تعلیمی اصلاحات کیوں نا کام ہوتی ہیں؟
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
کسی بھی ڈیویلپمنٹ کے لئے تعلیم کو ایک اہم شرط تصور کیا جاتا ہے۔ ورلڈ بینک کی 1998-99ء کی رپورٹ کے مطابق؛ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان اصل فرق تعلیم کا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد تعلیم کی اس اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے 1947ء میں پہلی ایجوکیشن کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں یہ عہد کیا گیا کہ یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا ہدف اگلے بیس سال میں حاصل کر لیا جائے گا۔اس کے مطابق ؛یہ ہدف 1967ء میں حاصل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد 75 سال گزرنے کے باوجود آج تک یہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں اس حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔حقیقت یہی ہے کہ تعلیم کے حوالے سے گزشتہ حکومتوں نے کبھی اپنے عزائم کا اظہار نہیں کیا۔گزشتہ حکومتوں میں کئی بار بلند وبالا دعوے کیے گئے‘ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔پہلی ایجوکیشن کانفرنس میں خواندگی کے حوالے سے درپیش کئی چیلنجز کا جائزہ لیا گیااور تجاویزپیش کی گئیں‘ لیکن یہ تجاویز اور دعوے کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے ۔1947ء کی ایجوکیشن کانفرنس کے بعد 1959ء میںشریف کمیشن رپورٹ میں بہت سی اہم تجاویز پیش کی گئیں۔ شریف کمیشن رپورٹ کو تعلیم کے حوالے سے ایک جامع دستاویز تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن بد قسمتی سے اس میں دی گئی تجاویز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ایجوکیشن پالیسیوں کا اعلان کیا گیا‘ لیکن ہر پالیسی میں ہدف کا سال آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ 1998,1979 ,1970 میں پالیسیوں کا اعلان کیا گیا ‘2000ء میں فریم ورک آف ایکشن‘Millennium Development Goals میں پاورٹی ریڈکشن سٹریٹجی پیپر ‘2005-6ء میں میڈیم ٹرم ڈیویلپمنٹ فریم ورک اور 2009ء میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔
ان سب دستاویزات میں خواندگی‘لڑکیوںکی تعلیم‘ ٹیچر ایجو کیشن اور تعلیمی نظام میں بہتری کے حوالے سے کچھ اہم اہداف مقرر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر اہداف حاصل نہ کئے جا سکے ‘ مثال کے طور پر خواندگی کو لے لیجئے ‘ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں‘ توتعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی ‘یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے لیے مختص فنڈز ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔قیامِ پاکستان سے اب تک متعدد قومی تعلیمی پالیسیوں کااعلان کیاگیا۔ان پالیسیوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ پاکستان کی تعلیمی تاریخ کی دردناک داستان ہے‘ جس کااحوال میںنے اپنی کتاب Education Policies in Pakistan Politics Projections and Practices میں تفصیل سے کیاہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2014 ء میں شائع کی تھی۔ ان تعلیمی پالیسیوںمیں بہت سے خوش کن اہداف مقرر کئے گئے اور ان کے حصول کے لیے بلند وبانگ دعوے بھی کئے گئے ‘لیکن یہ دعوے کبھی حقیقت کاروپ نہ دھارسکے۔ ہرنئی قومی تعلیمی پالیسی میں اہداف کے حصول کی ایک نئی Deadline دی جاتی ہے۔
1992ء کی تعلیمی پالیسی میںیہ دعویٰ کیاگیا تھاکہ2002ء تک شرحِ خواندگی70 فیصدہوجائے گی۔1998ء کی تعلیمی پالیسی میں Deadline بڑھاکر 2010ء کر دی گئی۔2009ء میں ایک اور دعویٰ کیاگیا کہ2015ء تک شرح خواندگی 86فیصدتک ہوجائے گی؛اگر پالیسیوں کے ان تمام دعوئوں پر یقین کرلیاجائے ‘تواب تک ملک میں شرح خواندگی100فیصد ہوجانی چاہیے ‘لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔2011ء میں خواندگی کی شرح58 فیصد‘2014ء میں58فیصد‘ 2015ء میں 60فیصد اور2016 میں58فیصدرہی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ان پالیسیوں کے نفاذ کے عمل میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں اور ہم اپنے تعلیمی اہداف کیوں حاصل نہ کر سکے ۔پالیسیوں کے نفاذ کی ناکامی کی کئی وجوہ ہیں‘ جن کا تعلق تعلیمی‘ سیاسی ‘ معاشرتی اور مینجمنٹ سے ہے۔
کسی بھی شعبے میں اصلاحات کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی جائے تاکہ وہ نہ صرف اس کو اپنائیں ‘بلکہ نفاذ کے اس سارے عمل کا حصہ بنیں۔ کسی بھی پالیسی کی کامیابی کی یہ اولین شرط ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں میں تجویزکئے گئے Initiatives باہرکے ممالک سے درآمد کئے جاتے ہیں ‘جن کا پاکستان کے معروضی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ متعلقہ لوگوں کو مشاورت کے عمل سے باہر رکھا جاتا ہے۔بہت سی اصلاحات فنڈ دینے والی ایجنسیوں کے کنسلٹنٹس کے ذہنوں کی اختراع ہوتی ہیں‘ مثلاً :پائلٹ سکولز ‘کمپری ہینسو سکولز ‘ ایجوکیشن سیکٹر ریفارمز(ESR) اور دانش سکولز۔ ان میں اکثر اصلاحات Quick Fix کے زمرے میں آتی ہیںاور ان کے حیثیت شعبدہ بازی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ سیاستدان اکثر بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں‘ لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی۔ ماضی میں وزیراعظم شوکت عزیز نے اعلان کیا تھا کہ تعلیم کے لئے جی ڈی پی کا چار فیصد مختص کیا جائے۔ تعلیمی پالیسی میں یہ بھی کہاگیا کہ حکومت2015ء تک جی ڈی پی کاسات فیصدتعلیم کے لیے مختص کرے گی اوراس کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔اس دعوے کے مطابق2015ء تک جی ڈی پی کاسات فیصدحصہ تعلیم کے لیے مختص ہوناچاہیے تھالیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ماضی میں تعلیم کے لیے مختص رقم 2013-14میں جی ڈی پی کا2.1فیصد تھی۔ 2014-15میں2.2فیصد‘ 2015-16 میں 2.3 فیصد‘اور 2017-18 میں یہ کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گئی۔
اس اعلان کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے‘ لیکن آج بھی تعلیم کے لیے ہمارا فنڈ جی ڈی پی کا محض 2.2فیصد ہے۔ ابھی تک تعلیم کے میدان میں کئے گئے بلند بانگ دعوئوں کا حشر یہی ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اہداف کا غیر حقیقی ہونا اور ان کے لئے موثر منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ایک اور اہم وجہ ایک موثر احتساب کے نظام کی غیر موجودگی ہے۔ تعلیمی اصلاحات میں ناکامی کی ایک وجہ سیاسی مداخلت بھی ہے۔پراجیکٹ میں اعلیٰ عہدے اکثر سیاسی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی نمودو نمائش پر بھی بہت سی رقم صرف کی جاتی ہے۔اسی طرح ایک حکومت کے بدلنے پر آنے والی حکومت پرانے پراجیکٹس کو ختم کر کے نئے پراجیکٹس کا اعلان کردیتی ہے۔ بجائے اس کے پرانی حکومتوں کے تعلیمی اہداف کے لئے کوششیں کی جائیں‘ ہر نئی حکومت اپنی ایک نئی تعلیمی پالیسی لانا چاہتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کی بھرمار ہے ‘لیکن ان پالیسیوں کے بنیادی اہداف بھی حاصل نہیں کیے جا سکے۔
تعلیمی اصلاحات میں اکثر Patch work کا رحجان ملتا ہے۔اس طرح کی چھوٹی چھوٹی اصلاحات یہاں وہاں کی جاتی ہیں۔اس سے پراجیکٹ کے اختتام پر اچھی رپورٹس تو بن جاتی ہیں‘ جن پرکامیابی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے‘ لیکن اس طرح کا Patch work ایک جامع اور دیرپا تعلیمی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی اصلاحات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک متعلقہ اداروں اور افرد کو مشاورت کے عمل میں شریک نہیں کی جاتا‘وسائل کی فراہمی نہیں کی جاتی‘ جب تک مختلف حکومتیں تعلیمی اہداف کے حصول کے لئے یکسو نہیں ہوتیں اور تعلیمی اصلاحات کے نفاد کے لیے احتساب کا موثر نظام قائم نہیں ہوتا۔