ٖتقسیم کی کہانی اشرافیہ کی زبانی
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
قومیت اور مذھبیت کی بنیاد پر آزادی اور تقسیم کا مطالبہ ہمیشہ اشرافیہ یعنی ایلیٹ کلاس کا ایجنڈا رہا ہے، جسے عوام پر مسلط کیا جاتا رہا ہے اور پھر عوام اسے اپنا ایجنڈا سمجھ لیتے ہیں۔
جمہوریت کے دور سے پہلے ایلیٹ کلاس یعنی اشرافیہ یہی مقاصد اپنی قوم و قبیلے کی نسلی عصبیت کی طاقت سے حاصل کیا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ یا سردارِ قبیلہ دوسرے بادشاہ یا سردارِ قبیلہ سے لڑتا تھا۔ اس صورت میں اقتدار کے حریص دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی مکمل فتح اور قبضہ ہو جاتا یا پھر جزوی تقسیم کے کسی فارمولے پر دونوں کا اتفاق ہو جاتا۔ لیکن عوام کے لیے ان فریقین کی جنگوں سے پہلے اور بعد حالات یکساں ہوتے تھے۔ جو ٹیکس، باج اور خراج وہ پہلے ایک حاکم کو دیتے تھے اور اپنے لیے جینے کا حق حاصل کیا کرتے تھے، وہ اب دوسرے کو دے کر اس سے جینے کا حق حاصل کیا کرتے تھے۔
جنگ ہوتی ہی زمین، ٹیکس، باج اور خراج کے لیے تھی۔ اسی لیے اقتدار حاصل کیا جاتا تھا۔ عوام اس حقیقت سے آشنا تھے اس لیے ان کے نزدیک صرف حکمران بدلتا تھا، نتیجہ کم و بیش ایک ہی رہتا تھا، اس لیے انہیں فرق نہیں پڑتا تھا کہ حکمران ان کے مذھب کا ہے یا غیر مذھب کا، ان کی قوم کا ہے یا غیر قوم کا۔
برصغیر کی ساری تاریخ میں یہی نظر آتا ہے۔ حکمران اور عوام کے مذھب اور قومیت کا فرق کسی شخص کے حکمران بننے میں کہیں آڑے نہیں آتا تھا۔ اسی طرح ہر بادشاہ، راجہ مہاراجہ کے لشکروں میں بلا امتیاز ہر مذھب و قوم کے لوگ شامل ہوتے تھے، لشکری بھی مذھب و قومیت کا فرق کیے بغیر، اپنے مخالف حکمران کے ہم مذھب اور ہم قوم لشکریوں سے لڑتے تھے۔
پھر سماج نے ارتقا کی کچھ منازل طے کیں۔ بادشاہت کا دور لد گیا۔ جمہوریت کا زمانہ آ گیا۔ جمہوریت کے آنے کے بعد طاقت کا منبع عوام کو منتقل ہوگیا۔ اس بنا پر اشرافیہ کو حکومت کے حصول کے لیے نئی پالیسی بنانی پڑی۔ جہاں پہلے ان کی قوم اور قبیلہ اور ان کے لشکری ان کے لیے جانیں قربان کر کے ان کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا کرتے تھے، اب اس کی جگہ عوام کو استعمال کرنا پڑا۔ ایک مسئلہ، لیکن اشرافیہ کو یہ پیش آیا کہ ان کا عوام سے براہ راست رابطہ نہیں تھا، انہیں عوام سے بات کرنے کا ہنر بھی نہیں آتا تھا، انہوں نے عوام کو ہمیشہ باج گزار مزارعوں کی حیثیت سے دیکھا تھا، انہیں ڈھنگ نہیں آتا تھا کس طرح عوام کو حصول اقتدار کے اپنے اس نئے مقصد کے لیے استعمال کریں۔
سوال یہ تھا کہ اپنے کاموں میں مگن عوام، اپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوششوں میں جتے ہوئے، مذھب و قومیت کے فرق کے بغیر، باہمی سماجی تعاون سے اپنے جینے اور جیتے رہنے کی جدو جہد میں غلطاں ان عام لوگوں کو کیسے سیاسی پارٹی بنایا جائے؟
حال یہ تھا کہ ان عام لوگوں کے آپس میں جھگڑے بھی اگر ہوتے تو اس کی بنیاد کوئی سماجی تعامل ہی ہوتا تھا، نہ کہ کسی نظریے کی بنیاد پر وہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے لڑتے تھے، جب کہ اشرافیہ کو محض نسلی بنیادوں پر لڑانا آتا تھا۔ جمہوریت کی وجہ سے بادشاہ گری کی ساری طاقت عوام میں بکھر گئی تھی، جن کے ساتھ ان کا نسلی رشتہ نہیں تھا۔ اب سوال یہ کھڑا ہو گیا تھا کہ وہ کیسے عوام کو اپنے جھنڈے تلے جمع کریں؟
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہوں نے مڈل مین کے طور پر پڑھے لکھے مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے کو ہائر کیا۔ اس متوسط طبقے کا عوام اور اشراف دونوں سے رابطہ ہوتا تھا۔ مڈل کلاس جو ہمیشہ سے اشراف کی نوکر چلی آ رہی تھی، اس دفعہ پھر اسے نئی نوکری پر بلایا گیا اور سیاسی گاڑی کا کوچوان بنا دیا گیا۔
ادھر پہلی بار مڈل کلاس کو اشرافیہ کو اپنے پیچھے لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ اشرافیہ کے خرچے پر لیڈری کا لطف لینے، عوام کا رہنما بننے اور اور ممکنہ طور پر عوام کے ساتھ اشراف کا بھی حکمران بننے کا راستہ بھی انہیں نظر آنے لگا۔ اشرافیہ اور مڈل کلاس لیڈر، ایک ہی کشتی کے ان سواروں میں محبت و نفرت کا کھیل تاریخ کے کسی طالب علم سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس طرح ایلیٹ کلاس اور مڈل کلاس ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، لیکن حقیقتًا استعمال کوئی ہوا ہے تو وہ تھے عوام۔
جمہوری دور کے عوام کے پیشرو عوام زیادہ سمجھ دار تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ بادشاہوں کی ساری جنگ باج اور خراج کے لیے تھی۔ اس لیے وہ اس جنگ میں نہیں پڑتے تھے۔ لیکن جمہوریت کے دور کے عوام کو بڑی محنت سے راہ پر لگایا گیا تھا۔ انہیں قومیت اور مذھبیت جیسے امتیازات کی بنا پر باور کرایا کرایا گیا کہ باج اور خراج اپنے ہم قوم اور اپنے ہم مذھب کو دینا ہی قومیت اور مذھبیت کا تقاضا ہے۔
عوام جھانسے میں آ گئے، انہوں نے اشرافیہ کے فوجیوں کی جگہ سنبھال لی۔ وہ جنگ جو اشرافیہ کی خاطر سرحدوں پر فوجیوں کے ذریعے لڑی جاتی تھی، وہ اب اشرافیہ کے لیے گلی محلوں میں لڑی گئی۔ وہ جنگ جو فوجی دوسرے فوجی سے لڑتے تھے، وہ اب عام لوگوں نے دوسرے عام لوگوں سے لڑی۔ فوجی تو لڑتے ہی لڑنے کے لیے تھے، اسی کام کی انہیں تنخواہ ملتی تھی، یہ عوام کیوں لڑ رہے تھے؟ محض اس لیے کہ ان کے ٹیکسوں کا مستحق ‘الف’ نہیں ‘ب’ ہوگا۔ ان کی جیب پر غیر قوم کا نہیں، اپنی قوم کا حکمران پلے گا۔ ان کی فصلوں اور تنخواہوں کاخراج غیر مذہب کا حکمران نہیں اپنا ہم مذہب حکمران لے گا۔ اصل مسئلہ بس یہی تھا جسے قومیت اور مذھبیت کی گلکاریوں میں چھپا دیا گیا تھا۔
منگل پانڈے اگر پہلے انگریز کی نوکری کرتا تھا تو اس کی آزادی کی مطلب اپنے ہم قوم اور ہم مذھب کی نوکری کرنا تھی، یعنی اس کے لیے غیر قوم کے حاکم کے حکم پر اپنے ہم قوم پر گولی چلانا غلط تھا، لیکن اب اپنے ہم قوم حاکم کے حکم پر اپنے ہم قوم پر گولی چلانا جائز تھا۔ منگل پانڈے کے لیے یہ جنگ مجض باس (boss) بدلنے کی جنگ تھی۔ تبدیلی بس یہی تھی، جس کے لیے عوام نے جانیں دیں۔ بس اتنی تبدیلی کے لیے خون کی بساط بچھائی گئی تھی، بس اسی لیے نقشے ترتیب دییے گیے تھے، جس کی لکیروں کو جمہوری عوام نے اپنے خون سے سینچا تھا۔
کیا یہ ماضی کا افسانہ ہے؟ ہرگز نہیں، یہ حال کی تصویر ہے، اور شاید مستقبل کی بھی۔ دنیا بھر میں جاری آزادی کے نام سے برپا تحریکیں اپنی حقیقت میں یہی کہانی ہے جو ہر جگہ دہرائی جاتی ہے۔ یہ جنگ عوام کے خون سے، عوام کے ٹیکس پر قبضے کے لیے عوام کو اپنا محکوم بنانے کی جنگ ہے۔ عوام کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کیوں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ انہیں کیا ملے گا۔