انسان نے دوزخ کس شوق میں اوڑھ لی
از، ذوالفقار علی
دوزخ کے عذاب کی سختی سے کب تک ڈرتے؟ اس ڈر پر قابو پانے کیلئے ہم نے اس دُنیا کو ہی جہنم بنا ڈالا۔ انسان کے لا شعور کا ڈر اُسے اُکساتا ہے اُبھارتا ہے اور پھر ڈھالتا ہے دیکھو ہم کتنا ڈھل چُکے ہیں۔ کنکریٹ کے قلعوں میں بس رہے ہیں، بموں کو جسموں سے باندھ کر پھٹ رہے ہیں، بندوقوں کے سائے میں چلتے پھرتے ہیں، موت کے اُڑن کھٹولوں میں محو سفر ہیں، فتووں کا بوجھ اُٹھائے خوف کے سائے میں زندہ ہیں، الزاموں اور تفرقوں کے بیچ زندگی کو جیتے ہیں، زہر آلود ہوا کو پھیپھڑوں میں اُنڈیل کے خوش رہتے ہیں، بے اعتبار رشتوں کا طوق گلے میں ڈالے ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں۔ ہم نے تو واقعی دوزخ اوڑھ لی ہے۔
اپنی اصل سے کٹتے کٹتے جہاں پہنچے وہاں نہ میں میں رہا نہ تُم تُم رہے۔ سڑک جنگلوں میں گُھسی تو پیڑ شہروں میں آ بسے مگر زندہ نہیں مُردہ۔ پرندوں کے ٹھکانے ہم نے اُجاڑ دیئے تو رنگ برنگے پرندے ہجرت کر گئے مگر ہماری روح کالی سیاہ ہوگئی۔ سیاہ روح میں ویرانیوں کےشعلے بھڑکتے ہیں تو ہم اس آگ سے بھاگ بھی نہیں سکتے بس جلتے رہتے ہیں۔
اس آگ سے اب بھلا کیسے بچیں۔ آگ بُجھانے والے دریاؤں کو تو ہم نے قید کر کے مار ڈالا، زمین کی کوکھ سے اُگنے والے سبزے اور فطری پودوں کی جگہ ہم نے نقد آور فصلیں کاشت کیں اور پیٹ کے جہنم کو بھرنے کیلئے زمین کو بد صورت بنا دیا۔ خوشبو سے لدے اور معطر ہوا کے جھونکوں کو فیکٹریوں کے دھوئیں نے سے بدل دیا۔ ساون کے بادلوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی آگ نے بھسم کر دیا، بہار رُتوں کو بدلتے موسموں نے ہم سے جُدا کر دیا، چاندنی راتوں کو مصنوعی روشنیوں نے ماند کر دیا، نیلے آسمان کو ہمارے اودھم سے اُڑنے والی خاک نے ڈھک لیا، پھولوں کی خوشبو کو گندے نالوں، اُبلتے گٹروں،فارمی مُرغی کے جدید دڑبوں اور چمڑے کی فیکٹریوں نے اُچاٹ لیا، دادی کے قصوں، ماں کی لوریوں اور مقامی گیتوں پر ٹی وی سکرینوں نے قبضہ جما لیا، رخت سفر باندھنے والوں کی چاہت کو موبائل نےمار ڈالا، مقامی کھیلوں اور بیٹھکوں کا پار والوں نے گلا گھونٹ دیا، شیشم اور بیر سے جھولتی پینگوں کو پارکوں میں لگے جھولوں نے مٹا دیا، کھیلتے کودتے بچوں کو شہر کی دیواروں نے روک دیا، چاند سی محبوبہ کو میک اپ کی دبیز تہوں نے چُھپا دیا، ننگے پیروں نے جو ریت کے ذائقے چکھے تھے اُن کو تسمے بند بوٹوں نے نا آشنا کر دیا۔
اتنی ساری آگ تو اوڑھ رکھی ہم نے۔ اب شاید آگ کو اوڑھنے سے کام نہیں چلے گا اب آگ کو کھانا اور پینا بھی پڑے گا۔ یہ دُنیا جس سمت میں جا رہی ہے اس میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آنے والی نسلیں آگ کو اوڑھنے کے ساتھ اس کو کھایا پیا کریں گی۔جس کی ابتدا تو ہو چُکی ہے۔ modified seeds کا بازار گرم ہو چُکا ہے۔ جینیٹکلی تبدیل شُدہ پھل، سبزیاں، گوشت اور انسانی خوراک کی دوسری اشیا سے ہمارے بازار بھرے پڑے ہیں۔ بے ذائقہ اور ضروری وٹامن سے عاری۔ جن کو کھا کھا کے ہماری نسل کے جسم رینگتے ہوئے جانوروں کی طرح کے ہو جائیں گے پھر بھی بھوک نہیں مٹے گی۔ دوزخ کی خوراک کی نشانیاں بھی اس سے ملتی جُلتی ہیں یہ بھی ہم ادھر ہی اپنا کے دم لیں گے تاکہ وہاں کی آگ میں اپنے آپ کو ڈھالنے میں زیادہ دیر نہ لگے۔
مزید دیکھیے: پھانسی یعنی پھندے کی موت، ایک توہین آمیز سزا از، عافیہ شاکر
آگ پینے کا سلسلہ بھی تو شروع ہو چُکا۔ کہاں ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی لسی، اور کہاں یہ کولے۔ کہاں وہ ہاتھ سے بنی ٹھندائیاں اور کہاں یہ کمپنیوں کے مشروب۔ کہاں وہ “برم ڈنڈی” کا شربت اور کہاں یہ بروریاں!
محشر لگ چُکا ہے اب حساب کتاب ہوگا جو ہم نے بویا ہے یا جو ہم بو رہے ہیں اس کو اب سمیٹنا تو پڑیگا۔۔کیسے لوگ ہو آپ بھی آگ کو ترقی کا نام دیتے ہو۔