کسی بھی مدیر کا مقدس فریضہ ، از سابق گارڈین مدیر ایلن رسبرجر
(ترجمہ : عرفانہ یاسر)
اکثرو بیشتر بہترین صحافت وہی دیکھی گئی ہے جو بلا سند ہوتی ہے۔ کسی رپورٹر کے لئے سب سے قیمتی ذرائع وہ ہوتے ہیں جن کو ویسے تو ریکارڈ پر بولنا ہی نہیں ہوتا۔ کسی بھی سوسائٹی یا ادارے کے متعلق جاننے کے لئے کہ یہ کس روش پر چل رہی ہے، اس کا علم اکثر ایسے افراد کے ذریعے سے بہت بہتر انداز میں ہوتا ہے جنہیں چپ رہنا ہوتا ہے، مگر وہ دم سادھے رہ نہیں سکتے۔
ایک سابق مدیر اور شہری ہونے کے ناتے میں بالکل اسی انداز سے محسوس کرتا ہوں۔ میری اس بات پر حکومتوں کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ جو جب خود حکومت میں ہوتے ہیں اور لیک نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ انفارمیشن پر کنٹرول رکھنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو کوئی انفارمیشن لیک کرتے ہیں۔ وہ بعض اوقات انفارمیشن کے ذرائع تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اگر کسی مدیر کا کوئی مقدس فریضہ ہے تو وہ مقدس فریضہ اپنے ذرائع کو اپنی جان سے لگا کر رکھنا ہوتا ہے۔
بطور مدیر میرے ساتھ یہ 2002 میں اس وقت ہوا جب ایک مشروبات بنانے والی ایک کمپنی Interbrew نے سورس ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ گارڈین کو اور چار دوسری قومی خبروں کے متعلق اداروں کو اس کمپنی کی ہونی والی ممکنہ بولی کے بارے میں ڈاکومنٹس کس نے دیئے۔
پانچ مدیروں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہم کوئی ایسی انفارمشین نہیں دیں گے جس سے ہمارے سورس کی پہچان ہو سکے۔ ہم جانتے تھے کہ اس وقت ہم نے سورس کو مامون و محفوظ نا رکھا تو مستقبل کے وسل بلورز whistle blowers کسی بھی اخبار پر کبھی بھروسہ نہیں کریں گے۔ اور انفارمیشن کے آزادانہ بہاؤ کے سوتے خشک ہع جائیں گے۔
گارڈین اخبار اس وقت مشکلات کا شکار ہو گیا جب اںٹربریو Interbrew کمپنی نے دباؤ ڈالنے کے لئے اثاثوں کو منجمد کر نے کی کوشش کی۔ یہ جنگ آٹھ سال جاری رہی اور یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں بھی پہنچ گئی۔ آخر میں ہم جیت گئے۔ لیکن اس کی وجہ صرف ایک تھی کہ پانچ اخباروں نے ہزاروں پاونڈز خطرے میں ڈالے اور اور آزاد عدلیہ نے یہ بات سمجھی کہ اگر مدیروں کو سورس کو سامنے لانے پر زور ڈالا جائے گا تو اس کا صحافت پربرا ثر پڑے گا۔
ایک مشہور جج لارڈ ڈیننگ نے 1981 میں رولنگ دی کہ اگر اخباروں کو اپنے سورس بتانے پر زور ڈالا جائے گا تو بہت جلد اخباریں معلومات سے خالی ہو جائیں گی۔ ان کے ذرائع ختم ہو جائیں گے۔ ظلم کو بے نقاب نہیں کیا جا سکے گا، بناوٹی اور بہانے باز لوگ سامنے نہیں آ سکیں گے۔ ناانصافی کے خلاف کچھ نہیں ہو سکے گا۔ اقتدار کی راہداریوں، کمپنیوں اور گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹس میں ہونے والے بد عنوانیاں کبھی بھی سامنے نہیں آ ئیں گی۔
برطانوی صحافیوں کو کچھ دوسرے عدالتی فیصلوں سے راستہ ملتا رہا ہے۔ 1990 دی انجینئر میگزین میں ایک ٹرینی صحافی ولیم گڈون نامی کے ساتھ مل کر یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس میں اپنے سورس کو سامنے نہ لانے کے خلاف کیس لڑا جس میں انہوں نے ایک کمپوٹر سافٹ ویئر کمپنی کی مالی حالت کے بارے میں خبر شائع کی تھی۔ 1996 میں عدالت نے اس پرفیصلہ سنایا کہ آزادی صحافت کے لئے صحافی کے سورس کی حفاظت پہلا اصول ہے۔ سورس کی حفاظت کےبغیر صحافی عوام کی بھلائی کے لئے کام نہیں کر سکیں گے۔ جس کے نتیجے میں پریس کے واچ ڈاگ کا کردار کمزور ہو جائے گا اور پریس کی درست معلومات پہنچانے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہو گی۔
بعض اوقات حکومتیں ذرائع کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہیں کہ ان کی وجہ سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ میرا نہیں خیال کہ سورس کے محرکات کے بارے میں سوچنے سے کوئی مدد ملتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ انٹربریو کے کیس میں کوئی بہت شکوک و شبہات سے بالا تر سورس نہیں تھا۔ ڈاکومنٹس اہم عہدوں پر متمکن لوگ لیک نہیں کرتے بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ مدیر کو چاہیے کہ وہ معلومات کے بعد قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے کہ اس کو چھپنا چاہیے یا نہیں۔
قومی مفاد کے معاملے پر مدیروں اور گورنمنٹ کے مابین کبھی بھی اتفاق نہیں ہوسکتا کہ عوامی مفاد کیا ہے۔ سیاستدان عام طور پر عوامی مفاد کے معاملے پر مدیروں پر اعتبار نہیں کرتے۔ لیکن حکومت وقت کو منصف کا درجہ دینے کا خطرہ بھی مول نہیں لیا جا سکتا۔
واٹر گیٹ اس کی بہترین مثال ہے۔ نکسن انتظامیہ نے واشنگٹن پوسٹ کی گورنمنٹ کے اعلی حکام کی بدعنوانی کی خبر کو قومی مفاد کے خلاف سمجھا۔ 30 سال تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ڈیپ تھروٹ کے کوڈ نام والا شخص کون تھا۔ یہ بالآخر ایک سابق ایف بی آئی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارک فیلٹ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بہت سارے لوگ آج اسے محب وطن سمجھیں گے۔
وہ ڈینئل ایلس برگ کے بارے میں بھی بالکل ایسا ہی سوچیں گے جو اب 85 سال کے ہو گئے ہیں۔ جن کو پینٹگان پیپرز کو لیک کرنے کے الزام میں جاسوسی کے ایکٹ کے تحت سزا دی گئی تھی۔ جنہوں نے یہ سامنے لایا تھا کہ ویت نام جنگ کا فیصلہ صرف قومی بیانیے کو سامنے رکھ کر نہیں کیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر ال ہیگ نے کہا کہ یہ تباہ کن تھا اتنے بڑے پیمانے پر سیکیورٹی بریچ میں نے پہلی دفعہ دیکھی۔ نکسن انتظامیہ نے نیویارک ٹائمز پر غداری، قومی مفاد کو نقصان پہنچانے اور جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ ریاست نے نیویارک ٹائمز کی اشاعت کو رکوانے کی کوشش کی۔ کیس سپریم کورٹ میں پہنچ گیا اور ریاست نے وہاں یہ دلائل دئیے کہ اخبار نے خفیہ کوڈنگ کی باتوں کو چھاپ کر قومی مفاد کو خطرے میں ڈالا ہے جس کو صرف سیکیورٹی ایکسپرٹس ہی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن نیویارک ٹاَئمز یہ کیس جیت گیا، دو ججز نے رائے دی کہ پہلی آئینی ترمیم آزادی رائے کا حق دیتی ہے۔ ایک اور نے کہا کہ سٹیٹ صرف ان معاملات میں دخل اندازی کر سکتی ہے جس سے قوم کو کوئی نقصان پہنچے۔ جسٹس بلیک کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس غلط کام کو سامنے لا کر جس کی وجہ سے ویت نام جنگ شروع ہوئی، اخبار نے وہی کام کیا جس کی ملکی آئین کے بنیادگذاروں کو امید تھی۔
پینٹگان پیپرز کیس پہلی آئینی ترمیم کا باالفاظ دیگر ایک اور واضح بیان تھا۔ اس کی وجہ سے آنے والی حکومتوں نے اخباروں کی سیکرٹس چھاپنے پر پابندی نہیں لگانے دی ماسوائے بہت ہی خاص حالات میں۔
ایک اور عدالتی فیصلہ انتہائی اہم ہے جس میں 2013 میں گارڈین نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے لیک کئے جانے والے ڈاکومنٹس پر خبر شائع کی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکہ میں عدالتوں کی وجہ سے ہم یہ چھاپ سکتے ہیں۔ اس کیس میں سورس کو تو سب جانتے ہیں۔ لیکن یہاں میں ایک سابق نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے مشیر سٹیورٹ بیکر سے ڈبیٹ کا ذکر کروں گا۔ انہوں نے جو سنوڈن نے کیا اور اسے ناپسند کیا، لیکن جو صحافی نے کیا اس کے مابین فرق کوواضح کی اور صحافی کے کام کو درست مانا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب معلومات صحافی کے پاس ہوتی ہیں تو وہ محفوظ مواد ہوتا ہے۔
آخر پر ایک بار پھر سے زور دے کر کہنا چاہوں گا کہ مدیروں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے سورس کا نام سامنے آئے۔ اور وہ مدیران جو ریاست کے خلاف ڈٹ کرکھڑے ہو جائیں اور اپنے سورس کو دھوکہ نہ دیں، ان کا دفاع کیا جانا چاہیئے۔
Courtesy: Dawn.com
Translation: ایک روزن