تعلیمی نا رسائی
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اہم آبزرویشن دی کہ آئین کا آرٹیکل 25-A جو لازمی (compulsory) اور مفت (free) تعلیم کی ضمانت دیتا ہے کیا وہ صرف نمائش کے لیے ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم سب سے ارفع زیور ہے۔ تعلیم تک رسائی کے لیے بچوں کو تعلیم کے مساوی مواقع ملنے چاہییں اور اس سلسلے میں کسی طرح کا امتیاز (discrimination) نہیں برتنا چاہیے۔
چیف جسٹس کا یہ تبصرہ ہر حساس پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ تعلیم کو دنیا بھر میں تبدیلی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم سے طلباء کی ذاتی زندگیوں میں تبدیلی آتی ہے اور یہ تبدیلی مُجتمع ہو کر معاشرتی تبدیلی میں ڈھلنے کا امکان رکھتی ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں تعلیم کے میدان میں پچھلے کچھ برسوں سے ایک جوہری تبدیلی آئی ہے۔ اب اچھی تعلیم کے حصول کے لیے کافی مالی وسائل کا ہونا لازمی ہے۔ ثروت مند والدین کے بچے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں جس کے بعد بہترین ملازمتوں کے دروازے اُن کے لیے خود بخود کھل جاتے ہیں۔ یہ سہولت ان بچوں کو حاصل نہیں جن کے والدین کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے۔
تعلیم کے مقاصد میں ایک اہم مقصد معاشرے میں لوگوں کے درمیان معاشی اور معاشرتی تفاوت کو کم کرنا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کو اچھی تعلیم حاصل کرنے کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے زور آور طبقوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی ہے جن کے اخراجات متوسط طبقے کے والدین کے تصور سے بھی ماوراء ہوتے ہیں۔
یوں معاشرے کے محروم طبقوں کے بچے اول تو سکول تک پہنچ ہی نہیں پاتے اور اگر وہ سکول کی دہلیز پار بھی کر جائیں تو یہ ہر لحاظ سے عام (ordinary) سے سکول ہوتے ہیں۔ وزارتِ تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں پچاس لاکھ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر (out of school) ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو اپنے بنیادی آئینی حق” لازمی اور مفت تعلیم‘‘ سے محروم کر دیے گئے ہیں۔
وہ بچے جنہیں سکول تک رسائی مِل جاتی ہے اُن میں سے بھی ٪33 پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ نے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سکول چھوڑنے (drop-out) کی ایک بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی ہے۔ گھر کی مفلسی والدین کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے اپنے ہمراہ محنت مزدوری میں شامل کر لیں اور بعض اوقات تو یہ بچے اپنے خاندان کی کمائی کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں سکول تک رسائی نہ پانے والے اور ڈراپ آؤٹ ہونے والے بچے حالات کے تھپیڑوں کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچے شہر کی مصروف شاہراہوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اں میں سے کچھ ٹھٹھرتی صبحوں اور دہکتی دوپہروں میں اخبار، پھول یا اسی طرح کی چھوٹی موٹی اشیاء بیچتے نظر آتے ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد ورکشاپوں میں کام کرتی ہے جہاں نہ صرف ان پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ہر وقت طعن تشنیع اور دشنام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ بہیمانہ سلوک انہیں منتقم المزاج بنا دیتا ہے اور وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چوری چکاری ان کا شعار بن جاتا ہے۔ انہی میں سے کچھ بچے بعض دہشت پسند تنظیموں کا چارہ بن جاتے ہیں۔
اُدھر مالی وسائل رکھنے والے والدین کے بچے اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اچھی ملازمت بھی ان کے حصے میں آتی ہے۔ یوں معاشرے میں وہ اپنی پہچان بناتے ہیں اور پھر اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں وہ معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس محروم طبقے کے بچے ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں۔ مفلسی کی وجہ سے سکول تک عدم رسائی۔ سکول تک عدم رسائی کی وجہ سے نوکری تک عدم رسائی۔ نوکری تک عدم رسائی کی وجہ سے مفلسی۔
یہ وہ تعلیمی عصبیت (Apartheid) ہے جس کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ فرانسیسی ماہرِ عمرانیات بورڈیو (Bourdieu) معاشرے میں طاقت کے تصور کو مختلف سرمایوں (capitals) سے واضح کرتا ہے۔ ان سرمایوں میں معاشی سرمایہ (economic capital)، سماجی سرمایہ (social capital) اور ثقافتی سرمایہ (cultural capital) شامل ہیں۔ بورڈیو کے مطابق یہ تین سرمایے ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً معاشی سرمایے کے حامل افراد کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی فائدے حاصل کرتے ہیں۔ یوں معاشرے کے اس اشرافیہ طبقہ (elite class) کے بچوں کو دوسرے بچوں پر واضح برتری حاصل ہوتی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں جتنی تعلیمی پالیسیاں آئیں ان میں سے کسی پالیسی میں تعلیمی عدم مساوات (educational inequality) پر نہ تو بامعنی بحث کی گئی اور نہ ہی کوئی عملی منصوبہ (action plan) تجویز کیا گیا۔
پاکستان کے تعلیمی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو تعلیمی امتیازات جا بجا نظرآتے ہیں۔ ایک طرف اشرافیہ کے مہنگے انگلش میڈیم سکول، گلی محلے میں چلتے ہوئے نام نہاد انگلش میڈیم سکول، اردومیڈیم سکول، کیڈٹ کالجز، مدارس، حکومتی سکول، فورسز کے سکول اور دانش سکول۔ یہ امتیازات صرف ناموں کی حد تک نہیں بلکہ یہ فرق عمارتوں، نصاب، درسی کتب، اساتذہ، طلباء اور سہولیات میں بھی نمایاں ہے۔
عالمی بنک کی 2006ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے ”افراد کو اپنی منتخب کردہ زندگی کے حصول کے لیے مساوی مواقع ملنے چاہییں اور انہیں نتائج کے حصول سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ سب سے اہم اقدام سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق 5 سے 16 سال کے بچوں کو لازمی (compulsory) اور مفت (free) تعلیم مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں نئے سکولوں کی تعمیر، اساتذہ کی فراہمی اور مستحق بچوں کو وظائف فراہمی بنیادی کام ہیں۔ ان سارے کاموں کے لیے مزید فنڈز درکار ہیں۔
2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ نوید دی گئی تھی کہ 2015ء تک فنڈز کی فراہمی GDP کا ٪7 ہو جائے گی لیکن بہت سے دوسرے وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہوسکا۔ تعلیم کے لیے فنڈز کی فراہمی جو پچھلے سال (٪2.3) تھی زیادہ ہونے کے بجائے اس سال کم ہو کر ٪2.2 رہ گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25-A پر عمل در آمد یقینی بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان ہدایت دیں کہ جی ڈی پی کا کم از کم ٪4 حصہ تعلیم کے لیے رکھا جائے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: کیا انسانی حقوق کو تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے؟
اس وقت پاکستان شرحِ خواندگی میں بھارت، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، اور مالدیپ سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ معاملے کی سنجیدگی کو پیشںِ نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے۔ آزاد ماہرین پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیشن قائم کیا جائے جو تعلیمی اہداف کو حاصل کرنے کے عمل کی نگرانی کرے اور ہر چھ ماہ بعد اپنی رپورٹ صدر، وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کرے۔
محترم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک انتہائی حساس اور سنجیدہ معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا تعلق ان پچاس لاکھ بچوں سے ہے جو اس قوم کے بچے ہیں لیکن جنہیں ہم نے تاریک راہوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم جنگی بنیادوں (warfooting) پر آرٹیکل 25-A پر عمل درآمد کے لیے اپنی کوششوں کو مہمیزدیں اورپچاس لاکھ ٹمٹماتے دِیوں کو روشن اور جگمگاتے چراغوں میں بدل دیں۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.