میں زمین نام کے سیارے کا انسان ہوں
(ظہیر استوری)
میں زمین نام کے اس سیارے میں بسنے والے انسان نام کی ایک مشین ہوں۔ ہوش سنبھالنے سے اب تک مجھے اپنی خواہشات، خیالات اور سوچ کو کہیں معاشرہ تو کہیں مذہب، کہیں رسم و رواج تو کہیں نام نہاد قوانین و اصول کے نام پر قربان کرنا پڑا ہے۔ مجھے محرومی کے ایک سمندر کے درمیان اتار دیا گیا ہے اور حکم ہوا ہے کہ اس میں تیرنا سیکھو۔ اس لا متناہی سمندر میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جو سوال میرے ذہن میں اُٹھتے ہیں ان کا جواب جاننے کی جب بھی کوشش کی ہے مجھے دھتکارا گیا ہے، میری حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
محرومی کے اس سمندر میں رہتے ہوئے میری ذات میں بھی محرومی کے داغ پڑ چکے ہیں میں ان داغوں کو قلم کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر یہاں بھی ایک ان دیکھے خوف کی پرچھائیاں میرے قلم اور آنکھوں کے آگے آ جاتی ہیں۔ ان سب دشواریوں کے باوجود یہ سوال اُٹھانے کی جبلت ہے کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔
اسے بھی ملاحظہ کیجئے: ول ڈیوراں خط لکھتا ہے : کہ عہد نو میں زندگی کو کیا ہو گیا ہے
میں انسان ہوں، اشرف المخلوقات میرا لقب ہے، فرشتوں سے آگے میری منزل ہے مگر اس کے باوجود میں اس حد تک مجبور و محروم کیوں ہوں کہ مجھے سوال کرنے کا بھی حق نہیں دیا جا رہا۔ کیا یہی میری منزل ہے کہ جہاں مجھے اپنی سوچ پر تالے لگانے پڑ رہے ہیں، میں اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کو بولنے کے حق سے بھی محروم رکھنا چاہتا ہوں۔ میرے “کارنامے” اور کام فقط یہ ہیں کہ میں دوسرے کا راستہ کاٹ کر آگے چل دیتا ہوں اور کبھی مڑ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے کاٹے ہوئے راستے پر سے گزرنا دوسروں کے لئے کتنا دشوار ہوتا ہے۔
میں سال کے گیارہ مہینے ایسے ہی راستے کاٹتے ہوئے گزارتا ہوں اور ایک مہینہ بھوکا پیاسا رہ کر، مسجدوں کے فرش پر ماتھا رگڑ کر گیارہ مہینوں کے “کارناموں کو پاک” کررہا ہوتا ہوں۔ میں اپنے نظریات کو ایک ایسی تاریک گلی تک لے جاچکا ہوں کہ جہاں مجھے اپنے علاوہ ساری دنیا بے وقوف اور “جہنمی” لگتی ہے۔ میں دوسروں کے نظریات کو ماں بہن کی گالی سے سواگت کر رہا ہوتا ہوں اور جو میرے نظریات پر سوال اُٹھائے اسے قتل کرنا میرے لئے عین واجب ہوتا ہے۔ میں اپنے روزوں کے احترام میں قوانین بناتا ہوں مگر ایک انسان کو اس لئے مرنے دیتا ہوں کیونکہ وہ صفائی کا کام کرتا ہے اور اس کا علاج کرنے سے میرا روزہ نہ ٹوٹ جائے۔
میں منبروں پر چڑھ کر انسانیت کے نام پر اپنے نظریات کے دفاع میں خون کی ندیاں بہانے اور انسانی جان لینے کو فرض قرار دیتا ہوں۔ میں سوال کرنے والے پر کفر کا فتویٰ لگا کر اس کی زندگی اجیرن کر دیتا ہوں۔ یہ میرے پاس یہی واحد ہتھیار ہے جس کی بنیاد پر میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ کیونکہ یہی وہ ہتھیار ہے جس کی بنیاد پر میری روزی روٹی چلتی ہے، میرے پیچھے لوگ کھڑے ہوتے ہیں، معاشرے میں میرا ایک مقام ہے۔
یہ سب کچھ صرف اسی کی بدولت ہی تو ہے۔ تو پھر میں کیوں اسے پیچھے ہٹوں؟ بے شک میری اس سوچ کی وجہ سے لاشیں اُٹھانی پڑیں، کسی کا گھر برباد ہوجائے، کسی کی زندگی ختم ہو جائے مجھے کیا۔ میں تو اپنا “فرض” نبھا رہا ہوتا ہوں۔ مجھے دنیا سے کیا غرض؟ بے شک دنیا ادھر کی اُدھر ہوجائے میں اپنے خیالات سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہوں، کیونکہ یہ میری عزت سے لے کے روزی روٹی تک کا معاملہ ہے۔
میرے پاس یہ سب کرنے یا دوسروں کے اشاروں پر اپنے گھر کو آگ لگانے کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہے۔ میں اس زمین نام کے سیارے کا انسان ہوں اور میرے پاس سب سے موثر اور چلنے والے ہتھیار صرف یہی ہیں اور میں ان کا بھرپور استعمال کر رہا ہوں کیونکہ میرے علاوہ اس زمین پر اور کسی کو کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
Very nice essays Zaheer.Keep it up