر نہیں تُم روٹی کے وعدے سے بھی مُکر جاؤ کیونکہ تبدیلی کی ہوا چلتے یہاں دیر نہیں لگتی یہاں لوگ منٹوں میں اپنا ایمان اور آدرش بدل لیتے ہیں۔
اس کے بعد بابا نے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھو ان کے پژمُردہ چہروں کو جن پر حیرانی و پشیمانی ہر وقت رقص کرتی ہے، ہر وقت ویرانی ٹپکتی رہتی ہے۔ پھر آس پاس موجود لوگوں سے مُخاطب ہو کر کہا میں کوئی تماشا گر نہیں ہوں جو میرے آس پاس اکٹھے ہو گئے ہو جاؤ اپنے اپنے مُقدر پر ماتم کرو اور مرنے والوں کے پُرسے وسول کرو۔
جاؤ بچو تُم بھی اپنے ننھے مُنے ہاتھوں رزق کماو اور اپنی اپنی روٹی کا بندوبست کرو اور یہی تُمہارے مُقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ میں نے کہا بابا گاؤں کے بچے ہیں یہ اجنبی آدمی کے گرد یوں ہی اکٹھے ہو جاتے ہیں آپ ان کی فکر نہ کرو۔
بابا نے زور سے اپنا کاسہ زمین پر دے مارا اور مُجھے کہا ان بچوں کی فکر کسی کو نہیں ہے ان کو تاریک راہوں پر چلنے کے لیے ماؤں نے پیدا نہیں کیا۔ عید کے دن ان بچوں کو دیکھو پُرانے کپڑوں میں لپٹے ہوئے ہیں پاوں میں جوتی نہیں ہے نہ ہی کسی کے ہاتھ میں کھلونا ہے۔ پتا نہیں کتنے دنوں سے یہ نہائے بھی نہیں ہیں۔ مُجھے پتا ہے اس گاؤں میں پینے کا پانی دور دراز علاقوں سے بھر کر لایا جاتا ہے پچھلے تین دنوں سے گاؤں میں بجلی بھی نہیں آئی مُجھے پتا ہے بیشتر گاؤں کا یہی حال ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: گلیشئر ٹوٹ رہے تھے
اچانک اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا ہمارے حُکمرانوں کو ان کے بارے میں سوچنے کی فُرصت ہی نہیں ہے کُچھ کرپشن کہانی میں اُلجھے ہوئے ہیں، کُچھ دہشت گردی کی نرسریاں اُگانے میں مصروف ہیں، کُچھ اپنے ناجائز کاروبار کو وسعت دینے میں غرق ہیں، کُچھ نام نہاد لیڈران کے حق میں بھونڈے دلائل دینے کی دوڑ میں سانسیں پُھلا رہے ہیں، کُچھ ملاکا کین چھڑی سے نئے نویلے جانوروں کو ہانکنے کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، کُچھ مذہب کے نام کا چورن بیچتے پھرتے ہیں اور باقی ماندہ پارٹیاں بدلنے کی طاق میں بیٹھے ہیں۔
بچو ننھے مُنے معصوم بچو تُم بھی تاریک راہوں کے مُسافر ہو تُمہارے کانوں میں بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ گونجتا رہےگا، تُم بھی تبدیلیوں کے نام پر بہلائے جاتے رہو گے تُمہیں بھی انصاف کی دیوی کی آس اُمید میں زندہ رکھا جائیگا، تُمہارا خون بھی انجانے انقلاب کے نام پر بہایا جائے گا، تُم بھی فیض کا گانا “وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے” کورس میں گا کر اپنے من کا بوجھ ہلکا کرو گے !
بابا بغیر روٹی کھائے اپنے سفر کی طرف درد بھری آواز میں وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے گاتا ہوا چل پڑا اور میں اُسے روکے بغیر بے سُدھ اُس کے ہیولے کو تکتا رہا۔