انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کا کردار
(افتخار احمد)
سال دو ہزار تیرہ میں ہونے والے انتخابات کے بعد ہمارے انتخابی نظام میں موجود بہت سی ایسی خامیاں کھل کر سامنے آئیں جو سارے انتخابی عمل کو داغدار کرنے کے لئے کافی تھیں۔ چاہے گمشدہ بیلٹ باکس ہوں یا پھر جعلی ٹھپوں سے بھرے ہوئے بیلٹ پیپرز، انتخابات کے بعد ہماری ٹی وی اسکرینوں پر بہت سے ایسے ثبوت لہرائے گئے جن کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارے کے سارے انتخابی نظام کی تشکیل ہی کسی بڑے فراڈ کو سرانجام دینے کے لیے کی گیا ہے۔
الیکشن کے فوراََ بعد ہی پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے نتائج کو الیکشن کمیشن کے سامنے چیلنج کر دیا گیا، پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عذرداری کی درخواستوں کو سننے کے عمل کی سست روی سے تنگ آکر پی ٹی آئی نے حکومت سے چار حلقوں کے نتائج کو کھولنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔
کئی مہینوں پر محیط دھرنے کے بعد آخر کار پی ٹی آئی اپنی شکایات کو سپریم کورٹ کے روبرو لے گئی،جہاں مزید کئی مہینوں کے انتظار کے بعد درخواست یہ کہہ کر نمٹا دی گئی کہ گو 2013 کے انتخابی عمل میں بے تحاشا خامیاںسامنے آئی ہیں تاہم کسی منظم دھاندلی کے شواہد نہیں ملے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی کئی سنگین کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی۔
اس سب کے پس منظر میں پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی، جس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ وہ 2018 کے انتخابات کے لئے ایسی اصلاحات تجویز کرے جو مستقبل میں ہونے والے انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوں اور آنے والے انتخابات کے بعد ہار جانے والی سیاسی جماعت کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سپرد کی گئی جبکہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں نمائندگی دی گئی۔
تقریباََ نوے میٹنگز کے بعد آخر کار اس کمیٹی نے الیکشن بل دوہزار سترہ کا مسودہ تیارکر لیا ہے۔ اس پر مختلف جماعتوں نے اپنے اعتراضات بھی نوٹ کروائے ہیں ۔ جبکہ تحریک انصاف نے تو آخری میٹنگ سے واک آؤٹ کرنے کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے مطابق پارٹی کے اس فیصلے کی بنیادی وجہ وہ نکات ہیں جو جان بوجھ کر اس بل کا حصہ نہیں بنائے گئے۔ ان میں سرفہرست اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا ہے۔ پارٹی کے مطابق دنیا بھر میں اسی لاکھ سے زائد ایسے پاکستانی رہتے ہیں جنہیں اپنے ملک میں ووٹ کا حق نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت نے یہ شق اس لئے شامل نہیں کی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ سب پی ٹی آئی کے ووٹرز ہیں اور ان کو ووٹ کا حق دینے سے آنے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کو بہت فائدہ حاصل ہو گا۔
مگرسوال یہ ہے کہ کیا دہری شہریت والے افراد کو ووٹ کا حق دے دینا درست ہو گا؟ کیونکہ ایسے افراد کے ذریعے وہ ممالک ہماری سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں جن کی دہری شہریت ان افراد کے پاس ہے۔ اگر ان افراد کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں تو ووٹ ڈالنے کی اجازت کیسے دے دی جائے؟اگر لاکھوں ایسے افراد کو ووٹ کا حق دے دیا جائے جو دہری شہریت رکھتے ہیں تو یہ عمل پاکستان کی سیاست کو یکسرتبدیل کر دے گا۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی نگران حکومتوں کے بارے میں اٹھارویں ترمیم میں کیے گئے فیصلوں سے بھی ناخوش ہے، ان کے نزدیک اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعظم کی باہمی رضامندی سے لگایا جانے والا نگران وزیراعظم دراصل ایک فکس میچ کی پیداوار ہو گا جس سے کسی قسم کی شفافیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح صوبائی سطح پر بھی اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ مل کر جسے نگران وزیر اعلیٰ مقرر کریں گے وہ ان کے حق میں الیکشن پر اثر اندازہو سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل بھی پی ٹی آئی کے نکا ت میں سے ایک نکتہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ووٹ ڈالنے والے کی شناخت کی تصدیق بائیومیٹرک ذرائع سے کروانے کے مطالبے کو بھی بل میں شامل نہ کیے جانے پر پی ٹی آئی کو تحفظات ہیں ۔
ان اعتراضات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت شاید اس بات کا احساس نہیں کر پائی کہ قلیل مدت میں ان کے بہت سے مطالبات کو تسلیم کرنا تقریباََ نا ممکن ہے، جیسے تارکین وطن کو ووٹ دینے کااختیار۔ میں ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہوں، لیکن اگر ایسا کرنا مقصود ہو تو صرف ایک الیکشن بل کی مدد سے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے آئین کے کم از کم تین آرٹیکلز میں ترمیم کرنا ضروری ہوگی۔ ان ترامیم کے لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت اور بہت سا وقت درکار ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل اور نگران حکومتوں کے بارے میںاٹھارویں ترمیم کے ذریعے کیے جانے والے فیصلوں کو تبدیل کرنا بھی آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ الیکشن میں ایک سال سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہو ایسے مطالبات پر کمیٹی سے واک آؤٹ کر جانا کسی صورت مناسب نہیں کیونکہ اس سے ایسا عندیہ ملتا ہے جیسے پی ٹی آئی کبھی الیکٹورل ریفارمز کے بارے میں سنجیدہ تھی ہی نہیں۔ اس بل پر دیگر جماعتوں نے بھی اپنے اعتراضات اٹھائے ہیں، جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے کسی بھی حلقے میں خواتین کے ووٹوں کی شرح دس فیصد سے کم ہونے پر اس حلقے کے نتیجے کو کالعدم قرار دینے کی مجوزہ شق پر اعتراض کیا ہے۔
یہ یقیناََایک بے بنیاد اعتراض ہے، کیونکہ ماضی میں دونوں جماعتیں انتخابات کے دوران خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی کے معاہدے کرنے کی مرتکب ہوتی رہی ہیں۔ اس لئے ان کے اس اعتراض کو کوئی خاص توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ خواتین کے ووٹ کے کم از کم تناسب کو بڑھا کر بیس فیصد کر دینا چاہئے۔
جماعت اسلامی نے انتخابات میں اخراجات کی حد مقرر نہ کیے جانے پر بھی اعتراض داخل کیا ہے، یہ بالکل ایک جائز مطالبہ ہے لیکن مصنوعی حد عائد کرنے سے بہتر ہے کہ حالات کو مدنظر رکھ کر اخراجات کا تعین کیا جائے اور اس حد کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جائے اور اس حوالے سے شکایات کا فیصلہ ایک سال کے اندر اندر کیا جائے۔ ایم کیو ایم نے قومی اور صوبائی حلقوں میں ووٹرز سے زائد بیلٹ پیپرز کی اشاعت پر اعتراض کیا ہے، یہ ایک غور طلب معاملہ ہے۔ اس امر کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر حلقے کے لئے کتنے زائد بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں اور انتخابات کے بعد یہ کیسے پتہ چلایا جائے کہ ان اضافی بیلٹ پیپرز میں سے کتنے استعمال کیے گئے ہیں ؟
الیکشن 2013 ءکے بعد پیدا ہونیوالے دھاندلی کے الزامات کی بنیادی وجہ بظاہر الیکشن کمیشن کی نا اہلی معلوم ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقناطیسی سیاہی کے استعمال کا وعدہ کیا گیا مگر جب ووٹوں کی تصدیق کے لئے اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ تو سب جگہ استعمال ہی نہیں کی گئی۔ اسی طرح ڈی آر اوز، آراوز، اسسٹنٹ آر اوز کے علاوہ 650,000 پولنگ اسٹاف کو 2013 کے انتخابی عمل کیلئے تربیت دی گئی اور اس مقصد کیلئے 19,000 ٹریننگ سیشن کروائے گئے۔ اس کے باوجود عدالتی رپورٹ میں یہ آبزرویشن دی گئی کہ پولنگ کے عملہ کی تربیت مناسب نہ تھی، جیسا کہ ریٹرننگ آفیسرزکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سیل پیکٹ میں فارم 14 بند کر کے پولنگ بیگ میں رکھ کر مال خانے میں بھیجا جائے یا کم از کم اس کی غیرموجودگی میں نوٹ لکھا جائے۔
مگر اس کے باوجود کئی کیسز میں یہ فارم موجود نہیں تھا جبکہ کئی جگہ فارم 14 اور 16 قانونی تقاضوں کے مطابق پُر نہیں کیے گئے تھے۔ اسی طرح بیلٹ کی زیادہ تعداد معلوم کرنے کا فارمولہ یعنی پولنگ اسٹیشن کی بنیاد پرrounding up کرنا ریٹرننگ آفیسر کو سمجھایا ہی نہیں گیا۔ یہ بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے بعد انتخابی میٹریل کو حفاظت سے رکھے۔ لیکن کافی سالوں سے مال خانوں کواس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جہاں اسٹوریج کی جگہ ناموزوں ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن کی ہینڈ بک کے مطابق یہ ریٹرننگ آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ وہ فارم 14 کی کاپی اپنے پا س رکھے۔ مگر چونکہ آر اوز جوڈیشل آفیسر ہوتے ہیں اور ان کا کام انتخابات کے بعد آر او کی حیثیت سے ختم ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ان کے پاس الیکشن کا ریکار ڈ رکھنا درست نہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس مانیٹرنگ کا کوئی انتظام بھی موجو د نہیں جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ انتخابات کے دن زمینی حقائق کیا ہیں اور کیا واقعی جاری کردہ ہدایات کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایک حلقے کے لیے مختص بیلٹ پیپرزکی تعداداور ان کے استعمال کا جائزہ لینے کے لئے بھی کوئی باڈی موجود نہیں ہے ۔
اس لیے انتخابی عمل کے حوالے سے کی جانے والی کوئی بھی اصلاحات اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک کہ الیکشن کمیشن اور اس کا عملہ ان پر عمل نہ کرے ۔ نگران وزیر اعظم کون بنتا ہے یا نگران وزیر اعلیٰ کون ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر الیکشن کمیشن انتخابی قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اگر اگلے انتخابات میں بھی ایسا نہیں ہوتا تو تمام تر اصلاحات کے باوجود دھاندلی کا شور کبھی ختم نہیں ہو گا اور پاکستان میں جمہوری عمل مضبوط نہیں ہو سکے گا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.