(ثمرینہ خان وزیر)
69 سال سے ریاستی اور حکومتی عدم توجہ کا شکار، دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ سے تباہ شدہ فاٹا سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کی نمائندہ تنظیم کی ایک کارکن ہونے کے ناطے فاٹا کی ترقی کے اعداد و شمار کا بیان اس لئے بھی مشکل ہے کیونکہ ترقی کے حوالے سے کسی بھی شعبہ میں باقاعدہ، مسلسل اور موثر پالیسی کے تحت کوئی ایسے عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جو باعث اطمینان ہوں۔ حکومت کے 2009ء کے اعداد و شمار کے مطابق فاٹا کے نوجوان یہاں کی کل آبادی کا 37.8 فیصد ہیں اور 43.4 فیصد بچے ہیں۔ فاٹا میں فاٹا سیکرٹریٹ، ایف ڈی اے اور ایف ڈی ایم اے جیسے ادارے موجود ہیں۔ فاٹا سیکرٹریٹ پانچ شعبوں اور تیرہ ڈائریکٹوریٹس پر مشتمل ہے، لیکن انہیں سنبھالنے کیلئے سیکرٹریز کا فقدان رہا ہے، احتساب کا کوئی صاف شفاف نظام نہ ہونے کی وجہ سے عموماً اسے کرپشن کے الزامات کا سامنا رہتا ہے اور ایسا بلیک ہول گردانا جاتا ہے کہ جہاں جتنا بھی فنڈ فراہم کیا جائے، غائب ہو جاتا ہے اور خرچ نہیں کیا جاتا۔ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام فاٹا کی ترقی کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے لایا گیا تھا۔ اس نے بھی نوجوانوں کی ترقی، ان کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ گرچہ مرکزی سطح پر مختلف یوتھ سکیم متعارف کرائی گئیں مگر سب کرپشن کی نظر ہوئیں۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی آفات کے خطرے کو محسوس کرکے ان سے نمٹنے یا انہیں ٹالنے کیلئے ضروری عملی اقدامات اور آفات کے نازل ہو جانے کے بعد ان سے نمٹنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ ایف ڈی ایم اے کے زیرانتظام ہی دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے پالیسی بنائی گئی، مگر المیہ یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے اور بعد میں نوجوانوں کیلئے کوئی ایسی متفقہ اور مشترکہ پالیسی ترتیب نہیں دی جاسکی، کہ جس سے شدت پسندی میں کمی واقع ہو۔ فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ترتیب دیئے گئے پروگرام کے مطابق یوتھ ڈیویلپمنٹ پروگرام دس سالہ ہے، یعنی 2007ء سے لیکر 2018ء تک، تاہم فاٹا کے نوجوان اس پروگرام کو اپنے لئے اتنا ہی غیر موثر سمجھتے ہیں، جتنا کہ وہ فاٹا سیکرٹریٹ اور فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو ادارے خود موثر نہ ہوں وہ نوجوانوں کی خوشحالی، بحالی اور ترقی کیلئے موثر پروگرام کیسے ترتیب دے سکتے ہیں۔؟ گورنر مسعود کوثر کو فاٹا میں نوجوانوں پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے اپنی مرتب کی ہوئی پالیسی جمع کرائی، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے فاٹا کے نوجوانوں کیلئے جامع اور مربوط پالیسی ترتیب دینے کے احکامات جاری کئے، ان احکامات کے باوجود مسائل میں جکڑی فاٹا کی نوجوان نسل کیلئے کسی ریلیف پر مبنی کوئی پالیسی یا حکومتی حکمت عملی سامنے نہ آئی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو فاٹا کے نوجوانوں کا تعلیم یافتہ ہونا اور قومی دھارے میں شامل ہونا حکومت کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ ان نوجوانوں کو، تاہم اس کے باجوود بھی نوجوانوں کیلئے حالات میں کوئی بدلاؤ نہیں۔ ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے میں فاٹا کے اندر مستقبل قریب میں بلوچستان والے حالات بنتے دیکھ رہی ہوں، خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں یہ تعلیم یافتہ نوجوان افرادی قوت شائد ان اداروں و تنظیموں کے بھی زیرکنٹرول نہ آئے جو ابھی ان کی ترقی اور ان کے مسائل کے حل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ قبائلی خاتون ہونے کے ناطے میں بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں کہ حکومت کی جانب سے وقت اور وسائل کا استعمال غلط سمت میں کیا جا رہا ہے، جس کے اثرات یا ثمرات نوجوانوں تک منتقل نہیں ہو رہے، دوسری جانب فاٹا کی مخصوص (ایمرجنسی) صورتحال کے اثرات نوجوانوں پر براہ راست مرتب ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف مستقبل اور تعلیمی حوالے سے متاثر ہو رہے ہیں بلکہ ان کی سوچ کا رخ بھی تبدیل ہونے لگا ہے، جو لامحالہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ نوجوانوں کے مسائل کی تشخیص کیلئے اہدافی ترقی ضروری ہے مگر طویل عرصے سے اس پر کام کرنے کے باوجود اگر کوئی بہتر نتائج نہیں ملے تو معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر خرابی کہاں ہے۔؟ فاٹا کے نوجوان سمجھتے ہیں کہ عمومی طور پر وہ قوتیں ان پر فیصلے مسلط کرتی ہیں، جو یہاں کے مسائل اور ماحول سے قطعاً ناواقف ہیں۔ اسی ناواقفیت کی بنیاد پر فیصلے، عمل اور نتائج مثبت اثرات سے عاری ہوتے ہیں، جیسے فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی نوجوانوں کی نمائندگی ممکن بنائی گنی حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کی ترقی، مستقبل اور مسائل کے حل کیلئے فیصلے لینے کے عمل میں فاٹا کے اپنے لوگوں بالخصوص فاٹا کے نوجوانوں کو نمائندگی دی جائے۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ فاٹا کے نوجوانوں اور حکومت کے درمیان خلیج پیدا نہ ہو تو اسے فاٹا کے نوجوانوں کو اعتماد میں لیکر فیصلوں میں شریک کرنا ہوگا۔
اس حقیقت سے انکار کسی طور ممکن نہیں کہ آج فاٹا کے مسائل اور ان کے حل میں فقط نوجوان ہی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، آج کے فاٹا کا نوجوان ایک جانب یونیورسٹی کا طالب علم ہے اور دوسری جانب ملک کے خلاف ہتھیار بند جنگجو بھی۔ ٹی ٹی پی کے اکثر کمانڈرز بشمول حکیم اللہ محسود جب ریاست کے خلاف برسر پیکار ہوئے تو وہ نوجوان ہی تھے۔ خودکش حملوں میں فاٹا کے ہی نوجوان ایندھن بنے ہوئے ہیں، اسی طرح مسلح جتھوں کے خلاف کارروائیاں کرکے ریاستی رٹ بحال کرنے والے بھی نوجوان ہی ہیں، جن کا تعلق فاٹا سے ہے۔ بنیادی طور پر عہد جوانی میں خود مختاری کی چاہ اور وسائل و انصاف کی طلب سمیت یہاں کا ماحول ان نوجوانوں کو کہیں نہ کہیں مصروف (انگیج) رہنے کیلئے ابھارتے ہیں۔ افغان جنگ کے دوران فاٹا کے عوام بالخصوص نوجوانوں کا استعمال (حکومتی سرپرستی میں نوجوانوں میں نظریئے اور مسلحانہ تربیت کا اہتمام، افغان جنگ میں انہی نوجوانوں کا استعمال) اور بعد ازاں نائن الیون کے بعد پھر فاٹا کو تختہ مشق بنا کر فاٹا کے نوجوانوں کا استحصال، ڈرون حملے، آپریشنز، بمباریاں اور ان سب سے بڑھ کر اپنے ہی ملک میں مہاجرین (آئی ڈی پیز) کی حیثیت سے مفلوک الحال زندگی ایسے عوامل ہیں، جن کے اثرات نئی نوجوان نسل پر شدت سے مرتب ہوئے ہیں۔ آج فاٹا کا نوجوان کیوں۔؟ کس لئے، کس کے لئے۔؟ جیسے سوال ہمہ وقت زبان پر رکھتا ہے، مگر افسوس اس نوجوان کو اپنے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ ریاست دیتی ہے نہ ادارے۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات، تقاریب کا شدید فقدان ہے کہ جو نوجوانوں میں ریاست اور حکومتی فیصلوں پر اعتماد کی بحالی میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ نوجوان نسل میں انتہا پسندانہ روش کی ایک بنیادی وجہ یہی ماحول اور ذہنی دباؤ بھی ہے۔ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ فاٹا کے نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ مختلف اقسام کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ مختلف ایجنسیز میں طالب علم بچیوں میں یہی سروے دہرایا گیا تو انکشاف ہوا کہ فاٹا میں سکول و کالج جانے والی بچیاں ہر وقت کچھ نہ کچھ برا ہونے کے خوف اور وسوسے کا شکار رہتی ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہونا چاہیے کہ اگر ملک کے ایک حصے کی عہد طالب علمی میں پوری نسل ذہنی بیماریوں کا شکار رہے تو کیا وہی نسل عملی زندگی میں ایک متوازن معاشرے کے قیام میں مددگار ثابت ہوگی یا مسائل اور چیلنجز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ثابت ہوگی۔ آج فاٹا کے نوجوان اگر خود کو ہدف سمجھتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔ جب ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے نوجوان دلجمعی کے ساتھ اپنی تعلیمی نصابی و غیر نصابی مصروفیات کو جاری رکھے ہوئے ہوں اور یہاں کا نوجوان اوپر سے گرنے والے، دور سے آنے والے یا قریب آکر پھٹنے والے گولہ بارود سے نبر د آزما ہو۔ سربلند کے بجائے جابجا ہاتھ بلند کئے ہو۔ ایڈمیشن فارم کے حصول کی خاطر قطاروں کے ساتھ ساتھ سڑکوں، گزرگاہوں پر بھی قطار درقطار چلنے پر مجبور ہو۔ کہیں خود کو نیک مسلمان اور کہیں وفادار شہری ثابت کرنے پر مجبور ہو تو ایسے عالم میں یہ نوجوان خود کو ہدف نہیں سمجھے گا تو کیا سمجھے۔؟
فوجی طاقت کا استعمال خواہ کتنے ہی نیک مقاصد کیلئے کیوں نہ ہو، مگر علاقے کی معاشی، ثقافتی، تہذیبی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ معاشی بدحالی آج قبائل کی تاریخ کا سب سے زیادہ بوجھ یہاں کے نوجوان کے کندھوں پر ڈال چکی ہے۔ قبائل کی تاریخ کے پیرائے میں قبائلی نوجوان کی تربیت میں پورا معاشرہ بالواسطہ طور پر شریک ہوتا اور قبائلی نوجوان کیلئے فکر معاش زندگی کے کسی دور میں اتنا سنجیدہ مسئلہ نہیں رہا، جتنا کہ آج بن چکا ہے۔ بنیادی طور پر قبائلی معاشرہ اپنے نوجوان کو وہ لوازمات فراہم کرتا تھا کہ جس کے باعث وہ نہ فکر معاش سے آزاد بلکہ آسودہ حال بھی تھا، مگر افغان جنگ کے بعد سے ایک قبائلی نوجوان کیلئے اپنے معاشرے میں جو تبدیلیاں شروع ہوئیں، وہ نائن الیون کے بعد اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہوئیں کہ آج قبائلی نوجوان کیلئے فکر معاش انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے، جسے نظرانداز کرنا اس کیلئے، اس کی فیملی کیلئے کسی طور ممکن نہیں۔ روزگار کے جس مسئلہ کو سمجھنے میں حکومت کی جانب سے مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے، وہی مسئلہ شدت پسند، دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھ میں ’’الہ دین کا چراغ‘‘ بنا ہوا ہے۔ یہ تنظیمیں وسائل کی ریل پیل کی خواہش کو نوجوان نسل میں بڑھاوا دیتی ہیں پھر غیر محسوس طریقے سے نوجوانوں میں نفوذ کرتی ہیں۔ بعدازاں مختلف مواقع فراہم کرکے نوجوانوں میں نظریاتی تغیر کا بیج بو کے انہیں اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ذمہ داری کے نام پر غیر ذمہ دارانہ کاموں سے انہیں مانوس کرکے وسائل سے نوازتی ہیں بالآخر وہ قبائلی معاشرے میں ایسا نوجوان حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، جو ان کے عزائم کے حصول میں معاون و مددگار ہو۔ بظاہر آزادی و خود مختاری، ذمہ داری کا احساس اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ نوجوان ریاستی اداروں کے بجائے ان تنظیموں کے ساتھ خود کو زیادہ موثر محسوس کرتا ہے۔
آج اگر ملک کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا میں بھی یونیورسٹیاں، کالجز، تعلیمی ادارے ہوتے تو تعلیم یافتہ نوجوان افراد ی قوت کو انہی اداروں کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے بالواسطہ طور پر ایک صفحہ پر لانا آسان تھا۔ انہی اداروں کے ذریعے صحیح و غلط کا فرق اور احترام انسانیت کا درس عام کرنا آسان تھا۔ نوجوانوں کی اس حد تک فکری نشو و نما ممکن تھی کہ وہ کسی طور ملک دشمن سرگرمیوں کا ایندھن نہ بنیں، مگر حالات یہ ہیں کہ سکولز تباہ ہیں۔ یعنی دشمن پر یہ حقیقت آشکار ہے کہ اگر فاٹا میں تعلیم کا بنیادی حق برابری کی بنیاد پر سب کو میسر ہوا تو خام مال کی صورت میں اسے دستیاب افرادی قوت کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج فاٹا میں سب سے زیادہ تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ شدت پسندوں کے جواب میں حکومت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے ایسے اقدمات کرتی کہ کسی بچے کی، کسی نوجوان کی تعلیم کا حرج نہ ہوتا، مگر وائے قسمت کہ تعلیمی تناظر میں بھی فاٹا نے ترقی کی جانب سفر نہیں کیا۔
(خصوصی شکریہ :’’اسلام ٹائمز‘‘ اور ثمرینہ خان وزیر)
Very nice