تعلیمی حکمت عملی اور معیار کا مسئلہ
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
پاکستان میں اکثر سیمیناروں، کانفرنسوں اور تعلیمی اجتماعوں میں تعلیم کے معیار کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عام طور پر جب تعلیمی معیار کا ذکر آتا ہے، تو سکولوں کی تعداد، ان میں سہولیات کی موجودگی یا عدم موجودگی اور اساتذہ کی تعداد پر گفتگو ہوتی ہے۔ یہ سارے عوامل تعلیمی معیار کے اہم اجزاء ہیں۔ لیکن ان عوامل کی موجودگی تعلیمی معیار کی ضمانت نہیں ہے۔
کوالٹی کے دوسرے حصے کا تعلق اس تدریسی اور سیکھنے کے عمل سے ہے، جو کلاس روم میں جنم لیتا ہے۔ اور جس کا تعلق نصاب، استاد، طالب علم، نظام امتحان اور سکول کے ماحول سے ہے۔ یوں تعلیم میں معیار (quality) کا مفہوم وسیع ہے۔ جس کے ایک طرف تو سکولوں کی عمارات، وہاں پر موجود سہولیات، اور اساتذہ شامل ہیں، تو دوسری طرف کمرۂِ جماعت کے اندر تدریسی اور تعلیمی شامل ہے، جس کے نتیجے میں ایک معیاری تعلیمی پراڈکٹ سامنے آتی ہے۔
پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی سکولوں میں سہولتوں کی صورتِ حال اور معیار کیا ہے۔
پاکستان میں سرکاری سکولوں کی حالت دگر گوں ہے۔ الف اعلان کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 43 فیصد سرکاری سکولوں کی عمارتیں شکستہ ہیں۔ ان میں متعدد عمارتیں خطر ناک ہیں۔ اساتذہ کی کمی کا یہ عالم ہے کہ سرکاری سکولوں کے 21 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں صرف ایک استاد موجود ہے۔
اسی طرح 14 فیصد سرکاری سکولوں میں صرف ایک کمرہ ہے۔ اسی طرح اکثر سکولوں میں پینے کا صاف پانی، گرمیوں میں کولنگ اور سردیوں میں ہیٹنگ کا مناسب انتظام نہیں۔
سہولتوں کا فقدان یقیناً تدریس اور سیکھنے کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں سہولتوں کے حوالے سے یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں اگر چِہ پچھلے برسوں میں اضافہ ہوا، لیکن اس حوالے سے اب بھی صورت حال تسلی بخش نہیں کیوں کہ 46 فیصد سکولوں میں ابھی تک ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ 35 فیصد سکولوں میں چار دیواری نہیں، 40 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
اب ہم تعلیمی معیار کے اس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، جو کمرۂِ جماعت کے اندر جنم لیتا ہے اور جس کا تعلق اساتذہ ‘نصاب‘ کتاب ‘طلباء‘ امتحانی نظام اور سکول کے ماحول سے ہے۔
مزید دیکھیے: ہمارا بنیادی نظام تعلیم اور اس کا مستقبل از، فیاض ندیم
پاکستانی سرکاری اسکول: ریاضی اور سائنس کا پست تعلیمی معیار
بد قسمتی سے ہمارا امتحانی نظام انتہائی فرسودہ ہے، جو طالب علم کی یاد داشت کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ طالب علم کی مضمون کی سمجھ بوجھ یا زندگی کے مختلف پہلوؤں پرعلم کا اطلاق application ہمارے نظام امتحان کا مقصد ہی نہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ طلباء رٹے (rote learning) کی بنیاد پر امتحانوں میں اچھے گریڈز تو حاصل کر لیتے ہیں، لیکن ان میں تخلیقی سوچ کا فقدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے لوگوں کی کمی ہے، جو زندگی کے مختلف میدانوں میں ایجادات کر سکیں۔
ہمارا نظامِ امتحان چُوں کہ اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کو ماپنے کا پیمانہ نہیں ہے اور نہ ہی اس نظام امتحان میں اچھے گریڈز حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہے، لہٰذا سکولوں میں اساتذہ کی تدریس کا مِحوَر بھی طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ نہیں ہوتا، بَل کہ ان کا مطمحِ نظر صرف اس نہج پر پڑھانا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں طلباء اچھے نمبر حاصل کر سکیں۔
اچھے نمبروں کا حصول نہ صرف طلباء اور ان کے والدین کا اولین مقصد ہے، بَل کہ سکول بھی اس استاد کو اچھا استاد سمجھتے ہیں، جس کی کلاس کا رزلٹ اچھا ہو۔ یوں بعض اوقات کچھ اساتذہ اچھا نتیجہ ظاہر کرنے کے لیے ان بچوں کو بھی اگلی کلاس میں پروموٹ کر دیتے ہیں، جو اس کے اہل نہیں ہوتے۔
اثر (ASER) کی 2016ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2014ء کے مقابلے میں 2015ء میں سرکاری سکولوں کے طلباء کی کار کردگی میں 7 سے 10 فی صد بہتری آئی۔
یہ ایک خوش آئندہ خبر تھی، لیکن یہ خوشی زیادہ دیر پا ثابت نہ ہوئی، کیوں کہ 2016ء کے جائزے کے مطابق طلباء کی کار کردگی میں 2015ء کے مقابلے میں اُردو، انگریزی اور حساب کے مضامین طلباء کی کار کردگی میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی مثلاً: انگریزی میں جو ٹاسک 2015ء میں 49 فیصد بچوں نے کامیابی سے کیا تھا، 2016ء میں 48 فیصد بچے وہ ٹاسک کر سکے۔
اسی طرح اُردو، سندھی، میں جو ٹاسک 2015ء میں 55 فیصد بچوں نے کیا تھا، 2016ء میں وہ ٹاسک 52 فیصد بچے کر سکے۔ اسی طرح ریاضی میں جو ٹاسک 2015ء میں 50 فیصد بچوں نے کیا تھا، وہ ٹاسک 2016ء میں 48 فیصد بچے کر سکے۔
پاکستان میں ایک طرف تو اڑھائی کروڑ بچے سکولوں کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتے۔ دوسری طرف جو سکولوں تک پہنچ جاتے ہیں، انہیں غیر تسلی بخش تدریس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعلیمی استعداد ان کے تعلیمی درجے سے ایک درجہ کم ہوتی ہے۔ غیر معیاری تعلیم اور مالی مسائل کی کمی مل کر بچوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور کر دیتی ہے اور آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے 35 فیصد بچے ڈراپ آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ یوں پاکستان دنیامیں ڈراپ آؤٹ بچوں کی شرح کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔
اگر معیارِ تعلیم میں بہتری مقصود ہے تو ہمیں معیار (quality) کا ایک ہمہ جہت (holistic) تصور سامنے رکھنا ہو گا، جس میں کوالٹی کے سارے اجزاء اساتذہ طلباء، نصاب، درسی کتب، نظام امتحان اور سکولوں کے ماحول میں بہتری لانا ہو گی۔ یہ بات اہم ہے کہ اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم مرکزی دھارے کے سرکاری سکولوں میں تبدیلی لائیں گے۔ وہی سکول جو کبھی اپنے معیار سے پہچانے جاتے تھے، اب اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
حکومتی سطح پر سرکاری سکولوں کی خاص سر پرستی کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتوں کی توجہ کا مرکز پرائیویٹ ادارے تھے، یوں سرکاری سکولوں کو بے توجہی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار کو بلندکرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ قومی سطح پر معیار تعلیم میں بہتری کا عمل سرکاری سکول سے شروع ہونا چاہیے، جہاں اکثریت ان بچوں کی ہے جن کے والدین پرائیویٹ سکول کی مہنگی تعلیم کے اخراجات بر داشت نہیں کر سکتے۔
عمران خان کی تقریر کے تین اہم تعلیمی نکات آؤٹ آف سکول اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم کی سہولت مہیا کرنا، مختلف نظام ہائے تعلیم میں کم از کم یکساں بنیادی نصاب کو رائج کرنا اور سکولوں میں معیار تعلیم کی بہتری در اصل ایک ہی خواب کے تین حصے ہیں۔ یہ خواب عام بے وسیلہ لوگوں کے بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی ہے۔ ایک ایسی تعلیم جو انہیں اس قابل بنا سکے کہ وہ دوسرے بچوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
بشکریہ: روز نامہ دنیا