عید مبارک مع feeling sick پر احتجاج پر چند معروضات
یاسرچٹھہ
احباب ایک جگہ کسی صاحب کے فیس بک اسٹیٹس میں قربانی کے نفل، واجب، فرض اور اس کے نتیجے میں ضمنی آلائشوں اور ان کے مناسب انداز سے ٹھکانے نا لگانے سے پیدا ہونے والے تعفن کے ردعمل میں مندرجہ feeling sick پر بہت رنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔
اس انگریزی ترکیب کو انٹرنیٹ سلینگ کے آس پاس کے معانی میں صرف اور صرف دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ محض وہی معانی لیے جا رہے ہیں جو انٹرنیٹ اور دیگر الیکٹرانک ذرائع مثلا ٹیکسٹ میسیجز میں روا ہیں۔ لغوی معانی اور مطالب کی بارآوری میں اپنی اپنی بلیک لاء ڈکشنریاں مروج ہونے کی نظیر سامنے آتی دکھائی دیتی ہے۔
البتہ عرض کرنا ہے کہ کسی کے feeling sick کا ترجمہ صرف ایک ہی جملے میں کرنے کی روایت کو تھوڑا بدل کر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکولوں میں ہم میں سے زیادہ تر کو ill اور sick کے درمیان فرق کرانے والے بھی موجود نہیں ہوتے، اور بڑے ہوتے ہوتے ہم sick کا بہت عجب سا اور نیا سا خالص پاکستانی مطلب بنا لیتے ہیں۔ جس کا مطلب متلی ہونا، یا متلی جیسی کیفیت ہونا کہیں آس پاس کا مطلب بھی نہیں رہ جاتا۔ (لسانیات کے غیر اردو دان دوستوں سے اپنی prescriptivist approach پر معذرت؛ اردو دان بطور خود قسم کے ماہرین لسانیات کے لیے البتہ یہ کامل لسانیات ہی ہے کہ کسی کی، بقول ان کے، زبان کی غلطیاں نکالی جائیں۔ descriptivist approach گو کہ لسانیات کی سائنس کے ساتھ کم از کم کچھ لینا دینا نہیں رکھتی ہے۔ لیکن جیسا دیس، ویسا بھیس)
بہت سارے لوگ جو اچھے خاصے پکے اور مروجہ روایات کے عین مطابق یعنی برانڈڈ مومن ہیں، ان بے چاروں کو بھی ہمارے معاشرے کی عدم احساس ذمے داری کے ہاتھوں پھیلے تعفن سے متلی ہو رہی ہے۔
عرض کرنے دیں کہ feeling sick کے متبادل ترجمے بھی دیکھ لیجیے، تو دھرم محفوظ رہے گا، پر دھرم والوں کی البتہ توجہ کھینچنے کی ضرورت بنتی ہے، اور یہ یہ توجہ کھینچائی کرنا بھی چاہیے۔
حکومت کو ہر معاملے میں کھینچنے کی بجائے، عید کے خطبات کے ذریعے ابلاغ ہوتا کہ قربانی کے جانوروں سے برآمد ہونے والی غلاظت و آلائشوں کو کسی ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جائے، یا محلہ کمیٹیاں اس سلسلے میں آگے آتیں کہ، سب کی ناک ہر چند کہ اپنی ہے اور سب کا ایمان اپنا اپنا ہونے کے علاوہ مجموعی بھی بنا دیا گیا ہے، تو ذمے داری اکیلے اکیلے کے ساتھ اجتماعی بھی لی جائے۔ اس میں کیا حرج تھا؟
لیکن ہم چونکہ victim bashing میں ہی ماہر ہیں، اس لیے کسی کی متلی، اور بعد میں پھیل جانے والی کسی وبا کو ہی دوش دیں گے، اور feeling sick کے لفظوں کو ہی پھانسی چڑھانا روایت و نظیر ٹھہرے گی۔ چلو چڑھاتے ہیں پھانسی پھر اسے!
ایک متبادل رائے از محترم ساحل برشوری صاحب
[su_quote]قربانی گلی میں کرنے اور اوجھڑی کا گند گلیوں میں پھینکنے پر اسلام، عید یا مسلمانوں کو کوسنے والے دوستوں سے گذارش ہے کہ جناب کی اس اصلاحی تقریر دلپذیر و بے نظیر کی ضرورت اس قوم کو سارا سال اور ہر وقت ہے۔ ہمارے دکاندار دکان کی صفائی کرکے روز سارا گند دکان کے سامنے نالی میں ڈال دیتے ہیں۔ کراچی کی گلیوں میں آج کل دریائے سوات بہتا نظر آتا ہے اس لیے کہ اس قوم کو نکاسی کی نالیاں صاف رکھنے کا شعور نہیں اور حکمران اس کو چنداں بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ یہاں کوئٹہ شہر میں اپنا مشاہدہ ہے کہ نئی سے نئی بنائی جانے والی نالیاں دو چار ماہ بعد پھر سے بھر جاتی ہیں۔ کچرہ پھینکنے کے لیے جو مقامات مخصوص ہیں اس کے گرد دور دور تک کچروں کے ڈھیر بلکہ پشتے جمے نظر آتے ہیں۔ قریب گذرتے ہوئے ابکائیاں آتی ہیں۔ کچھ لوگوں کاتو خیال ہے گھروں کا کچرہ اٹھا کر باہر لانے کا زائد تکلف فارغ لوگ کرتے ہیں اس لیے وہ دیوار کے اوپر سے ہی شاپر باہر پھینک دیتے ہیں۔ ایک محلےمیں بجلی کے تاروں میں پھنسا غلاظت بھرا پیمپر بھی دیکھنے میں آیا۔ گھروں کا کچرہ باہر نکال کر دور پھینکنے کی بجائے کسی کے بھی گھر کے سامنے ڈال دیں آپ بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ جو لوگ گٹروں کےڈھکن تک چوری کرکے لے جائیں۔ جہاں سالانہ بہت سے لوگ مین ہولز میں گر کر مرجاتے ہیں وہاں اوجھڑی اور خون کاگند بھی مذہب کی بجائے اس قوم کا کیا ہوا گند ہے۔ تہوار کو نہیں اس قوم کو ملامت کیجیے۔ کیوں کہ تہوار ان ممالک میں بھی منایا جاتا ہے جہاں یہ سب نہیں ہوتا۔[/su_quote]
برشوری صاحب بھی درست کہہ رہے ہیں۔ مگر یہاں قربانی کے جانوروں کی آلائشوں اور دیگر مواقع پر نام نہاد صفائی ستھرائی کے بعد کچرے کو نامناسب اور غیر ذمے دارانہ انداز سے پھینکنے کی عادات پر آنے والی ابکائیوں کو ہمیں قطعی طور پر مطعون نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ بلکہ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ابکائیوں، اور feeling sick کو دین و دھرم سے جوڑے بغیر اپنی سماجی و معاشرتی غیر ذمے داریوں کی اصلاح کریں۔