ایدھی صاحب کا رفاہی ماڈل : کسی انقلابی پارٹی سے چند سوال
از، وقاص احمد
آج کل ایدھی صاحب اور ان کی فاؤنڈیشن کے کام، اس کی ترقی، اس کے معاشرتی اثرات اور کامیابی کو لے کر بہت ساری بحثیں ملک کے سوچ اور فکر رکھنے والے طبقے میں پنپ رہی ہیں۔ ان مباحث میں سے ایک اہم مباحثہ اشتراکی نقطہ نظر رکھنے والے افراد کے درمیان پیدا ہوا کہ ایدھی صاحب کی کوششیش موجودہ سیاسی، سماجی اور اخلاقی تناظر میں سرمایہ داری کی ممد و معاون ثابت ہوئیں یا دراصل ان کی کوششیں ایک ظالمانہ سماج میں ریاستی نا اہلی کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہیں۔ دوسری بات یہ کہ کیا ایدھی صاحب کی سماجی اور رفاہی خدمات کےکلیے کو کسی انقلابی لائحہ عمل کا حصّہ بنایا جا سکتا ہے، اور انقلابی راستے میں یہ رفاہی خدمات عوام میں راہ عمل آسان بنانے کے لئےاستعمال ہو سکتی ہے؟
اس بارے میں پاکستان کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کےجن میں یہاں کی ثقافت، عمومی مزاج، عوامی رویے نیز سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کے پیچ و خم اور پیش آنے والی مشکلات کو لے کر کچھ سوالات تیار کیےگئے ہیں۔ جو اس بارے میں ایک واضح موقف کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ان الجھنوں کو دور کر دیا جائے تو یقیناً ہم یہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے کہ رفاہی اقدامات کے ذریعے اشتراکی انقلاب کا راستہ کیسے ہموار کیا جا سکتا ہے اور اس نکتہ نظر میں کتنی جان ہے۔ لیکن ان سوالات سے پہلے چند بنیادی گزارشات بھی سن لی جائیں تاکہ ان سوالات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
یہ ضروری امر ہے کہ انقلابی جماعت جس نظریے یا اصول پہ کھڑی ہے، اس جماعت کے اساسی نظم کے رفقا اس نظریے پر مکمل عبور رکھتے ہوں اور اس متوازن اور مسابق نظام کے خدوخال سے پوری آگاہی رکھتے ہوں جس کے وہ نقیب ہیں۔ تاکہ وہ مقابل ظالمانہ نظام کو اتار پھینکنے کے فورابعد اس خلا کو باآسانی پورا کر سکیں جو سیاسی، سماجی اور معاشرتی محاذ پہ پیدا ہو چکا ہو۔ انقلابی قیادت میںاس صلاحیت کے فقدان کا نتیجہ انقلاب کے فوری بعد
اسی طرح تنظیمی سرگرمیوں کے لئے ایک پختہ، باوقار اور خود انحصاری کی خوبی سے باوصف ایک مکمل شفاف اور کارآمد معاشی نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جو پارٹی کے کارکنان اور قیادت کے باہمی تعاون سے ہی قائم کیا جا سکتا ہےکیونکہ انقلابی عمل کے لئے درکار وسائل کے لئے کسی بیرونی طاقت پر انحصار تحریک کے مقاصد کو کمزور کر سکتا ہے۔ فنڈنگ کرنے والے چاہےظاہراً کتنے ہی انقلابی ایجنڈا سے متفق نظر آئیں، اگر عملی طور پر اس تحریک کا حصّہ نا ہوں تو ان پر کامل اعتماد اور انحصار انقلابی پارٹی کے لئے کسی بھی وقت پریشان کن صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا مالی معاملات میں خود انحصاری انقلابی پارٹی کی اہم ترین ضرورت ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جماعت میں نئے افراد کی شمولیت کے لئے ایک شعوری جدو جہد اور میکانکی عمل کی ضرورت ہے۔ جس میں وقت، وسائل اور صلاحیت تینوں عوامل کا اپنے اپنے دائرہ کار میں پوری طرح مصروف عمل ہونا ضروری ہیں۔ تاکہ نئے آنےوالے افراد نظریاتی اورعملی طور پر پارٹی منشور کو پورے طریقہ سے سمجھ کراور دل وجان سے اپنا کرپارٹی کا حصّہ بنیں اور کوئی غیر نظریاتی یا مفاد پرست عوامل پارٹی میں شمولیت کا باعث نا ہوں ورنہ ایک مرحلےپر پارٹی کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔
اب ہم پاکستان کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ وہ رفاہی ماڈل جسے اشتراکی انقلاب کے عمل کے لئے سیڑھی کے طور پہ استعمال کرنے کی بات کی جا رہی ہے، پاکستان کی ایک اشتراکی سیاسی تنظیم کی ساخت کے لائحہ عمل کا حصّہ ہے اور وہ پارٹی اپنی موجودہ ہیئت میں اس ماڈل پر کسی قدر عمل پیرا بھی ہے۔ غالباً اسی جماعت کے افراد اس ماڈل کی حمایت میں مختلف آرا پیش کرتے رہتے ہیں۔ پیش کردہ سوالات کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی استدعا ہے۔
پہلا سوال:
پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ پارٹی کارکنان یقیناً ایسے لوگ ہوں گے جو معاشی حوالے سے خودکفیل ہوں ورنہ پارٹی سرگرمیوں کے لئے وقت، پیسہ اور تگ و دو ان کے لئے ناممکنات میں سے ہو گا۔ چنانچہ ایسے لوگ مڈل کلاس یا بالائی طبقات کے ہی ایسے با صلاحیت افراد ہوں گے جو اس نظام کی دستبرد سے کسی حد تک بچے ہوں گے۔ ایسے افراد تنظیمی کام کے ساتھ ساتھ ذاتی معاشی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں گے۔ اب ایسے افراد سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ مندرجہ بالا دعوتی، انتظامی اور معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کچھ عوام دوست رفاہی منصوبوں میںبھی شریک ہوں جن کا مقصد وقتی طور پر عوام کے ایک مختصر طبقے کے لئے ریلیف حاصل کرنا ہے۔ کیا عملیت پسندی کی کسوٹی پہ یہ انقلابی جماعت کے کارکنان سے ایک صحیح تقاضا ہو گا؟کیا انقلابی جماعت کی صلاحیت کو دو مختلف محاذوں پر تقسیم کرنا درست فیصلہ ہو گا؟
دوسرا سوال:
کسی بھی رفاہی منصوبے کے لئے چاہے وہ حجم میں کتنا ہی مختصر کیوں نا ہو، کافی سے زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک انقلابی تنظیم دعوی رکھتی ہے کہ وہ پورے معاشرے کے پست طبقات کی نمائندہ ہے اور تمام افراد کو بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کی تقسیم کے فائدہ پہنچانے کی ذمےدار ہے۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ ایک نوزائیدہ جماعت ایسے بڑے پیمانے کا رفاہی کام جو ملک کے ہر گوشے میں موجود ہو،کیسے انجام دے سکتی ہے۔ اس بڑی نوعیت کے معاشی وسائل کہاں سے مہیا ہوں گے؟ اور اگر صرف دو چار علاقوں میں کام کیا جائے گا تو باقی علاقے تعصب کی نظر سے اس ہونے والے کام کو نہیں دیکھیں گے؟
تیسرا سوال:
جس نظام سے آپ کا مقابلہ ہے، کیا آپ کو لگتا ہےکہ وہ آپ کو اس طرح سے رفاہی ادارے چلانے دے گا یا اصلاحی تحریکات میں آپ کا ممد و معاون ہو گا جیسے اس نے ایدھی صاحب کی خاموش حمایت جاری رکھی۔ کیا ویسا ہی برتاؤ آپ کے رفاہی اقدامات کے ساتھ کیا جائے گا یا آپ کو مسلسل مخالف ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا
پڑے گا۔ نتیجتاً عوام تک ان رفاہی اقدامات کے ثمرات نامکمل اور تاخیر کا شکار ہو کے پہنچیں گے اور آپ کی تنظیمی صلاحیتیں اور معاشی وسائل بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
چوتھا سوال:
کچھ اصلاحی تحریکوں میں جیسا کہ ٹریڈ یونینز یا کچی آبادی کے لئے مالکانہ حقوق وغیرہ کے لئے آپ کی نوزائیدہ جماعت کے کارکنان اور قیادت کو براہ راست سسٹم سے ٹکر لینا پڑے گی۔ اسی بنیاد پر آپ کی جماعت کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑے گا، تو کیا ایسا نہیں کہ ان لا یعنی لڑائیوں سے آپ کا تربیت یافتہ کارکن یا پارٹی لیڈر بجائے اس کے کہ وہ نظریاتی کارکنان کی بھرتی، تیاری اور ان میں انقلابی روح پھونکنےمیں معاون ثابت ہوتا، جیل کی سلاخوں کے پیچھے دال روٹی کھانے پہ مجبور ہو گا اور اس کی تنظیمی صلاحیتیں کسی کام نا آئیں گی۔
پانچواں سوال:
آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ایدھی ماڈل میں سرمایہ دارانہ قوتیں وسائل کی ایک بڑی کھیپ ادارے کو فراہم کرتی تھیں۔ آپ اپنے مزدور اور مڈل کلاس انقلابی طبقے سے کیسے اتنے وسائل اکھٹے کر پائیں گے کہ اس پیمانے کے سوشل ورک کو پورے پاکستان میں پھیلا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹ سکیں؟
چھٹا سوال:
کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تمام معاشی وسائل، تنظیمی افرادی قوت اور تجربہ جماعت سازی اور مستقبل کی لیڈرشپ کی تیاری پر صرف ہو تاکہ ملک کے طول و عرض میں با صلاحیت نوجوانوں کی ایسی نرسری تیار ہو جائے جو نا صرف عوامی دور کے مختصر عرصے میں عوام کو ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتی ہوبلکہ ایک متبادل اور متوازن انتظامی ڈھانچہ بھی کھڑا کر سکے؟
ساتواں سوال:
مزدور طبقہ جو آپ کے ساتھ سوشل میڈیا میں ہر دوسری تصویر میں کھڑا نظر آتا ہے، اس کی آپ کے لئے حمایت نظریاتی بنیادوں پر ہے یا ایک وقتی ریلیف جو آپ اپنے محدود سوشل ورک کی بنیاد پہ اسے کسی بھی مقامی یا ذاتی مسئلے کے لئے فراہم کر رہے ہیں، وہ اس کا باعث ہے۔ (یاد رہےکہ سوشل ورک کا محدود ہونا وسائل کی کمی کی وجہ سے آپ کی مجبوری ہے)۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ پشت پناہی کے ساتھ کوئی این جی او کھڑی کردی جائے جو آپ کے مقابلے میں دگنے وسائل کی حامل ہو اور ایک متوازی رفاہی مہم کے ذریعے آپ سے وہ عوامی حمایت چرا لے جائے جو آپ نے سالوں کی محنت سےاکھٹی کی ہو۔ کیوں کہ جو ہزاروں یا لاکھوں روپے آپ سالوں میں جمع کر کے عوام کی فلاح کے لئے استعمال کریں گے، اتنا فنڈ آپ کا مخالف آپ کو ناکام کرنے کے لئے دنوں میں خرچ کر دے گا اور آپ کی عوامی خدمات سے مستفیض ہونے والا مزدور جو صرف معمولی وقتی مفاد کے لئے آپ کے ساتھ تھا، کیا ذہنی پختگی اور شعور کے اس درجہ پہ ہے کہ وہ زیادہ فائدے کے لالچ میں آپ کو چھوڑ کر دوسری طرف نا چلا جائے گا؟
اگر ان سادہ سوالات کے سیر حاصل جواب مل جائیں تو راقم اس رفاہی ماڈل کی افادیت تسلیم کرنے کو تیار ہے جو بیانی اعتبار سے سماجی تبدیلی کے عمل کی نشوونما کا اہم ستون ثابت کیا جا رہا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.