جب شرمندگی، فرسٹریشن میں بدل جائے
کشور ناہید
غالب کا بوسیدہ ہوا مصرع ’’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگرکو میں‘‘ حلقہ 120 کے انتخابات کےدوران عجیب وغریب اور پریشان کن پوسٹرز دیکھ کر، ہمارے سارے سنجیدہ لوگ، پاکستان کے آئندہ انتخابات کا ہولناک فیصلہ اور آئینہ دیکھتے ہوئے، نہ صرف پریشان ہیں، بلکہ یہ سمجھ نہیں پارہے کہ لوگوں کو کیسے جرات ہوئی کہ قائداعظم کے ساتھ ایک کالعدم پارٹی کے سربراہ کی تصویر پورے شہر میں لگی رہی اور کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ اس کو پھاڑ دیتا کہ قائد اعظم جیسی مدبر شخصیت کے سارے فلسفے کو برباد کردیا گیا۔
دوسرا پوسٹر اس سے بھی خطرناک کہ جس میں عدالت سے سزا پانے والے کی تصویر کے ساتھ انتخاب لڑنے والے امیدوار کا نام درج تھا۔ لوگوں نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ یہ پارٹیاں کب اور کیسے وجود میں آئیں اور ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے دی گئی۔ جواب بہت چالاکی سے دیا گیا کہ یہ آزاد امیدوار تھے۔ اچھا اگر آزاد امیداوار تھے تو ان کو انتخابی نشان کیسے الاٹ کردیا گیا۔ ان دونوں پارٹیوں نے باقاعدہ اپنی پارٹیوں کے ناموں کا اعلان کیا۔ ایک نے خود کو تحریک لبیک پاکستان پارٹی کہا اور دوسری نے خود کو ملی مسلم لیگ کہا۔ ویسے تو جماعت اسلامی بھی کوئی 600 ووٹ نہ لے سکی۔
ان نوساختہ پارٹیوں کے منشور اور پوسٹرز پر دکھائی گئی تصاویر کوکیسے قبول کر لیا گیا۔ اگر ایسے جہادی، مین اسٹریم سیاست میں بڑھتے رہے تو روشن خیال پاکستان کہاں گیا اور ٹرمپ جیسے لوگ جو ہم پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام لگا رہے ہیں۔ ان کو ہم الزام تو نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو اتنا پرانا سچ ہے کہ پاکستان کابچہ بچہ جانتا ہے۔ ہمارے اوپر الزام ہے کہ ہم نے طالبان کی تربیت کی۔ دہشت گردوں اور خودکش دھماکہ کرنے والوں کی تربیت کرنے میں مقدور بھر اتنا حصہ ڈالا کہ ہم امریکیوں کی خوشی میں اپنی خوشی تسلیم کرتے ہوئے اترا رہے تھے۔
ہمارے ملک میں امریکی ہیلی کاپٹر آکر ان کے سربراہ کو مار کر اور اٹھا کر ساتھ لے گئے۔ ہمارے ملک میں ڈرون حملوں کے ذریعے بیت اللہ محسود کو ماراگیا۔ مولوی نیک محمد کو مارا گیا۔ مولوی صوفی محمد ہوکہ ملا فضل اللہ، ان سب نے افغانستان میں پناہ لی۔ مگر الزام پاکستان پر ہی آیا۔ اب بھی یہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا مرکز پاکستان ہے۔
یہ سب کہنے والے امریکی اور دیگر ممالک ہیں۔ ہمیں چونکہ سب ممالک سے دشمنی کرنے کا شوق ہے۔ اس لیے ہمارے ہمسائے میں کوئی بھی تو ہمارا دوست نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ حلقہ این۔ اے۔ 120 نے تو سیاست کے نئے رنگ اور آنے والے زمانوں کو آشکار کردیا ہے مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ان دو گروپوں نے جماعت اسلامی سے بھی زیادہ ووٹ لیےہیں۔ بقول امتیاز عالم، ان کے کیمپوں میں بھی زیادہ رش تھا۔ اس سارے علاقے میں فوج بھی موجود تھی۔ مقامی اور قومی سیاست دان بھی گھوم رہے تھے۔ کسی کوبھی ان پارٹیوں کو ووٹ ڈالتے ہوئے، یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ ہم اپنے مستقبل کو خود ہولناک سوچ کے سپرد کررہے ہیں۔ البتہ آنے والے دور کی ہلکی سی تصویر ضرور نظر آگئی جو خاصی بھیانک ہے۔
جتنا غور کرو، یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جن جماعتوں یا گروپوں کو سرکاری طور پر پابند کیا گیا کہ وہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتیں وہ نام بدل بدل کر بار بار سامنے آجاتی ہیں۔ اس دفعہ تو کمال یہ ہے کہ وہ سب چہرے اشتہاروں میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ ان بینرز میں ہمارے قائداعظم کی تصویر کو استعمال کرنے کی جرات بھی گئی ہے۔ یوں تو تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فی الوقت کی جیت، ہار کے مترادف ہے کہ گزشتہ اعداد وشمار کے مقابلے میں یہ نتائج امید افزا ہیں۔
سب سے زیادہ مایوسی تو چوہدری منظور اور کائرہ صاحب سے ہوئی۔ لاہور وہ شہر ہے جس میں پیپلز پارٹی نے جنم لیا تھا۔ اس الیکشن میں وہ پارٹی نامعلوم افراد کے زمرے میں پہنچ گئی ہے۔ بھٹو صاحب کی روح اور بے نظیر کی ساری محنت اور اس کے تازہ خون کی حرمت پر ان لوگوں نے پانی پھیر دیا ہے یہ میں کیسے مانوں کہ لوگ اصل پیپلز پارٹی کو بھول گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ بھولے نہیں، انہوں نے انتقاماً ووٹ نہیں دیے۔ یہ جتانے کو کہ پارٹی کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوں گے توسامنے کسی بھی فرشتے کو لے آؤ۔ انجام عبرت ناک ہوگا۔ محض جیسے بھٹو کہنے سے لوگ پارٹی کو اپنا نہیں سمجھیں گے۔ بلاول نےالیکشن سے کچھ سیکھا کہ بس جلسے۔ جلسے!
اس الیکشن کے نتائج یہ ہیں کہ پاکستان میں صرف تین اہم پارٹیاں ہیں۔ ن لیگ ، تحریک انصاف اور وہ دوگروپ جنہوں نے11 فی صد ووٹ لیے۔ باقیوں کی تو ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں۔
میڈیا کی غیر ذمہ داری کا یہ حال ہے کہ ایک چینل نے تو باقاعدہ خبر چلائی اور اس پر تبصرہ بھی کیا کہ ’’ بلوچستان الگ ہورہا ہے‘‘۔ جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ جنیوا میں ایسے گروپ ہیں جو اچھی خاصی رقم خرچ کر کے، خیموں میں ٹھہرے ہوئے مہاجرین کو اچھی خاصی رقم دے کر جو چاہے اور جس کے خلاف چاہیں ایک جلوس نکالیں کہ بسوں، رکشوں اور ہوٹلوں کے شیشوں پر ’’فری بلوچستان‘‘ کے پوسٹر لگوا دیتے ہیں۔
ہنسی کیا رونا آتا ہے کہ یہ سن کر ہمیں اپنے اندر کی صفائی کرنی ہے۔ ابھی چار دن ہوئے سفیروں کی کانفرنس ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس دن یہ افواہ میڈیا پہ پھیلائی گئی۔ اس وقت سوئٹرزلینڈ سے اپنے سفیر کو واپس بلا لینا چاہیے تھا۔ پاکستان دشمن قوتیں کیا کررہی ہیں! خدا نہ کرے مشرقی پاکستان کے حالات دہرائے جائیں۔ ہم کہتے رہے ہزار سال تک کچھ نہیں ہوگا اور دنیا نے جو دیکھا اس کو نظر میں رکھ کر کم ازکم ہمارے ریاستی ادارے ہی اس طرف توجہ دیں۔
روزنامہ جنگ کا شکریہ