روشن و منور حب الوطنی
از، یاسر چٹھہ
مقتدرہ کی طاقت کو کوئی بھی طبقہ پاکستانی قابو کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ عزت، بے عزتی، شرم و حیا صرف باضمیر لوگوں کے رستے کے ہی پتھر اور کانٹے ہوتے ہیں۔ اتنی منظم طاقت کے آگے دیگر روایتی اسلحہ والی مزاحمتیں بھی، اردگرد کے ممالک سے نظر آتا ہے، کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں۔ بھلے سری لنکا میں تامل باغی ہوں، بھارت میں نیکسالی باغی ہوں، کشمیر میں کشمیری، یا وطن عزیز میں بلوچ لبریشن آرمی، مذہبی شدت پسند اور القاعدہ ہوں، یا برما میں روہنگیا ہوں۔
ان بعض حلقوں کی جانب سے سوال زدہ مزاحمتی تحریکوں (یا حالیہ وقتوں کے طاقت کے مراکز کے بیانیوں کی مابعد 9/11 کی فیشن ایبل اصطلاح دہشت گردانا مزاحمتوں) کی جدوجہد محض مختلف درجوں کی nuisance value، یا ناک کے اگلے حصے تک مچھر، جسے نمرود کے ناک کی طرح آگے رسائی میسر نا ہو، جیسی ہے۔
تو پھر مقتدرہ کی
1۔ ریاستی طاقت کے استعمال میں پادشاہی
2۔ احتساب و جواب دہی سے بالاتری
3۔ عوامی رائے سازی کے ذرائع میں مداخلت
4۔ پروپیگنڈا کے ذرائع پر عوام سے بٹورے جانے والے محاصل سے ہی بے دریغ استعمال سے اپنے تعلقات عامہ (public relation activity)
5۔ اکثریتی مذہبی فکر کی مقدس شخصیات و متبرک جانی جانے والی الہامی کتب کی اہانت (blasphemy) کو، چھوٹے سے حلقے (junta) کی جانب سے تعیین، قائم اور استوار کردہ داخلی سلامتی (internal security) کی تعریف سے مزاحم و مخالف رائے/آراء کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بڑھتی روش، جیسے عوامل و عناصر کو جوں کا توں رہنے دیا جائے؟
کیا حب الوطنی کا تقاضاء واحد، مقتدرہ کے طے کردہ بیانیے پر من و عن، امنا و صدقنا کا باللسان و بالقلب اقرار کرنا ہی ہے؟ یا ایک روشن اور متبادل حب الوطنی کے تصور کو اجاگر کرتے رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر بیانیے اور آوازیں زندہ رکھنے کی کوششیں کرنا چاہئیں؟
راقم سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا عین روشن و منور حب الوطنی ہوگی؛ وجہ یہ ہے کہ احتساب و جواب دہی سے ماورا کوئی بھی طاقت اور ادارہ خود اپنا دشمن آپ بن جاتا ہے۔
یہ خوف ناک صورت حال کسی بھی وقت پیش آ سکتی ہے کہ پلاٹوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں، تعمیراتی کمپنیوں، بینکنگ اداروں، جنرل سٹورز، مویشی باڑے، آٹا، عمرہ، کسٹرڈ، سیریلیز اور دیگر کاروباری اداروں کے منافع کی تقسیم پر کوئی مسئلہ ہوجائے تو کہیں (مبینہ اور گردانیہ) سب سے منظم ادارہ اپنے آپ کو ہڑپ کرنا نا شروع ہوجائے۔
پرانی کہانیاں جو Aesop نے صدیوں پہلے لکھی تھیں، آج بھی اپنی پوری آفاقیت کے ساتھ انسانی نفسیات کو اپنے احاطہ اثر و حصار میں رکھے ہوئے ہیں۔
عوام سے بٹوری اشرفیوں کی تھیلیاں بھی ہوتی تو اشرفیوں کی تھیلیاں ہی ہیں نا، بھلے وہ گھنے درختوں کے نیچے بیٹھے صدیوں پرانے متخیلہ چوروں کے اندر باہمی تقسیم ہو پانےکا کوئی فارمولا نا دے پائیں، یا بھلے آج کی جدید آرکیٹیکچر کا شاہکار عمارتوں میں بیٹھے معززین کے درمیان تصفیہ نا کرا پائیں؟
انسان و عوام اور چرند، پرند، پتھر، زمین، حشرات، باہم متوازن زندہ باد؛ بھلے جس سرحد کے اندر ہوں، پھر بھی زندہ باد