کرپشن اور ہمارا شعبۂ تعلیم
از، منزہ احتشام گوندل
ہم شعبۂِ تعلیم والے گزشتہ دو مہینوں سے ردِ بد عنوانی (anti corruption) کے سیمینارز منعقد کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد طلباء اور طالبات کو بد عنوانی کی اقسام اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔ بد عنوانی صرف روپے پیسے کا ہیر پھیر نہیں بَل کہ اپنے سرکاری امور کو بہ طریقِ احسن نہ بجا لانا، اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنا، میرٹ کے خلاف بھرتیاں کرنا، اپنی طاقت کا غلط استعمال کرنا اور سماجی فرائض نہ بجا لانا بھی بد عنوانی کے ذیل میں آتا ہے۔
مگر میرا آج کا مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے ہمارے شعبے میں ایک نہایت تکنیکی بد عنوانی کا۔ 16 دسمبر 2014 کے سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کا آغاز کیا۔ اور اس سلسلے میں جو اقدامات کیے گئے وہ مندرجہ ذیل تھے۔
اداروں کی طلباء و طالبات کی تعداد کے لحاظ سے درجہ بندی کی گئی۔جن اداروں میں مجموعی تعداد پانچ سو سے زاید تھی ان کو سیکیورٹی رسک میں درجۂِ اول میں رکھا گیا۔
جن تعلیمی اداروں کی چار دیواری نہیں تھی ان کی چار دیواری تعمیر کی گئی اور چار دیواری کی اونچائی کی حد آٹھ فٹ مقرر کی گئی۔ جو چار دیواریاں ٹوٹی پھوٹی تھیں ان کی مرمت کی گئی اور جو مقررہ اونچائی سے نیچے تھیں انہیں مزید اوپر اٹھایا گیا۔ چار دیواری پہ آہنی خار دار تاریں نصب کی گئیں۔ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کیمرے نصب کیے گئے۔ ایمرجنسی الارم کی تنصیب کی گئی۔ مرکزی گیٹ کے سامنے رکاوٹیں رکھی گئیں۔ چھتوں پہ سنائپرز کا انتظام کیا گیا۔ اور ان تمام انتظامات کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کو دو سیکیورٹی گارڈ دیے گئے۔
ان سیکیورٹی گارڈز کے لیے شرائط یہ رکھی گئیں کہ وہ فوج سے ریٹائرڈ ہوں اور اسلحہ چلانا جانتے ہوں۔ اس مقصد کے لیے سیکرٹریٹ نے صوبے بھر میں قائم سیکیورٹی برانچز سے رابطہ کیا اور اوپر سے ایک سرکلر جاری کیا گیا جس میں یہ تاکید کی گئی کہ سیکرٹریٹ کی تجویز کردہ سیکیورٹی برانچز سے ہی سیکیورٹی گارڈ بھرتی کیے جائیں گے۔ کیوں کہ یہ رجسٹرڈ برانچز ہیں۔
ان برانچز کو پابند کیا گیا کہ وہ ہر ادارے کو خواہ وہ تعلیمی ہوں یا مالیاتی جب گارڈز دیں تو ان گارڈز کو قابلِ استعمال اسلِحَہ، کار تُوس اور وردیاں بھی فراہم کریں۔
بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی میں وفاق کا کردار از، امانت ٹالپر
ہمارا ڈویژن جس برانچ کے ساتھ منسلک ہوا، اس کے انچارج ایک ریٹائرڈ DSP ہیں۔ جن کا اسمِ گرامی حفیظ الرحمن ہے۔ اور جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ محترم کی سیکیورٹی برانچ پورے ڈویژن سرگودھا کو ہزاروں سیکیورٹی گارڈز فراہم کر رہی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ کسی سیکیورٹی گارڈ کو اسلحہ نہیں دیا گیا۔ جن چند لوگوں کے پاس ہے ان کا ذاتی اسلحہ ہے۔
برانچ آرمی کے یا پولیس کے ریٹائرڈ لوگوں کو تعینات کرنے کی پابند ہے۔ مگر میرے پاس پچھلے ڈیڑھ سال میں تین چار بندے سویلین بھیجے گئے۔ ہمارے اکاؤنٹ سے ہر مہینے دو سیکیورٹی گارڈز کی تنخواہ کی مد میں 29500 روپے کے چیک انہیں بھیجے جاتے ہیں۔ جن میں سے ہر مہینے 4500 روپیہ فی کس کے حساب سے کٹوتی کر کے سیکیورٹی گارڈز کو 10,000 روپیہ دیا جاتا ہے۔
اسی پر بس نہیں۔ محترم ہر دفعہ لوگوں کی بے عزتی کرنا بھی نہیں بھولتے۔ محض دس ہزار روپے میں کسی کا خاندان نہیں پلتا۔ دوسری طرف حکومت جو بجٹ ہمیں پورا سال رُلا رُلا کے دیتی ہے اس کا آدھا حصہ مفت میں سیکیورٹی برانچ کے یہ انچارچ صاحب کھا جاتے ہیں۔ کئی بار میں نے فون کر کے اِستِفسار کیا ہے۔ یہ درخواست بھی کی ہے کہ حضور آپ غریب بندوں کو اپنے دولت خانے پہ بلاتے ہیں ان کا آنے جانے کا کرایہ بھی خرچ ہوتا ہے۔ اور پھر اتنی کٹوتی کرتے ہیں تو اسلِحَہ تو فراہم کریں اور سال میں ایک دفعہ نئی وردی تو دے ہی دیا کریں۔
مگر صاحب ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ اب اس صورتِ حال سے تنگ آ کر ہمارا ایک بہت ذمہ دار اور فرض شناس سیکیورٹی گارڈ استعفیٰ دے چکا ہے اور دوسرا دینے کی پوزیشن میں بیٹھا ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ کرپشن نہیں ہے؟ یہ جو اتنے بڑے پیمانے پر پیسوں کا اتنا بڑا کھیل کھیلا جارہا ہے اس کا نوٹس کون لے گا؟ اور کیا یہ محض فردِ واحد کی کرپشن ہے، یا اس کے پیچھے کوئی اور بھی کہانی ہے۔ یہ کھوج کرنا اور اسے سُدھارنا ریاست کا کام ہے۔ اپنا کام نشان دہی کرنا تھا۔ سو ہم نے کر دی۔