زبان و ادب کے تھکے ہوئے سرکاری اداروں کے اغراض و مقاصد

اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، اور ادارہ فروغِ قومی زبان

ایک روزن لکھاری
نعیم بیگ، صاحبِ مضمون

(نعیم بیگ)

گزشتہ دنوں ایک ساتھ اردو زبان کے تین مقتدر و معزز اداروں میں تقریوں کی خبر میڈیا میں شہ سرخی بنی۔ پہلی خبر میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ دوسری خبر میں افتخار عارف ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور تیسری خبر میں عقیل عباس جعفری اردو لغت بورڈ میں ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان تقریوں کی اطلاع ملتے ہی ادبی حلقوں اور انفرادی شخصیات کی طرف سے سوشل اور پرنٹ میڈیا پر مبارک باد کے پیغامات کی ایک تفصیل موجود ہے۔

ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ اس بارگی تینوں شخصیات اردو ادب و صحافت سے چنی گئی ہیں۔ جس کے یقینی طور پر مثبت اثرات ان اداروں کی کارکردگی پرنظر آئیں گے۔ ان تینوں شخصیات میں سب سے سنیئر محترم افتخار عارف ہیں جو اس سے پہلے بھی اکادمی ادبیات کے چیئرمین کے طور پر اپنی کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ ان جملہ اداروں کی سربراہی اس سے پہلے بھی اکثر و بیشتر ادبی شخصیات ہی کر چکی ہیں۔

ان اداروں میں سب سے قدیم ادارہ اردو لغت بورڈ ہے جو وزارتِ تعلیم نے ۱۹۵۸ء میں قائم کیا تھا۔ جس کا ابتدائی نام ’اردو ڈیولپمنٹ بورڈ‘ رکھا گیا تھا، جسے ۱۹۸۲ء میں اردو ڈکشنری بورڈ کا نام دے دیا گیا۔ اردو لغت بورڈ کے پہلے سربراہ بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے، جن کے بعد اردو لغت بورڈ کو ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر ممتاز حسن، جمیل الدین عالی، ہاشم رضا و دیگر نابغہ روزگار ادبی، علمی اور دانشور شخصیات کا علمی تعاون اور سربراہی حاصل رہی۔

اس ادارے کی پہلی کامیاب کاوش جو برسوں بعد تکمیل کے سخت ترین مراحل سے گزرنے کے بعد ایک ایسی جامع لغت کی تدوین و اشاعت ہے جو اکسفورڈ لغت کی بنیادی اصولوں پر مبنی تشکیل دی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ اردو کی تہذیبی، لسانی و ثقافتی لغت بھی ہے۔ بلاشبہ اس ادارے نے بہت بڑا کام کیا ہے تاہم ابھی اس ادارے کو مزید کام کرنے ہیں، جس میں اردو کی یک جلدی مختصر لیکن جامع لغت سرِ فہرست ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس سمت میں کیا پیش رفت ہو چکی ہے لیکن یہ کام بے حد دشوار ہے۔ پر نئے مدیر کی تقرری یقیناً لغت کی تدوین و ترتیب میں ممد و معاون ثابت ہوگی۔

اس ضمن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ راقم گزشتہ چند برسوں میں دو بار اردو ڈکشنری بورڈ کراچی کے آفس میں لغات کی خریداری کے لئے جا چکا ہے لیکن ہر بار بائیس یا تیئس جلدوں پر مشتمل مکمل لغت میسر نہیں ہوئی۔ پہلی دفعہ جو چند جلدیں (volumes) ناپید تھیں اگلی بار وہ میسر تھے۔ لیکن دوسری چند جلدیں ناپید تھیں۔ بورڈ کے سینئرسٹاف سے ملاقات کے دوران بہت سی کمیوں کی نشاندہی ہوئی جس میں سر فہرست مالی دشواریوں کا شکوہ تھا۔ مالی دشواریاں اس حد تک تھیں کہ تنخواہ وغیرہ کا بھی مسئلہ نظر آیا۔ میرا خیال ہے کہ نئے سربراہ عقیل عباس جعفری اس جانب ضرور توجہ دیں گے اور اس ادارے کو اپنے انتظامی اثر و رسوخ سے قدموں پر کھڑا کرنے کے انتظامات ضرور کریں گے۔

جہاں تک اردو سائنس بورڈ کا تعلق ہے، میرے نقطہ نظر سے اس کے اغراض و مقاصد میں سرفہرست اردو زبان کو مکمل طور اور قومی تعلیمی سطح پر فروغ دینا اور اس میں سائنسی اصطلاحات کو شامل کرنا ہے تاکہ اردو کی تعلیم میں غیر ملکی زبانوں کے علوم کو عام کیا جائے ، تاکہ تعلیم کے اعلیٰ مدارج باآسانی طے ہو سکیں۔

اس ضمن میں جب (تفصیل کے لئے کلک کیجئے) راقم نے اردو سائنس بورڈ کے ویب سائٹ پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ تقریباً ملتے جلتے ہی اغراض و مقاصد ہیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ شاید اس وقت لکھے گئے تھے جب پاکستان مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل تھا۔ کیونکہ ان مقاصد کے حصول میں مغربی پاکستان کے بارے میں وضاحت سے لکھا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ساٹھ کی دھائی کے بعد بورڈ کے کسی اہلکار نے اس عبارت کو پڑھنا تک گوارا نہیں گیا۔ یہاں یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ بورڈ کے ذمہ علاقائی زبانوں میں لغات کی ترتیب و تدوین بھی ہے۔ جب کہ فہرست کتب میں صرف لغت اور انسائیکلوپیڈیا کے عنوان تلے اٹھارہ کتب میسر نہیں ہیں۔ جبکہ دیگر مضامین پر ۲۴۵ کتب بھی دئیے گئے ریمارکس کے مطابق میسر نہیں ہیں۔ یہ فہرست سنہ 2012 میں آخری بار ترتیب دی گئی تھی۔

مجموعی طور پر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اردو سائنس بورڈ میں گذشتہ کئی برسوں سے کوئی کام نہیں ہو رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سرگرم ادبی شخصیت ڈاکٹر ناصر عباس نیر کو اس ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ناصر اردو سائنس بورڈ میں فوری اقدامات کے ذریعے اردو سائنس بورڈ کو سرکاری اور تھکے ہوئے ادارے کی فہرست سے نکال کر اسے ایک متحرک اور باکمال ادارہ بنانے میں مدو معاون ثابت ہونگے۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ بیک وقت اردو لغات پر کام کر رہے ہیں جبکہ راقم کا ذاتی خیال ہے کہ اردو سائنس بورڈ اردو میں سائنسی علوم پر مبنی لغت کا ذمہ دار ہے ورنہ یہ کام ’’اوور لیپنگ‘‘ ہو گا۔ اگر دونوں اداروں نے یہی کام کرنا ہے تو بہتر ہے کہ اردو لغات کا کام اردو لغت بورڈ کو مستقل بنیادوں پر منتقل کر دیا جائے کیونکہ اردو لغت بورڈ اس سلسلے میں ضخیم ۲۳ جلدوں پر بہت عمدہ کام کر چکا ہے ان کے ہاں سائنسی علوم پر اصطلاحات شامل کرنے سے ایک الگ لغت تیار کرنا زیادہ دشوار نہیں ہوگا تاوقتیکہ انہیں مالی دشواریوں سے نکال دیا جائے۔ ان اقدام سے اردو سائنس بورڈ کا اپنا کام اور زیادہ توجہ اور دلجمعی سے ہونا مقصود ہے۔

اب کچھ گفتگو ادارہ فروغِ قومی زبان ( مقتدرہ قومی زبان) پر بھی بات کرلیتے ہیں۔ (تفصیل کے لئے کلک کیجئے) ادارہ فروغ قومی زبان کی ویب سائٹ پر اغراض و مقاصد کے تحت پہلا مقصد کچھ یوں رقم ہے۔’’پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت سے اردو کو فروغ دینے کے لئے ذرائع و وسائل پر غور کرنا، نفاذ کے سلسلے میں تمام ضروری انتظامات کرنا اور سرکاری سطح پر قومی زبان کے جلد از جلد نفاذ کے لئے حکومت کو سفارشات پیش کرنا۔‘‘

۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت تشکیل دیا جانے والا یہ ادارہ سنہ ۱۹۷۹ء میں قائم ہوا اور جب سے لیکر آج تک ’اردو زبان کی خدمت، ترقی و ترویج کے لئے جس تندہی سے اس نے اپنی سرگرمیاں دکھائی ہیں وہ آج سنتیس برس بعد عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود بخوبی نظر آتی ہیں۔ تھکے ہوئے اس ادارے کی کاغذی کاروائی کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ تعارفی صفحہ پر’’بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اردو زبان کے بارے میں پیغام‘‘ کے سامنے ایک سیاسی وفاقی وزیر’’ استادِ محترم ‘‘ کی تصویر آویزاں ہے۔ جس کے نیچے بلحاظ عہدہ سیکریٹری صاحب کی تصویر ہے۔ یہاں محکمانہ سرگرمی کا اندازہ لگائیے کہ محترم افتخار عارف کی تصویر بحیثیت ڈائریکٹر جنرل کی تصویر ان کی حالیہ تقرری کے بعد جس پھرتی سے لگائی گئی ہے کاش اسی عجلت میں فروغ اردو کے کسی پہلو بالخصوص سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بھی غور کیا ہوتا۔

ہمیں ان تصاویر پر اعتراض نہیں لیکن اے کاش، لگ بھگ ستر برس گزرنے کے بعد آج تک اردو سرکاری زبان کے دائرہ میں داخل نہ ہو سکی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا اور سرکاری محکموں سے سرکاری سرخ فیتہ ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ قائد اعظم کے ۲۱ مارچ کے ڈھاکہ کے پیغام کے سامنے کل کسی نئے وزیر کی تصویر لگی ہوگی۔ اس بات کو ادارے کے سربراہ کو سوچنا ہے جنہیں اس ادارے کی سربراہی سونپی گئی ہے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔