عید الاضحیٰ اور ذہنی سفر
از، یاسر چٹھہ
عازمِ سماء، فریدُون، اور جہاں یار نے میرے ساتھ عید کی نماز پڑھی۔ زندگی میں پہلی بار عید کے لیے وقتِ مقررہ سے 20 سے 30 منٹ قبل گاؤں کی اُس مسجد میں پہنچا جہاں ہمارے والد اور سب چچا اکٹھے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہے ہیں۔ یہی وہ مسجد ہے جہاں سے میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے ناظرہ قرآنِ کریم سیکھا، اللہ کریم ہمارے استاد مولوی محمد اشرف صاحب کو کروَٹ کروَٹ جنت کے مُنتخَبہ مقامات میں رکھیں۔
میرے لیے برسوں بعد اس نماز کو مسجد جا کر پڑھانے میں فریدُون کا کردار بہت اہم تھا۔
…an aside in the following paragraph:
{میرا ذہنی سفر میرے اور خدا کے درمیان تعلق اور رابطے کی “متحرّک منزلوں” میں رہتا ہے۔ اس سفر کی جُزئیات کو زیادہ لوگوں سے سانجھ نہیں پاتا، نہ ہی ان منزلوں میں پڑتے رستوں کی مائیکرو اور نَینو مِیٹروں کی جَوگرَفی کو سانجھنا بھی چاہتا ہوں۔ جب شہ رگ سے کم فاصلہ ہے تو اسے public policy affair بنانا کیسی سستی سبِیل ہے! ہممم، زندگی قدم قدم ڈرامے کے کلائمیکس کی سُنت پر چلتی ہے۔ ادبیات کے ابدی طلباء کے کان میں سرگوشی کروں کہ میرے نزدیک ڈرامے اور مَیلَوڈرامے میں لاکھوں نُوری سال کا فرق ہے۔ سو میری insignificant زندگی میں جا بہ جا کے ڈراموں میں کلائمیکس میں ایکشن کا عُنصر اس قدر ظاہری ہیجان کی تصویر و عبارت نہیں ہوتا۔}
میرے لیے برسوں بعد اس عید کی نماز کو مسجد جا کر پڑھانے میں فریدون کا کردار بہت اہم تھا۔
بچے صبح 5 بجے سے پہلے نیند سے جاگ گئے، تا کِہ عید کے کپڑے پہن کر تیّار ہو سکیں۔ بہت ہمت کی ان جوانوں نے! وجہ یہ تھی کہ ہم نے حافظ آباد سے بَہ راستہ ونِیکے تارڑ اور رام کے چٹھہ، جس رستے چک غازی پہنچنا تھا وہ مقامِ سکُونَت سے 30 کلومیٹرز پر مُحِیط تھا۔
بچے تیار ہوئے، بکروں کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی ہو چکی تھی کہ انھوں نے کافی گھنٹے تک ان کے ساتھ کھیل لیا تھا، باتیں کر لی تھیں، اسے باتیں سنا لی تھیں۔ منظروں کے ان مجموعوں سے جو چیز مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ بچوں کی اپنی کِھلونوں سے وابستگی بھی گو کہ بہت قوّی کیفیت ہوتی ہے، مگر قربانی کے جان وروں سے ان کی وابستگی ان کی اپنے بے جان کِھلونوں سے وابستگی سے کئی درجے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ وابستگی محض لگاوٹ سے کہیں زیادہ، کوئی پہلی پہلی محبت کی نفسیاتی قوّت کے قریب کے درجے کی کیفیت ہوتی ہے۔ مجھے اب عمر کا بچپنا نصیب نہیں، لہٰذا اندازے کی کَجّی کا احساس ہے۔
لا رَیب کہ محبتوں کے بھی تو کئی رنگ ہوتے ہیں، اور کئی احساسات کو emotional discretion میں ضُعف کے سبب محبت کہہ دینے کی غلط فہمیاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ میرے ان جُملوں کو پڑھتے اور سمجھتے وقت آپ اپنی اپنی ایمانی، انسانی اور ما بعد انسانی جَوگرَفی، نفسیاتی positioning اور لوکیشن میں گونا گوں انداز سے پڑھیں اور سمجھیں گے۔
میرے لیے تو اس نفیساتی کیفیت کی تحلیل کسی عذاب سے کم نہیں رہی ہے۔ وہ عذاب جس میں یاد ہے اور شدید احساس ہے، گو کہ معروف معنوں کا happening action نہیں بھی ہے۔
اپنے بچوں کی جان وروں سے لگاوٹ، وابستگی، پہلی سی محبت، حضرتِ اِبراھیم علیہ السّلام کی حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام سے ربط و تعلُّق، تعلّقِ پرودگار اور حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کے گَلے پر تیز دھار چُھ**ری لے کر تیار ہو جانا… کیسا conflict ہے، کیسا high intensity کانفلِکٹ ہے، واللہ، واللہ، واللہ!
اس بڑے سے کانفلِکٹ کے درمیاں، میرا گاؤں کی مسجد میں برسوں بعد جا کر اوّلِین صفوں میں رکوع و سُجُود کرنا بھی کسی نَینو یونی وَرس میں ایک بہت بڑا high intensity نفسیاتی rising action تھا۔ (واللہ میں وہ نہیں کہنا چاہتا، جو مَیلَوڈراما کی جمالیاتی سطح کے معاشرے میں high action اور اخباری سرخی کے سے تِیکھے action verbs میں لوگ کہنا سننا پسند کرتے ہیں، جو click bates پر گھنٹے قربان کرتے ہیں۔ (سوشل میڈیا کے “خوف” کے احترام میں خاموشی کو …. کہتا ہوں۔)
اس non linear وقت کو linear سُجھانے کا ناٹک کرتے ہوئے دوبارہ مسجد کے منظر نامے میں پہنچتا ہوں۔ مسجد میں بارہ برس قبل کے آئے ہوئے “نئے” امام اچھے لگتے ہیں۔ صحن کی گرمی اور مقتدیوں کے احساسات کا پاس رکھتے ہوئے خطبے کو مختصر رکھتے ہیں۔ دعا میں حقوقُ العِباد کا ترجمہ انسانی حقوق کی جدت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ان لفظوں کو مسجد کے مَنبر سے کانوں میں رَس گھولتے سرشاری ہوتی ہے۔ بہت اچھا سا لگتا ہے۔ میں اس احساس کی تحلیل و تجزّی کرنے تا وقتِ دِگر موقُوف کرتا ہوں۔ میں اِس بیش بہا لطف میں رہنا چاہتا ہوں۔ لطف و انبساط کے لمحے بیش قیمت ہوتے ہیں، ایسے ہی کیوں گردِیلی ہوا کی نذر کروں!
نماز و دعا کے اختتام پر مسجد میں احباب و بزرگان سے ملنا اور مسکراہٹوں کا زرِ مبادلہ سمیٹنا بہت اچھا لگا۔
گاؤں میں گھر مسجد کے بہت قریب ہے۔ فوراً گھر پہنچتے ہیں اور ناشتہ کرتے ہیں۔ اب ہم چنگیروں پر بیٹھ کر پراٹھے کھانے کی دَھائیوں کا سفر کر کے کافی برسوں سے اب کرسیوں اور میز پر آملیٹ اور پراٹھے، خشک روٹی کے ساتھ آن موجود ہیں۔ گھر کی بنی لَسّی ابھی بھی دو وقتوں کے درمیان سِلائی کرتی ہے اور تسلسل بنتی ہے۔
میز اور کرسیوں پر بیٹھے سب لوگوں کو شریانوں، وریدوں اور مِعدوں نے اب نعمتوں کی لطف رسانی میں محدود کر دیا ہے۔ مگر اس وقت سب اکٹھے باتیں کرتے اپنی اپنی طِبّی حدوں کی طنابوں کی آزمائش کرتے ہیں، مگر چند گھنٹے گزرنے کے بعد بھی طبی و طبعی تحدیدات مِل بیٹھ کر حدوں سے مذاق پر بھی طیش میں نہ آنے کا فیصلہ کرتی ہیں؛ مل بیٹھ کر کھانے کا احترام ہوتا ہے۔
کچھ وقت گزرتا ہے تو ڈیرے/دارے کی طرف کا قصد کرتے ہیں۔ بچے ساتھ ہیں۔ رستے میں بچے کسی قربانی والے جان ور کا خون دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد کٹا ہوا سَر دیکھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے گاؤں کی مسجد کا مسافر کرنے والے بچے اور خاص کر فریدون جیسے احساس اور احساس کے بیان پر کسی قدر قدرت رکھنے والے فریدون کے لیے یہ gory scenes نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔
درست ہے کہ فریدون تازہ بہ تازہ مسلمان جیسی ایمانی حرارت رکھتے ہیں، مگر وہ انس و انسانیت بھی تو رکھتے ہیں۔ فریدون کے ہونٹ تھرتھراتے ہیں۔ (مجھے جن سے محبت ہوتی ہے میں انھیں میلان کنڈیرا کی Immorality ناول میں دی گئی gesture’s theory سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔) تاہم مجھے فکر ہے کہ فریدون کو اپنا ما فی الضّمیر سینسر کرنا سیکھتے عمر لگے گی۔ فریدون کو اس بات کا کسی طور پورا احساس نہیں کہ چک غازی میں جون کا 45 ڈگری سے بڑھتا درجۂِ حرارت “حسّاس تنصیبات” کے ایمانی و ایقانی ایندھن کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ فریدون احتیاط سے بولتے ہیں۔ (شکر ہے اللہ کا…)
ڈیرے پہنچتے ہیں وہاں اپنے بکرے، اپنے دوست، اپنی محبت ایک درخت کے نیچے زندگی کے آخری لمحے بِتا رہے ہیں۔ بچے اُن پیارے سے جان وروں سے کھیلتے ہیں۔ انھیں کِھلاتے ہیں، پِلاتے ہیں، حقِّ دوستی نبھانے کے چلن سیکھتے ہیں۔ پسینے میں بھیگ جاتے ہیں تو انھیں اندر کمرے میں چند منٹ آ کر ایئر کنڈیشنر میں روکتا ہوں۔ یہ sequence بار بار چلتا ہے۔ کچھ وقت کے لیے ہم وہیں کمرے میں اس جاتے ہیں۔ دو ایک بجے کے قریب باورچی میں ہمیں گھر آ کر کھانا تیار ہے کی خبر دیتا ہے۔ سوتے اٹھ کر گھر جاتے ہیں۔
انھی نیزوں کرسیوں پر بیٹھتے ہیں جہاں صبح بعد از نماز ناشتہ کیا تھا۔ فریدون، عازم اور جہاں یار میرے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ ہم سب سمجھ دار بڑی عمر والے مٹن کے ذائقے میں محو ہو جاتے ہیں۔ کچھ لمحے بعد دیکھتا ہوں تو بچے اس گوشت کو نہیں کھا رہے ہوتے۔ پوچھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ نہیں، کھایا جا رہا۔ وجہ وہی ہے کہ جس کی تفصیل نہیں اِجمال میں رہنا ضروری ہے۔ انھیں قائل کرتا ہوں اور سچا قائل کرتا ہوں کہ یہ گوشت ان بکروں کا نہیں ہے جو آپ کے دوست ہیں۔ مگر انھیں پھر بھی مشکل ہے۔ خیر، بچے صرف روٹی اور آم کھا لیتے ہیں۔
نان linear دن گزرتا جاتا ہے۔ اسلام آباد جلدی واپس آنا تھا۔ رستے میں فریدون گاڑی میں پچھلی نشست پر ہیں۔ اب تو ابّا کے بالکل پاس ہیں۔ دیگر لوگ نہیں تو سوالوں کا ہمہ وقت جاری و ساری سلسلہ جاری ہوتا ہے، لیکن مجھے چپ کرا دیتا ہے۔
سوال ہوتا ہے:
Abba how could, and how come Prophet Abraham (PBUH) put his son Ishmael (PBUH) under the knife?
میں نے اپنے بڑے ہونے کا بھر پور استِحصال و استعمال کیا، پورا فائدہ اٹھایا۔ بچے کے سوال کے جواب میں ایک اور طرف اشارہ کر کے کہا:
سامنے دیکھیں، کسی نے سڑک کے کنارے فصلوں کو آگ لگائی ہوئی ہے، کس قدر دھواں اٹھ رہا ہے اور حدّت آ رہی ہے۔
میرا کام بن گیا۔ لیکن یونانی ڈراما نویس Sophocles کے کھیل Oedipus Rex کو پڑھتے وقت یونانی دیوتاؤں کی عظمت کی آشکاری کے لیے بنائے ڈراموں کو پڑھتے اور انھیں سوچتے وقت مجھ پر سائیڈ اِفیکٹ ہو گئے تھے۔ اللہ مجھے اور بچوں کو سائیڈ اِفیکٹس سے بچائے۔ آمین