ایدھی لینڈ مافیا کی زد میں
از، وسعت اللہ خان
ہالہ میں ایدھی سینٹر کی جگہ پر قبضہ کر کے مخدوم خاندان کی گدی کے روایتی سیاسی و روحانی اثر و رسوخ کے باوجود ہوا ہے۔
گزشتہ برس آٹھ جولائی کو عبدالستار ایدھی کا انتقال ہوا تو بے مثال انسانی خدمات کے اعتراف میں ریاستِ پاکستان نے ان کی تجہیز و تکفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن کے لیے قومی پرچم سرنگوں ہوا۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ان کی نمازِ جنازہ میں صدرِ مملکت ممنون حسین، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں، گورنر سندھ ، پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلی سمیت پوری ریاستی قیادت کی نمایندگی تھی۔ فوجی گاڑی میں تابوت رکھا گیا، انیس توپوں کی سلامی ہوئی اور پھر جلوسِ جنازہ ایدھی ولیج کی جانب روانہ ہوا۔ دو رویہ عوام نے انھیں آخری بار نم آنکھوں سے رخصت کیا۔
اس روز میڈیا کو کوئی کام نہ تھا۔ ہر چینل کوریج میں دوسرے سے بازی لے رہا تھا۔ بہرحال ایدھی صاحب کی تدفین کے بعد ان کی قبر کو ایک چاق و چوبند فوجی دستے نے سلامی دی۔
اس دن پورے پاکستان میں ہر شخص ٹی وی کیمروں کے سامنے ایدھی کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دامے درمے قدمے ہر ممکن مدد کی قسمیں کھا رہا تھا۔ چنانچہ یہ فقیر اسی وقت کھٹک گیا کہ اب ایدھی فاؤنڈیشن کے بحرانی دن آنے والے ہیں۔ کیونکہ ریاست نے ایدھی صاحب کو ریاستی اعزازی تدفین دے کر اور باقی لوگوں نے اسکرین پر قسمیں وعدے کر کے واہ واہ سمیٹ کر اپنا اپنا مردہ پرست فرض پورا کر دیا ہے۔ اب جو بھگتنا ہے وہ بلقیس ایدھی اور فیصل کو بھگتنا ہے۔