ہمارے تعلیمی نظام کا پیدا کردہ علم غیر نافع
از، رضوان سہیل
آصف ہم سب کلاس فیلوز میں سب سے ذہین اور ہونہار تھا لیکن اسے بائیسکل چلانی نہیں آتی تھی۔ میں نے اس سے کئی بار پوچھا بھی کہ وہ اتنی دور سے پیدل سکول آتا ہے باقی لڑکوں کی طرح بائیسکل چلانا کیوں نہیں سیکھ لیتا ۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا تھا میں ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر بائیسکل چلتی کیسے ہے۔ اس پر فزکس کا کون کون سا قانون لاگو ہوتا ہے۔ وہ کون سی قوت ہے جس کی وجہ سے یہ حرکت میں ہو تو گرتی نہیں لیکن ٹھہرتے ہی گرنے لگتی ہے۔ ہم سب اسے کہتے کہ بائیسکل چلانے کے لیے فزکس کے قوانین جاننے کی ضرورت نہیں بس بائیسکل پر سوار ہو کر آخر اسے چلانا سیکھ لینا چاہیے ۔اس کا ایک ہی جواب ہوتا تھا’’ آدمی کوجب تک کسی کام کا مکمل علم نہ ہواُسے اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے‘‘۔ آصف میٹرک میں پوزیشن لے کر پاس ہو گیا لیکن بیچارہ فزکس کے قوانین سمجھ جانے کے باوجود کبھی بائیسکل نہ چلا سکا۔
ہمارا تعلیمی نظام ایسے ہی نوجوان تیار کرنے کا نظام ہے جو اپنی زندگی کے بہترین سال ایسا علم حاصل کرنے میں صرف کر دیتے ہیں جس علم کا استعمال ان کے اردگرد کے ماحول، ضرورت، روزگاراور عملی زندگی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ اول سے لے کر کالج تک ہمارے نصاب کا رخ اعلیٰ تعلیم کے لیے بنیاد مہیا کرنا ہوتا ہے لیکن اس بات کو سراسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ سکول اور کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے کتنے طلبا ایسے ہیں جنہیں واقعتاََ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے شاید پانچ فیصد سے بھی کم۔ باقی پچانوے فیصد وہ ہیں جنہیں ان کی غیر عملی تعلیم سوائے بے روزگاری کے کچھ نہیں دے سکتی۔
ہمارے اسکولوں میں پڑھایا جانے والا علم پتھر پر پڑی دھول کی طرح ہے جسے معمولی سی بارش بھی بہا کر لے جا سکتی ہے۔ یہ علم نہ تو طالب علم کے کردار پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے نہ اس کی معاش پر۔
علم جب تک تجربے کی آگ سے نہ گزرے پختہ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا طالبِ علم ابتدائی درجے سے لے کر آخر تک الجبرا اور جیومیٹری پڑھتا ہے لیکن اس میں ایک ان پڑھ کسان جتنی صلاحیت بھی پیدا نہیں ہوتی جو اپنے کھیت کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کر لے۔ ہمارا سارا زور بچوں کو ٹینسیس سکھانے پر ہوتا ہے کیوں کہ کسی نے ہمیں کہہ دیا تھا کے اس کے بغیر انگلش نہیں آتی۔ بارہ سال رٹا لگانے کے بعد بھی نہ تو ہمیں ٹینسیس آتے ہیں اور نہ اتنی انگلش کے اپنا تعارف ہی کروا سکیں۔ اگر ہمارا خیال ہے کہ سبق آموز کہانیاں پڑھا کر ہم اپنے بچوں کو ہمیشہ کے لیے نیک اور سچ بولنے والا ذمہ دار شہری بنا لیں گے تو بری خبر یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ کرپشن میں ہمارے قائم کیے گئے عالمی ریکارڈ اس کے گواہ ہیں۔
ان اعلیٰ اور ارفع تعلیمی مقاصد کو کچھ عرصے کے لیے ایک طرف رکھ کر اگر ہم اپنی قوم کو وہ علم دینے کی کوشش کریں جس کی آج واقعی ہمیں ضرورت ہے تو شاید ہم وقت اور پیسے کے اس بہت بڑے ضیاع کو روک سکیں جو ہم اپنے بچوں کہ تعلیم دلوانے کے دھوکے میں دے رہے ہیں۔ بے روزگاری کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں ڈھونڈنے کی بجائے اس قابل بنایا جا سکے کہ وہ اپنے لیے خو د روزگار پیدا کر سکیں۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہمارا نوجوان ایسی تعلیم سےِ لیس ہو جو اس کے مقامی معاشی نظام میں نہ صرف کارآمد ہو بلکہ اس میں کوئی بہتری اور ویلیو ایڈیشن کر سکے۔ ہماری سترفیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی معاش کا دارومدار زراعت یا اس سے منسلک پیشوں سے ہے۔ اگر ہم دیہی اسکولوں میں یوریا بنانے کے طریقے سکھانے کی بجائے اپنے بچوں کو اس بات کا علم دے دیں کہ کیسی زمین میں کون سی کھاد کتنی مقدار میں استعمال کرنی ہے تو شاید کسان کواپنے پڑھے لکھے بے روزگار بیٹے کا کچھ فائدہ ہو جائے۔ اسی طرح اگر کالج کی سطح پر بین الاقوامی تجارت کیسے کی جاتی ہے اس کی بجائے ایک دکان کیسے چلائی جاتی ہے اور کسٹمر سروس کس بلا کا نام ہے سِکھا دیا جائے تو شاید ایف اے کرنے کے بعد نوکری نہ ملنے پر اپنے باپ دادا کی دکان سنبھالنے میں اتنی تکلیف نہ ہو اور ہو سکتا ہے ہمیں بھی مستقبل میں ایسے دکان داروں سے چھٹکارہ مل جائے جنہیں گاہک سے زیادہ کرکٹ میچ میں دلچسپی ہوتی ہے۔
سال بہ سال مائی بیسٹ فرینڈ اور تھرسٹی کرو کا رٹا لگوانے والے اساتذہ کی جگہ اگر انگریزی پڑھانے کے لیے اس زبان کو بولنے اورِ لکھنے کی صلاحیت والے نو جوانوں کو انگریزی ٹیچر لگا دیا جائے تو شاید ہمارے بچے انگریزی نہ بول سکنے کے کمپلیکس سے نکل جائیں اور بیرونِ ملک نوکری تلاش کرنے کے لیے جانے والوں کے اتنے لطیفے نہ بنیں۔
جہاں تک اعلیٰ تعلیم کی اہمیت اور اس کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا سوال ہے تو میرے خیال میں وہ تھیوریٹیکل علم جس سے یونیورسٹی میں جا کر واسطہ پڑتا ہے اس کو اسکول کی سطح پرصرف عملی مثال کے ذریعے بالواسطہ روشناس کروایا جائے تو نہ صرف یہ کہ سمجھنا زیادہ آسان ہو گا بلکہ نوجوانوں کی تعلیم میں دلچسپی قائم رہے گی۔ ہمارے اسکولوں میں لیبارٹری وہ کمرہ ہوتا ہے جہاں سارا سال تو تالا لگا رہتا ہے اور امتحانات کے قریب پریکٹیکل کی تیاری کے نام پر بچوں کو اور خود کو دھوکا دینے کے لیے سائینس کے استاد چند دنوں کے لیے پریکٹیکل پریکٹیکل کھیلتے ہیں۔ جب تک ہم حقیقی عملی تعلیم کی طرف نہیں بڑھتے اسی طرح پڑھے لکھے بے کار نوجوانوں کی فوج تیار کرتے رہیں گے جن کا پسندیدہ مشغلہ سڑکوں پر آ کر ون ویلنگ کرنا اور پولیس سے آنکھ مچولی کھیلنا ہی رہ جاتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.