ایمیلی ڈکنسن کی نظمیں

ایمیلی ڈکنسن کی نظمیں
Emily Dickinson, base illustration Saatchi Art

ایمیلی ڈکنسن کی نظمیں

ترجمہ، عرشی یاسین

۱-

خریدنے آئی ہوں میں آج

ایک مسکراہٹ

پس ایک مسکراہٹ

تمہارے چہرے کی خفیف سی مسکراہٹ

جچ جائے گی مجھے

وہ ننھی سی جو دمکے

جس کی کمی کوئی محسوس تک نہ کرے

کروں گزارش کاؤنٹر پر کھڑی

منظور ہو جناب جو بیچنا اسے

یہ میری انگلیوں میں ہیں ہیرے

معلوم ہے نا آپ کو کیا ہوتے ہیں ہیرے؟

لعل بھی ہیں میرے پاس

جیسے ڈھلتی شام کی سرخی

اور پکھراج جیسے ستارے

یہ سودا ہو گا ان جواہرات کے عوض

تو کہیں جناب؟

مل سکتی ہے یہ مجھے

۲-

اے دل

بھلا دیں گے اسے ہم

آج شب

میں اور تم

بھلا سکو جو تم

جو بخشی اس نے

تمہارے جذبوں کو حدت

میں بھی بھلا دوں گی وہ نور

اور جب سب تمام ہو جائے

مہربانی کرنا!

بتا دینا مجھے

کہ میں پھر سے شروعات کر لوں

لیکن ذرا جلدی کرنا!

ایسا نہ ہو کہ تم دیر کر دو

اور میں پھر سے اسے یاد کر لُوں

۳-

کاش وہ امربیل ہوتی

اور میں گلاب

کتنی مسرور ہوتی تمہاری میز پر

میری مخملی زندگی تمام ہوتے

اب جب کہ میں ایک راہبہ

اور وہ شبنم

سج جاؤں گی میں رسموں کے کاج میں

اور بھیج دوں گی گلاب تمہیں۔

۴۔

نہیں کچھ اور

میرے پاس لانے کو

تمہیں معلوم تو ہے

تو بس لاتی رہتی ہوں یہ سب

جیسے لاتی رہتی ہے ہر شب

ہماری مانوس آنکھوں کے لیے تارے

جنہیں ہم دھیان نہ دیں تب تک

نہ نکلیں وہ جب تک

اور کتنا مشکل ہو جائے تب

ڈھونڈنا اپنے گھر کا راستہ