ممتاز افسانہ نگار اسد محمد خان سے ادب ، فن اور اُسلوب پہ ایک گفتگو (حصہ اول)
انٹرویو: رفاقت حیات
اسد محمد خاں صاحب نے جب مجھے فون پر اپنا پتہ بتایا تو میں ’’ واجد اسکوائر‘‘ کا نام سن کر چونکا۔ واجد اسکوائر۔ مجھے یاد آیا کئی برس پہلے اردو ادب کے نقاد اور افسانہ نگار شہزاد منظر اور مایہ ناز شاعر، نقاد اور ریڈیو براڈکاسٹر حمید نسیم بھی تو اسی واجد اسکوائر میں رہا کرتے تھے اور تب میں ان سے ملنے وہاں جایاکرتا تھا۔اسی لئے میں نے اسد محمد خان صاحب سے فوراً کہہ دیا۔ یہ جگہ میری دیکھی بھالی ہے۔میں باآسانی پہنچ جاؤں گا۔
اسد محمد خاں صاحب سے انٹرویو کے لیے اتوار کا دن اور گیارہ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔اتوار کا دن کراچی کی سڑکوں اور گلیوں کے لئے آرام کا دن ہوتا ہے۔اسی لئے شہر کی سڑکیں اور گلیاں ہفتے بھر کی ہنگامہ خیزی کے بعداس دن ذرا دیر تک اونگھتی رہتی ہیں۔ میں اپنے شاعر دوست ذوالفقارعادل کے ہم راہ اس علاقے میں پہنچا تو میری یادداشت نے میرا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔کیوں کہ میں یہاں آخری بار ۱۹۹۸ ء میں آیا تھا۔تب سے اب تک یہاں بہت سی نئی عمارتیں بن گئی تھیں۔ ہمیں ایک ہوٹل پر بیٹھے لوگوں سے واجد اسکوائر کاراستہ پوچھناپڑا۔انہوں نے بتایا کہ اگلی سڑک پہ واجد اسکوائر ہے۔ہم آگے چل پرے۔
واجد اسکوائر اپارٹمنٹ کے مین گیٹ پر چوکیدار نے ہمیں روکا۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم اسد محمد خان صاحب سے ملنے آئے ہیں۔ وہ ہمیں ان کے اپارٹمنٹ کا نمبر بتانے لگا تو ہم نے اسے کہہ دیا کہ ہمیں اپارٹمنٹ کا نمبر معلوم ہے۔میرے شاعر دوست ذوالفقار عادل نے اپنی موٹر سائیکل واجد اسکوائر کے اے بلاک میں اپارٹمنٹ نمبر اے۔ ۱۱ کے سامنے روک دی۔واجد اسکوائر کے تمام بلاک انگریزی کے حرف’’ I‘‘ جیسے ہیں،جو کمپاوئنڈ کی چوڑائی میں ایک سرے سے دوسرے تک چلے جاتے ہیں۔ہر بلاک پانچ منزلوں پرمشتمل ہے۔ اسدمحمد خاں صاحب کا اپارٹمنٹ پہلی منزل پر واقع ہے۔ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ کر پہلی منزل تک پہنچے۔یہاں آمنے سامنے دو اپارٹمنٹ تھے۔ایک کے باہر دیوار میں نصب، دھات سے بنی چھوٹی سی نام کی تختی پر اردو میں جلی حروف میں ’’ اسد محمد خان ‘‘ لکھا ہوا تھا۔
ہم نے دروازے کے ساتھ دیوار میں نصب گھنٹی بجائی تو کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور بیگم اسد محمد خاں نمودار ہوئیں۔ ہم نے مودبانہ سلام کیا۔انہوں نے دروازہ کھولا ۔ ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔اسد محمد خاں صاحب کی آمد سے قبل انہوں نے ہماری تواضع کی۔ ہم شربت پیتے اسد صاحب کا انتظار کرنے لگے۔
مختصر سا ڈرائینگ روم سادگی اور سلیقے سے آراستہ تھا۔دیواروں پر کسی عظیم مصور کی کسی شہرہ آفاق پینٹنگ کا کوئی عکس آویزاں نہیں تھا۔بیٹھنے کے لئے عام سا صوفہ سیٹ اور اس کے برابر میں ایک چھوٹی سی شیشے والی الماری رکھی تھی۔ الماری پر حبیب یونیورسٹی کی جانب سے اسد محمد خاں صاحب کے ساتھ منائی جانے والی ایک شام کا سووینیئررکھا تھا۔ اس کے برابر میں تہذیب فاؤنڈیشن کی جانب سے ملنے والے ایوارڈ کی یادگاری شیلڈ رتھی۔ اور برابر میں لکڑی سے بنا ہوا گھوڑے کا ایک میورل رکھا تھا۔ شیشے والی الماری تین خانوں پر مشتمل تھی۔پہلے خانے میں رنگین برتنوں والے شوپیس رکھے تھے جب کہ دوسرے خانے میں اسد صاحب کی اب تک چھپنے والی تمام کتب سجی ہوئی تھیں۔اس سے نیچے والے خانے میں لغات اور کچھ نئے ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں رکھی تھیں۔اس ڈرائینگ روم کی دو کھڑکیاں باہر کی طرف کھلتی تھیں۔ان کھڑکیوں سے واجد اسکوائر سے ملحق کسی دوسرے اسکوائر کے فلیٹ دکھائی دے رہے تھے۔کھلی ہوئی کھڑکیوں سے روشنی اندر آرہی تھی۔
اسد صاحب کا ڈرائینگ روم ان کی نثر کی طرح کسی بھی قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ خود تشریف لے آئے۔انہوں نے ہم سے پرتپاک انداز میں مصافحہ کیا اور صوفے پر بیٹھ گئے۔ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔جب گفتگو شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے مخصوص دھیمے اور نپے تلے لہجے میں گفتگو شروع کی:
سوال: آپ حال ہی میں نیو دہلی ، انڈیا میں منعقد ہ جشنِ ریختہ میں شرکت کرکے لوٹے ہیں۔ایسے جشن اور ادبی میلے، جو آج کل بہت زیادہ ہورہے ہیں۔آپ کے خیال میں ان کے اردو ادب اور ہماری ادبی دنیا پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
اسد محمد خاں: ایک بنیادی بات یہ ہے کہ،آج کے دور میں ہمارے ہاں کتاب کے خریدار بہت کم ہیں۔ اگر میں اپنے زمانہ طالب علمی کی بات کروں، جب میں ایس ایم کالج اور کراچی یونیورسٹی میں طالب علم تھا، اس زمانے میں ظاہر ہے، نصاب کے علاوہ بہت کم کتابیں چھپا کرتی تھیں، مگرپھر بھی کتابیں خریدنے کا چلن عام تھا۔اور پنجاب میں خاص طورپر لاہور جو ڈھائی سو برسوں سے اشاعت کا مرکز رہا ہے۔منشی پریم چند کی پہلی کتاب وہیں چھپی تھی اور ملک بھر مقبول بھی ہوئی تھی ۔منشی پریم چند نے بھی یہ بات کہی تھی کہ لاہور برِصغیر میں کتابوں کی اشاعت اور فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔تو جب سے لے کر آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ یہاں کراچی میں اور دوسری جگہ پر کتنے ہی پبلشر آئے مگر جم نہ سکے۔جبکہ لاہور میں نسل در نسل کتاب چھاپنے اور خریدنے کی ایک روایت چلتی رہی۔یہ ضروری نہیں کہ آپ کا تعلق کسی پڑھے لکھے یا ادبی گھرانے سے ہو، تب ہی آپ کو کتاب خریدنے کا شوق ہو۔پنجاب میں ایک عام آدمی بھی کتاب خریدتا ہے اور رکھتا ہے۔یہ ایک بہت دل خوش کن صورت حال ہے۔میں بھی بہر حال لاہور سے کتاب چھپواناچاہتا تھاتو۲۰۱۰ء میں ایک جانے مانے پبلشر نے مجھ سے میری کتاب شایع کرنے کی اجازت مانگی، میں نے اجازت دی اور ساتھ ہی کچھ اپنی کتابوں کا مواد فراہم کیا۔اب وہ میری کتابیں چھاپتے ہیں۔ریختہ جیسے جشن اور پاکستان اور ہندوستان میں ہونے والے ادبی میلوں کی وجہ سے بھی ان ملکوں میں کتابیں فروخت ہونے لگی ہیں اور زیادہ سے زیادہ شہروں تک پہنچ رہی ہیں۔
دیکھیے! یہ اشتہار وں کا دور ہے۔گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے تمام شعبہ ہائے زندگی پر اشتہار غالب آگئے ہیں۔ان کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔آج کل تو مذہبی حضرات بھی اپنے گھروں کے باہر اشتہار لگوادیتے ہیں کہ اگر کسی کو مغفرت کروانی ہے تو ان اوقات میں تشریف لائیے۔یعنی آج کے دور میں اشتہار بازی کا سہارا لیے بغیرمغفرت کی دعا کرنے والا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔
خیر چھوڑیے۔۔۔ میں اپنی ابتدا کی بات کر رہا تھا۔ان دنوں سینیئرز میں ایک شانِ بے نیازی ہوتی تھی۔جوہم نے بھی ا پنے بڑوں مثلاً اطہر نفیس، محشر اور سلیم احمد وغیرہ میں دیکھی؛انہیں شعر کہتے دیکھ کر ہمیں بھی ہمت ہوئی کہ ہم بھی شعر کہیں یا گیت لکھیں۔کیوں کہ وہ بڑے قلم کار کمال سلیقے سے شعر گوئی کر رہے تھے اور پوری سچائی سے ادب سے جڑے ہوئے تھے۔
میں جہاں پیدا ہوا، وہاں کا حال یہ تھا کہ ادب سے زیادہ جاسوسی ناول اور دیگر سنسنی خیز چیزیں چھپا کرتی تھیں۔ہم اپنے ناناکو سب حکایات اور داستانیں اور طلسمات پڑھتے ہوئے دیکھا کرتے تھے، یعنی عام دلچسپی کی کہانیاں، بہرام ڈاکو، سلطانہ ڈاکو اور اس جیسے دوسرے قصے بھی۔ یہ سب وہ بڑے اہتمام سے اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پریم چند کی کتابوں کا پورا سیٹ بھی ان کے پاس ہوتا تھا۔اور اگر کوئی نئی کتاب دلی یا لاہور سے چھپتی تھی تو وہ اسے فوراً حاصل کرتے تھے۔یہ تو بہت پرانی باتیں ہوئیں مگر بعد میں ہمارا معاشرہ کتاب سے دور ہونے لگا۔معاشرے کی کتاب سے یہ دوری فیسٹیولز جیسے اجتماعات کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی تھی۔انہوں نے پبلشرز کو رائٹرز کے ساتھ جوڑا۔ رائٹرز کو اس سے پہلے پبلشرز کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔اس سے پہلے جو پبلشرز ہوتے تھے، کسی ایک مقبول رائٹر پر قبضہ کرلیتے تھے اور پھر دھڑادھڑ اسی کی کتابیں چھاپتے رہتے تھے۔یعنی یہ ہوتا تھا کہ شاعری اور سنجیدہ ادب کی کتابیں پبلشر چھاپنے پرتیار نہیں ہوتے تھے۔افسانوں کی اشاعت پبلشرز کے لئے پرکشش تھی کیوں کہ اکثر لو گ سلسلہ وار کہانیاں پڑھنا چاہتے تھے۔ بہر حال کراچی میں جتنے بھی ادبی میلے ہوئے میں وہاں جاتا رہا۔پانچ سات بار لاہور اور اسلام آباد یا دلی اور علی گڑھ بھی جانا ہوا۔
سوال: کیا آپ کے ماضی کا یا آپ کے آباؤاجداد کے ماضی کا آپ کے فکشن پر کوئی اثر ہوا؟اگر ہوا تو آپ کے خیال میں وہ کیسا اثر ہے؟
اسد محمد خاں: ماضی کا اثر میرے فکشن پر بے شک ہوا۔گزشتہ پانچ چھ صدیوں کے دوران افغانستان اور سرحد کے قبائل نقلِ مکانی کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ہندوستان میں کل چھ سو چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ جن میں سے بیس تیس ۔۔۔بڑی ریاستیں پٹھانوں کے پاس تھیں۔رام پور، شاہ جہاں پور، بھوپال،خورجہ وغیرہ۔ یہ سب نقلِ مکانی کرنے والے پٹھانوں کی ریاستیں تھیں۔ مغلوں کے بعد ہندوستان مٹ رہا تھا۔راج پوت اپنے علاقوں پر قبضہ کر رہے تھے۔ پٹھان جن کے پاس مغلوں کی فوج کی بیشتر کمان رہی تھی اور وہ فوج میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے، تو ان کے واپس جانے کا سوال ہی نہ تھا۔ وہ سال میں ایک آدھ بار اپنے آبائی علاقے کا چکر لگا آتے تھے۔ ویسے پٹھانوں کو ہندوستان میں رہ کر زمینوں اور زمین کے باسیوں کو سنبھالنے کا سلیقہ بھی آگیا تھا۔ہمارے جدِ اعلی اورنگ زیب کی فوج کے سالار تھے۔ان کے علاوہ بیشتر سالار بھی پٹھان ہی تھے۔ہمارے جدِ اعلی نے سب کو یک جا کیااور ان سے کہا کہ زندہ رہنا ہے تو ہم کو منظم ہونا چاہیے۔چنانچہ بھوپال میں ایسے ہی ہوا۔کملا پتی جو بھوپال کے آخری راج پوت حکم راں کی بیوی تھی۔ اس کا شوہر ایک جنگ میں مارا گیاتواس رانی نے ہمارے جدِاعلی کو فوج کے سب سے اہم عہدے پر مامور کیا۔رانی کے کتنے ہی قرابت دار اِس جنگ میں مارے گئے تھے تو اس نے ہمارے جدِ اعلی کے ہاتھ پر راکھی باندھی اور کہا کہ آج سے آپ میرے بھائی ہیں۔اس کا بیٹا ابھی بہت چھوٹا تھا۔ رانی نے کہا۔’’ میرا بیٹا فنِ حرب سے ابھی ناآشنا ہے۔آپ اسے مکمل فنِ حرب اور حکمرانی کے طور طریقے سکھائیں گے اور اس کی دیکھ بھال کریں گے‘‘۔رانی یہ سب کہنے کے ایک دو دن بعد خود سَتی ہو گئی۔وہ ایک تالاب میں اپنی چھ سات سہیلیوں کے ساتھ ڈوب مری۔ جدِ اعلی نے اس جگہ پر ان کی یادگار بنوائی تھی، جس کی دیکھ بھال اور تعمیر جاری رہی۔انہوں نے چار برس تک راج کمار کی خوب تربیت کی۔پھر وہ کسی مرض میں مبتلا ہوگیا۔ ایک ڈیڑھ مہینہ بیمار رہ کر چل بسا۔اسوقت تک انگریز ریاست میں آچکے تھے اورتمام ریاستیں انگریز کے ساتھ تعاون کر نے پر مجبور تھیں۔ انہوں نے جدِ اعلی سردار دوست محمد خاں کو ریاست کا نگران مقرر کر دیا۔ تین چار برس بعد ریاست کا نواب بنا کر گدی پر بٹھا دیا۔ اس طرح وہ ریاست کے باضابطہ حاکم بن گئے۔
ہمارے خاندان اور تمام پختون خاندانوں میں یہ طریقہ رائج تھاکہ مذہبی تعلیم کے بعد جب بچے اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے تھے تووہ ان سے خاندان کا شجرہ لکھواتے تھے اور ااس طرح انہیں ازبر کرا دیتے تھے۔وہ شجرہ چالیس پچاس نسلوں پر محیط ہوتا تھا۔بزرگ بچوں سے پوری سو کاپیاں بنواتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ اس سے تمہارا خط بھی ٹھیک رہے گااور یہ بھی یاد رہے گا کہ ہم سپاہی لوگ تھے،ہم افغانستان اور صوبہ سرحد سے آئے تھے اور بھوپال ریاست کے حاکم بنے تھے۔
تو یہ ہماری تربیت کا پہلا سال تھا۔جنگِ عظیم دوم یعنی ۱۹۳۹ء سے پہلے ہمیں نام وغیرہ لکھنا آگیا تھا۔اس کے بعد ہم سب کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی۔شجرہ نسب لکھنا کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی تھی۔ بھوپال میں ہر پٹھان کے پاس ایک صندوق شجروں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔شجرے میں ہربات بے کم و کاست لکھی جاتی تھی۔اگر ہمارے خاندان میں کوئی سرکار کا باغی یا کوئی ٹھگ گزرا ہے، تو ہمارے دادا ہتے تھے ، اسکا پورا نام لکھو، فاضل خان باغی یا عادل خان ٹھگ۔ یہ سن کر ہم ہنستے تھے،تو وہ ہمیں ڈانٹتے تھے کہ نالائق ہنسو نہیں۔ یہ مقامِ عبرت ہے کہ اپنے ہی گدی نشینوں نے کس طرح ہمیں بے توقیر کیا۔ اپنے نافرمان قرابت داروں کو ٹھگ مشہور کیا۔ ہم نے اپنے خاندان میں شامل تمام لوگوں کے مناصب اور مراتب نہ صرف تحریر کیے بلکہ انہیں ہمیشہ یاد بھی رکھا۔شجرے میں بہت سے اہم واقعات بھی درج کیے جاتے تھے۔مثال کے طور پر دادا نے مجھے بتایا کہ تم لوگ جس گھر میں پیدا ہوئے ہو، اسے انگریز کے خوشہ چینوں نے آگ لگا دی تھی۔کیوں کہ ہمارے جدِ اعلی میں سے ایک جرنیل نصرت محمد خاں نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت میں ایک بھیل جرنیل اور جھانسی کی رانی کا ساتھ دیا تھا۔ جب ان لوگوں کو انگریز کے ہاتھوں شکست ہوگئی، تو ہمارے بزرگ نصرت محمد خاں عرف کولے میاں نے بھوپال آکر اپنے اس گھر میں روپوشی اختیار کی ۔انگریزوں کو معلوم ہوا کہ وہ ہمارے خاندان سے تھا، تو انہوں نے یہ سب کیا۔ نصرت محمد خاں اپنے ساتھیوں کے ہم راہ فرار ہو گئے۔ گویا ہم ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ہمارے دادا بہت خوش ہو کر بتاتے تھے کہ تم اس گھر میں پیدا ہوئے تھے، جسے انگریز کے جوتے صاف کرنے والوں نے برباد کرنے کی کوشش کی تھی۔خاندان کو جو زمینیں ریاست کی طرف سے بطور عطیہ ملی تھیں، وہ تو ریاست نے پہلے ہی واپس لے لی تھیں۔ مگر جو زمینیں ہمارے دادا نے خریدی تھیں، وہ آخر تک خاندان کے پاس رہیں۔ان میں زیادہ تر اوبڑ کھابڑ زمینیں تھیں۔لوگوں نے دادا سے کہا کہ میاں تم ان اوبڑ کھابڑ زمینوں پر کیا کھیتی باڑی کرو گے؟۔دادا نے جواب دیا۔ کھیتی نہ سہی ،کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔دادا نے ان پر آم اور جامن کے درخت لگا دئے۔ان پھل دار درختوں کی وجہ سے دادا خوش حال ہوئے۔ریاست والے یہ سمجھتے تھے کہ زمینیں چھنوا دینے سے اور بے کار قسم کی زمینیں سنبھالے رکھنے سے کمال محمد خاں کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا۔مگر آم اور جامن کے درختوں سے دادا کو اچھی خاصی آمدنی ہونے لگی۔وہ ہر موسم میں درختوں کا ٹھیکہ من مانے پیسوں پر دیتے تھے۔دادا کا یہ کاروبار بہت چلا۔ دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔یہ اور اس طرح کے تمام چھوٹے بڑے واقعات میں نے اپنی کہانیوں میں لکھے۔کہیں تو یہ بیان کیا کہ ہم لوگوں نے یہ سب کچھ اپنے بزرگوں سے سنا ہے۔اور کہیں میں نے انہیں افسانے کی شکل دے کراپنے انداز سے تحریر کیاہے۔
سوال: کیا آپ کے خاندان میں کوئی شخص ادیب ہوا؟
اسد محمد خاں: ہمارے خاندان میں دو بزرگ شاعر ہوئے ہیں، نَثار بھی تھے، بعضوں نے نوشتیں بھی چھوڑی ہیں۔ ہمارے خاندان میں کوئی شخص افسانہ نگار نہیں ہوا۔ میں شاید اپنے خاندان میں پہلا کہانی کار ہوں۔ ہمارے والدمصور تھے اور انہوں نے پورٹریٹ بنانے میں نام پیدا کیا۔ انہوں نے ٹیگور اور نہرو کے پورٹریٹ بنائے۔انہیں بھوپال کے نواب نے مدعو کیا تھا تو انہوں نے نواب بھوپال کا بھی پورٹریٹ بنایا۔وہ ان کا کمرشل کام تھا۔انھوں نے قائدِاعظم کا بھی پورٹریٹ بنایا تھا، جس وقت وہ صرف محمد علی جناح ایڈووکیٹ تھے۔وہ اس دور میں بھوپال آئے تھے جب انہوں نے بھوپال ریاست ایک مقدمہ لڑا تھا۔ہمارے والد نے انہیں جب یہ تصویر پیش کی تو انہوں نے بہت خوش ہو کر تصویر پر آٹوگراف کیے تھے۔نواب بھوپال نے ہمارے والد کی فنی خدمات سے خوش ہو کر ایک قطعہِ زمین انہیں تحفتاً دیا تھا۔
ان دنوں بھوپال میں غزل کی شاعری کا دور تھا۔اور بیت بازی کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔سنجیدہ لوگ بیت بازی کو پسند نہیں کرتے تھے،مگر طرحی مشاعروں میں شرکت کو ایک طرح کا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔اسی دور میں ترقی پسند لکھنے والوں کا اثر بھوپال تک پہنچا۔تو اس کے بعد طرحی مشاعرے کو بھی فضول سمجھا جانے لگا۔ہم نے بھی کہا کہ ہم غزل ہی کیوں لکھیں، ہم نظمیں اور گیت لکھیں گے۔وہ ترقی پسندی کے عروج کا دور تھا۔ میں انٹر میڈیٹ کا اسٹوڈنٹ تھا اور حمیدیہ کالج میں پڑھتا تھا۔بھوپال میں ترقی پسندوں کی کانفرنس ہمارے ہی کالج میں منعقد ہوئی تھی۔ کرشن چندر اور ان کے بھائی مہندر ناتھ وہاں آئے تھے۔کرشن چندر ایک دو روز میں چلے گئے تھے مگر مہندرناتھ وہاں کئی روز تک ٹھہرے تھے۔بیشتر اسٹوڈنٹس انہیں ہر وقت گھیرے رہتے تھے۔ہم اپنے اسکول کے اولڈ بوائے احسن علی خاں اور ان کی منگیتر اختر جمال کو اپنا رہنما کہتے تھے اورسمجھتے تھے کہ یہ ہمارے موقف کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، اسے پروموٹ کر رہے ہیں۔یہ دونوں ترقی پسند تھے۔ان دنوں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد تھی۔ ایک صاحب اندور سے آئے تھے کامریڈ ڈانگے۔انہوں نے بھوپال میں کمیونسٹ پاٹی کی بنیاد رکھی تھی۔
ایک احتجاج میں ہم بھی دھر لئے گئے۔ اور سترہ دن حولات میں گزارنے پڑے۔ان کامریڈصاحب نے نواجوانوں کے بہت متاثر کیا تھا۔ہم ان کی باتیں بہت غور سے سنتے تھے۔ وہ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے۔انہوں نے کمیونزم پر بے شمار کتابیں پڑھی ہوئی تھیں۔ایک دوست نے مجھے بہت غور سے ان کی باتیں سنتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا۔ تم تو ان کی باتیں ایسے سنتے ہو جیسے یہ کوئی حدیث یا قرآن سنا رہے ہوں۔ ایسی باتیں سن کر ہم لوگ ہنستے تھے۔ہمارے خاندان والے ہمیں کہتے تھے کہ ہم تم سب کے ہاتھ پیر توڑ دیں گے۔تم لوگ ہنس کر ایک طرح سے قرآن کی توہین کررہے ہو۔ہم چونکہ کشادہ ذہن تھے، اس لیے ایسی مثالیں دینے والوں پر ہنستے تھے۔ اپنے دین اور اپنی تہذیب کا بہرحال ہم احترام کرتے تھے ۔ہم لوگ خود کو کامریڈ کہتے تھے اور اپنی میٹنگز چھپ کر کیا کرتے تھے۔کیوں کہ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی۔چار مرتبہ ہم نے اپنے گھر میں میٹنگز کروائیں۔پہلے صرف ہماری والدہ کو اس قصے کا پتہ تھا۔ وہ کچھ نہیں کہتی تھیں۔ جب والد کو پتہ چلا تو انہوں نے خوب سنائیں۔اور جب ہم گرفتار ہوگئے تو انہوں نے والدہ سے کہا۔’’ دیکھا!آپ اسے اگر اس وقت روکتیں، جب آپ کو یہ سب معلوم ہوا تھا۔ تو یہ خبیث یہ کام ہی نہ کرتا۔
اس نے گھر میں چار جلسے بھی کر لئے۔ اور اب کامریڈ اور لیڈر بن کر حوالات میں بند ہے۔‘‘ ہمارے ماموں( والدہ کے کزن) ڈی ایس پی تھے۔وہ ٹریننگ کے لیے بمبئی گئے ہوئے تھے۔وہاں حکومت ہمارے پولیس آفیسرز کو تربیت دے رہی تھی۔بھوپال سے ان کے پاس تار پر تار جارہا تھا کہ اسد کو پکڑ لیا ہے۔بمبئی جانے سے پہلے وہ ہماری والدہ کو بتا چکے تھے کہ آپا ، پولیس کے پاس اسد کے خلاف بہت موٹی فائل بن گئی ہے۔اور یہ کسی روز دھر لیا جائے گا۔جب ماموں بمبئی گئے تو جو قائم مقام پولیس افسر تھا، اس نے میری فائل کھول لی اور مجھے گرفتار کرلیا۔ثبوت کے طور پر میرے ہاتھ کا لکھاایک پوسٹران کے ہاتھ لگا تھا۔میری رہائی دو تین روز میں بھی ہوسکتی تھی ۔ کیوں کہ ماموں بمبئی سے مسلسل فون کر رہے تھے کہ یہ میرا انکوائری کیس ہے۔ اسد کو کیوں بند کیا ہوا ہے ، چھوڑ دو، میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ میرے ماموں کو ٹریننگ چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔مگرمیرے کسی طرح کا اعتراف نہ کرنے کی وجہ سے اور تفتیش کے دوران ذرا بھی تعاون نہ کرنے کی وجہ سے رہائی سترہ دن بعد ہوئی۔ دراصل وہ میرے تمام ساتھیوں کی گرفتاری چاہتے تھے اور میں سب کو پھنسانا نہیں چاہتا تھا۔پھر اچانک جب میری والدہ بیمار ہو کر ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہو گئیں، تو ماموں نے ایک ہیڈکانسٹیبل کو میرے پاس بھیجاکہ جاکر ان لیڈرصاحب سے کہو کہ آپ کی والدہ ہاسپٹل میں ہیں۔ ہیڈکانسٹیبل میرے پاس آیا اور اس نے مجھے یہ سب بتا یا اور اس کے بعدکہنے لگاکہ تم ایک معافی نامہ لکھ دو۔ میں بولتا جاتا ہوں۔یا تم خود ہی لکھ لو۔ والدہ کے اسپتال میں داخلے کا سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے معافی نامہ لکھ دیا۔
اس معافی نامے کے بعد اٹھارہ آدمی گرفتار ہوئے۔میری رہائی کے بعد کمیونسٹ پارٹی بھوپال والے میرے گھر پر پتھراؤ کرنے لگے۔ مجھے دھمکیاں ملنے لگیں کہ تمہیں دیکھ لیں گے۔ تم نے اپنے مقصدِعین سے غداری کی ہے۔تم نے پرولتاریہ سے غداری کی ہے۔ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں۔اسی وجہ سے مجھے پاکستان آنا پڑا۔کیوں کہ میرے خاندان کے لوگ بڑے لٹھ باز اور تلوار باز تھے۔ مجھے لگا کہ میری وجہ سے یہ دو تین لاشیں گرا دیں گے۔کسی نے کہا کہ خون دوسرے کریں گے مگر الزام تیرے سر آئے گااور پولیس تجھے پھر گرفتار کرلے گی۔
میرے بڑے بھائی اس وقت سیال کوٹ کے مَرے کالج میں پڑھ رہے تھے۔تو اس واقعے کے بعد میں پاکستان آگیا۔اگر میں نہ آتا تووہاں ایک دو کمیونسٹ مار دیے جاتے۔ وہ بھی بہت دور دور سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں مراٹھے بھی تھے۔سب یک زبان تھے کہ اس شخص نے ہمارے مقصد سے غداری کی ہے۔
خیر اب پڑھنے لکھنے کی سنیے ۔ میں انٹر میں پڑھ رہا تھا۔ جے جے اسکول آف آرٹ سے فری ہینڈ رائٹنگ میں ڈپلوما کیا تھا ۔(ایم۔ ایف۔ حسین بھی جے جے اسکول آف آرٹ کے فاضل تھے۔انہوں نے وہاں سے ماسٹرز کیا تھا۔ یہ ہمارے لیے بھی اعزاز کی بات تھی)۔ والد نے مجھ سے کہا؛ تمہارے سامنے دوراستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تم جے جے اسکول آف آرٹ سے باقاعدہ فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کرودوسری صورت یہ کہ پاکستان چلے جاؤ۔جے جے کی ڈگری لو گے تو تم کہیں بھی آرٹ ماسٹر لگ جاؤ گے۔
میرے والد نے ٹیگور کے شانتی نکیتن سے ڈپلوما کیا تھا۔والد صاحب نے جب ٹیگور کے ادارے میں داخلہ لیا تھا تو ہمارے دادا کے ایک ہندو دوست نے ان کو ورغلایا کہ ٹیگور تو ناستک ( لادین) ہے۔ وہ تمہارے بیٹے کو بھی اپنے جیسا بنا دے گا۔یہ سن کر دادا نے فوراً والد کو تار بھیجااور والد بھوپال آگئے۔دادا نے انہیں روک لیا کہ اب تم وہاں نہیں جاؤ گے۔میرے والد کبھی کبھی یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ انہوں نے شانتی نکیتن میں صرف چھ مہینے ہی گزارے تھے۔وہ وہاں کم سے کم چار سال گزارنا چاہتے تھے۔
بھوپال میں ہر سال جے جے اسکول آف آرٹ کے امتحان ہوتے تھے۔ان کا ایک آدمی پیپر لے کر آتا تھا۔وہ ہم سب کے سامنے پیپر کی سیل کھولتا تھا۔وہی ممتحن ہوتا تھا۔ بھوپال کے اسکولوں سے ساٹھ ستر لڑکے آئے تھے۔جو لڑکا امتحان پاس کرلیتا تھا۔اسے جے جے اسکول آف آرٹ سے سرٹیفیکیٹ ملتا تھا۔ایک امتحان میں، میں صرف پاس ہوا ، جب کہ دوسرے میں فرسٹ آیا تھا کیوں کہ میرے والد نے خوب محنت کروائی تھی۔والد صاحب پورٹریٹ بنا نے کے ماہر تھے۔
جب میں ۱۹۵۰ء میں لاہور آیاتو وہاں سے ایک اخبار روزنامہ احسان نکلتا تھا۔ مجھے اس میں کارٹونسٹ کی جاب مل گئی۔دو سو روپے تنخواہ تھی۔اخبار کے ایڈیٹر مجھے کہتے تھے کہ روز ایک کارٹون بناؤ۔احسان کے ایڈیٹر کا تعلق بھوپال سے تھا۔ وہ میرے والد کو جانتے تھے۔ میں نے شروع میں کارٹون بنائے لیکن میں بہت سست رفتار تھا۔ایڈیٹر نے مجھ سے کہا ۔کوئی بات نہیں۔ ہفتے میں دو کارٹون بناؤ۔انہوں نے میرے لیے گنجائش نکالی۔لیکن وہ کام مجھ سے نہیں چلا۔ میں نے وہاں جیسے تیسے دو سال نکالے۔میں نے ایک روز ان سے پوری ایمان داری سے کہا۔ میں دو سے زیادہ کارٹون نہیں بنا سکتا۔ آپ میری وجہ سے اپنے لئے مشکل پیدا نہ کیجیے۔اس لیے میں لاہور چھوڑ کر کراچی جا رہا ہوں۔
دراصل میں آزاد رہنا چاہتا تھا۔کراچی آنے کے بعد مجھے وہ آزادی میسر آئی تو میں نے نظمیں کہنی شروع کیں۔اور اس کے بعد کہانیاں لکھنی شروع کیں۔
سوال: آپ نے ادب پڑھنا اور لکھنا کب اور کیسے شروع کیا؟ابتدا میں کن لوگوں سے متاثر ہوئے۔؟مطالعے میں آپ کے پسندیدہ موضوعات کیا رہے؟
اسد محمد خاں: میں اسکول میں جب نویں جماعت کا طالب علم تھا تو میں نے لکھنا شروع کردیا تھا۔میں نے اپنے اسکول میگزین میں دو مضامین لکھے۔ایک اپنے ہم جماعت کا مزاحیہ خاکہ لکھاتھا۔ وہ ہم سے عمر میں چھ سات سال بڑے تھے اوربہت طویل قامت تھے۔جب وہ خاکہ چھپا تو کچھ لوگوں نے کلاس فیلو کو اکسایا کہ اسد نے تمہارا مذاق اڑایا ہے۔ اسے مارو۔میرے والد اسی اسکول میں پڑھاتے تھے۔جب انہیں معلوم ہوا تو انہوں نے کلاس فیلو کو بلایا اور پوچھا کہ تم اس کے پیچھے کیوں پڑے ہو۔ اس نے بتایا کے اسد نے میرا مذاق اڑایا ہے۔ والد نے کہا۔ خاکہ کہاں ہے ، مجھے دکھاؤ۔اس نے دکھایا۔والد صاحب نے کہا کہ بیٹا وہ صرف ایک خاکہ ہے۔جو کسی شخصیت پر لکھا جاتا ہے۔تمہا رے اندر جو بھلی باتیں ہیں جیسے تم جھوٹ کبھی نہیں بولتے، چاہے ماسٹر سے پٹ کیوں نہ جاؤ۔اسد نے وہ بھی لکھا ہے۔ تم جب غصہ ہوتے ہو تو آدمی کے پیچھے بھاگتے ہو، لیکن تمہاری دوڑ اچھی نہیں ہے، اس لئے وہ آدمی تم سے نکل جا تا ہے۔۔۔تو پھر تمہارا غصہ ختم ہو جاتا ہے۔اس پر وہ کہنے لگے مجھے لڑکوں نے اکسایا ہے۔۔۔ میں ان سب کے دماغ ٹھیک کردوں گا ۔ اب مجھے اسد سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔وہ بے حد سادہ دل آدمی تھے۔بعد میں والد صاحب نے یہ ساری بات مجھے بتائی کہ انہوں سے اسے سمجھا دیا ہے۔وہ خاکہ اب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
بھوپال میں ان دنوں ترقی پسند ی کی تحریک زوروں پر چل رہی تھی۔ وہ لوگ ہمیں بھی بلاتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ ان کی میٹنگ میں ایک انقلابی مضمون پڑھاتھا جو بعد میں پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ جوظالموں ، سرمایہ داروں اور حاکموں کے خلاف اور مظلوموں، مزدوروں اور محکوموں کے حق میں تھا۔ میں نے اس میں انقلاب کی نوید سناتے ہوئے مزدوروں سے یک جہتی کا اظہار کیا تھا۔ترقی پسندوں نے اس مضمون کی بہت تعریفیں کیں۔بعد میں ایک بزرگ جو ایک مقامی اخبار سے وابستہ تھے،انہوں نے مجھ سے کہا۔’’ میاں! یہ ترقی پسندی کی ایک لہر ہے، جس میں سب چل پڑے ہیں۔تم ان سے سیکھولیکن تم ان کے مسلک کی تبلیغ نہ کرو۔‘‘ انہوں نے مجھے بہت سے ادیبوں کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ ایک ادیب کی کمٹ منٹ ادب سے ہونی چاہیے۔کسی آئیڈیالوجی یا نظریے سے نہیں ہونی چاہیے۔آپ اگر اپنے دین کی تبلیغ کر رہے ہیں تو جان لیں کہ وہ ایک الگ شعبہ ہے۔آپ بے شک کتابیں لکھیے ۔میں نے ان سے کہا کہ میں آزاد رہنا چاہتا ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ آزاد رہنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے کمیونسٹ بھائیوں کو خدا حافظ کہیے۔اگر مسلم لیگ والے آئیں تو ان سے بھی کہیے کہ آپ کی تحریک بہت اچھی ہے لیکن میں آپ کے حق میں کچھ نہیں لکھوں گا۔
وہ صاحب بہت لائق و فائق تھے۔انہوں نے مجھے سمجھایا کہ کمٹ منٹ لکھے ہوئے لفظ سے ہونی چاہیے، کسی تحریک سے نہیں۔وہ کہتے تھے، اپنا الگ اسلوب وضع کرنے کی کوشش کرو، جو رفتہ رفتہ تمہاری دسترس میں آئے۔ جسے پڑھ کر لوگ کہیں کہ یہ اسد کا اسلوب ہے۔اگر تم کسی مشہور ادیب کے اسلوب میں لکھو گے تو لوگ کہیں کے یہ تمہارا نہیں بلکہ اس کا اسلوب اور اس کا بیانیہ ہے۔تم ان تمام چیزوں سے اٹھ کر، دردمندی سے ، انسانی سطح پرکسی بھی مسئلے کو سوچواور اسے اپنے طور پر بیان کرو۔تو وہ تمہاری اپنی لکھت ہوگی۔ان کا یہ بر وقت مشورہ میرے بہت کام آیا۔اس کے بعد میں نے ایک افسانہ لکھا اور اسے بنگلور سے محمود ایاز کی ادارت میں نکلنے والے ادبی جریدے سوغات میں چھپنے کے لئے بھیجا۔میراپہلا افسانہ سوغات میں چھپا۔وہ اسی طرح کا تھا جیسے افسانے اس وقت لکھے جا رہے تھے۔بہت بعد میں یعنی ۱۹۸۲ء میں میں نے اپنے پیسے جمع کرکے اپنی پہلی کتاب چھپوائی۔اس کا نام تھا ’’ کھڑکی بھر آسمان‘‘۔ اس میں تیرہ افسانے تھے۔اور نظمیں بھی شامل تھیں۔
سوال: آپ کے بارے میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ آپ نے ادب میں اپنا آغاز شاعری سے کیا تھا۔ آپ نے شاعر کے طور پر شہرت بھی حاصل کرلی تھی۔پھرآپ اچانک شاعری چھوڑ کر افسانے کی طرف آگئے۔کیا یہ درست ہے؟
اسد محمد خاں: جی یہ بالکل صحیح ہے۔میرے پہلے مجموعے کھڑکی بھر آسمان میں کوئی چالیس بیالیس نظمیں شامل ہیں اور تیرہ افسانے بھی ہیں۔میں پہلے نظم کہتا تھا اور گیت لکھتا تھا۔غزل میں نے آج تک نہیں کہی۔ہاں ایک مرتبہ ایک غزل کہی تھی۔اطہر نفیس ہمارے بہت پیارے دوست تھے۔وہ کہنے لگے کہ سب لوگ کہتے ہیں کہ اسد غزل نہیں کہتا۔ایک طرحی مشاعرہ ہونے والا ہے، جس کے لیے مصرعہ دیا گیا ہے:لختِ جگرِ حیدرِ کرار ہیں بابا۔(یہ مصرعہ یوسف شاہ کی غزل کا تھا ۔جو اطہر نفیس کے پیرومرشد تھے)۔اطہر بھائی نے کہا، تم غزل کہو۔ ساقی نے کہا کہ اگر تم نے غزل نہ کہی تو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ خیر،میں نے ایک غزل کہی۔ غزل بھی گیت جیسی ہی تھی۔’’ دنیا تو سمٹتی ہوئی بے رنگ کلی ہے۔پر آپ کمل روپ ہیں، مہکار ہیں، بابا۔‘‘ اطہر نفیس یہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔ کہنے لگے کہ یار تو نے تو کمال کر دیا۔میں نے کہا۔ ساقی نے دھمکی دی تھی ، جان تو بہر حال بچانی تھی۔وہ بہت ہنسے۔
سوال: شاعری کا تجربہ کیسا رہا؟
اسد محمد خاں: شاعری کا تجربہ تو بہت اچھا رہا۔ لیکن میری دو کہانیاں ’’ مئی دادا‘‘ اور’’ باسودے کی مریم ‘‘ایسی بھری ہو ئی آئی تھیں کہ لوگوں نے کہا کہ اب آپ کو زیادہ تر افسانہ لکھنا چاہیے۔
سوال: آپ کے گیتوں کی وجہِ شہرت کیا تھی؟
اسد محمد خاں: اس زمانے میں گیتوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ کل سات یا آٹھ گیت کہے تھے۔’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ راگ درباری میں تھا۔جب کہ ایک نظم بھی بہت مشہور ہوئی تھی۔’’ میں وندھیا چل کی آتما ‘‘ ۔ میں اسے اپنے انداز میں ترنم سے پڑھتا تھا۔ میں نے اس نظم میں اپنی زاد بھوم بھوپال کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔شروع شروع میں اٹھارہ اٹھارہ سال وہاں جانا نہیں ہوتا تھا۔اس دوری نے مجھ سے ایسی نظمیں گیت لکھونے میں زیادہ کردار ادا کیا۔ایسا نہیں تھا کہ یہا ں اپنے وطن میں مجھے کوئی تکلیف تھی۔ یہاں میرے پاس کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ایک بہت اچھی جاب تھی۔ کام کے دوران وہاں وقت ملا تو میرا پڑھنا لکھنا بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ کمرشل کام بھی بہت ملنے لگا تھا۔مثلاً ریڈیو اور ٹی وی کے لیے۔ٹی وی پر مدبر رضوی، عبیداللہ علیم اور افتخار عارف تھے۔ وہ دوست فرمائش کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا تھا تم میرے دوست ہو ۔تم اگر چاہتے ہو کہ میں لکھوں تو ٹھیک ہے میں ضرور لکھوں گا۔افتخار عارف نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ نہ کچھ لکھ کر ہمیں دیتے رہو۔خیال گائیکی کے ایک استادٹی وی میں موجود تھے۔استاد عاشق علی خاں ۔وہ اصرار کرکے کہہ کہہ کے راگوں پر لکھواتے رہے۔ اس زمانے میں ۵۰یا ۵۲ گیتوں کا ایک مجموعہ طبع ہوا۔ ویسے کل دو ڈھائی سو گیت نظمیں لکھیں۔
سوال: آپ کے ایک افسانے ’’ ہے للا للا ‘‘ میں جس عاشق علی خاں کا ذکر ہے ، کہیں یہ وہی تو نہیں؟
اسد محمد خاں : جی ہاں۔ وہی ہیں۔وہ جینوئن آدمی تھے۔افسروں سے کہتے تھے کہ اگر آپ لوگ مجھے ٹی وی پر کام نہیں دے رہے توہمیں فارغ کر دو۔ کیوں کہ باہر کتنے ہی لوگ ہیں جو ہم سے کام کروانا چاہتے ہیں۔استاد عاشق علی خاں نیپئیر روڈ کے بدنام محلے میں کسی پلازا کی چھت پر چھپر ڈال کے رہتے تھے۔وہ بہت ہی باکمال، درویش مزاج آدمی تھے۔ میں ایک دوست کے ہم راہ ان کے گھر بھی گیا تھا۔ہم وہاں جا کر لرز کر رہ گئے تھے۔بچیاں ان کی بہت چھوٹی تھیں، گھر سے پڑھنے کو نکلتیں تو لمبے برقعوں میں ملفوف ہو کے نکلتی تھیں۔مگر وہ کیا کرتے، اس کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں تھی ۔اس محلے میں وہ راگ داری تعلیم دینے کی ٹیوشن دیتے تھے۔ عاشق علی خاں کراچی میں خیال گائیکی کے دو بے مثال گانے والوں میں سے ایک تھے۔اس وقت پورے پاکستان میں صرف چار یا پانچ لوگ ہی خیال گا سکتے تھے۔ وہ بہت درد مند آدمی ، بہت ہی محبت کرنے والے انسان تھے۔خدا مغفرت کرے۔
میں نے ٹی وی کے لئے کام کرتے ہو ئے بہت کچھ سیکھا اور وہاں بہت اچھے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔عبیدللہ علیم تو پرانا دوست تھا،اس نے میری بہت ہمت بڑھائی اور کہا۔ اسد بھائی، ٹی وی کے لیے بھی لکھتے رہو۔اور گیتوں سے زیادہ توجہ اپنی کہانیوں پر دو۔ ابھی تم نے دو کہانیاں لکھی ہیں، پانچ چھ، پچاس، ساٹھ، سو اور لکھو۔تو ان سب دوستوں نے فکشن لکھنے کے لئے اصرار کیا ،حوصلہ بڑھایا۔
سوال: تو کیا آپ کی گیت نگاری اور نظم گوئی کا اثر آپ کے افسانوں پر بھی ہوا؟
اسد محمد خاں: جی ہاں۔ جیسے میں نے عاشق علی خاں پر افسانہ لکھا تھا۔ان کی درد مندی اور جس عذاب سے وہ گزر رہے تھے، اس کا ذکر کیا تھا۔ ان کا خاتمہ بہت ہی الم ناک صورتِ حال میں ہوا تھا۔ سوائے آواز کا فن( راگ درباری) سکھانے کے ان کے پاس روزی کمانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔
سوال: آپ کے خیال میں ریڈیو اورٹی وی کے ڈراموں میں کہانی کہنے اور کرداروں کے ٹریٹ منٹ اور تکنیک میں کیا فرق ہے؟
اسد محمد خاں: ریڈیو اور ٹی وی کے فرق کو میں زمانوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں۔ایک وہ ریڈیو تھا جس میں یاورمہدی جیسے کمیٹیڈ آدمی کام کرتے تھے۔ایک ایسے آدمی جن کی علم و ادب اور فنون پر مضبوط گرفت تھی۔انہوں نے ڈھیروں کتابیں پڑھ رکھی تھیں، جو بے گنتی کلاکاروں کے کام کو سمجھتے تھے۔ پھر ریڈیوپرحمید نسیم صاحب تھے۔ قمر جمیل صاحب تھے۔قمر صاحب نے مجھے ریڈیو سے ٹی وی کی طرف جانے کے لیے کہاتھا۔ وہ کہتے تھے،تم ریڈیو پر خاکے لکھنا چھوڑواور ٹی وی کوڈرامہ لکھ کر دو۔ اور ایسا ڈرامہ لکھوکہ لاہور سے تمہیں فون آئے کہ ہم ان صاحب کو شایع کرنا چاہتے ہیں۔اور ہوا بھی ایسے ہی۔انہوں نے کہاکہ ڈرامے کے لیے منفرد موضوع منتخب کرو اور اسے سرسری طور پر نہیں بلکہ مفصل انداز میں تحریر کرو۔تا کہ سب کو معلوم ہو کہ یہ اسد محمد خاں کا تحریر کردہ ڈرامہ ہے۔وہ ڈرامہ کاغذ پر بھی لوگوں کو اچھا لگے اور جب ان کی سماعتوں تک پہنچے تب بھی انہیں بھلا لگے۔میں قمر جمیل صاحب کا احسان مند ہوں کہ وہ مجھے خاکے لکھنے سے ہٹا کر ڈرامے کی طرف لائے۔انہوں نے یہ بھی سمجھایا کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی کی فرمائش پوری کرو۔یہ وہی دور تھا جب میں نے اپنے اولین افسانے ’’ مئی دادا‘‘ اور ’’باسودے کی مریم ‘‘لکھے تھے۔ قمر جمیل وہ افسانے پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔وہ برابر مجھے افسانے لکھنے کی طرف راغب کرتے رہے۔
سوال: آپ کے پہلے شعری مجموعے کا کیا نام تھا؟
اسد محمد خاں: میرے پہلے شعری مجموعے کا نام تھا ’’ رکے ہوئے ساون‘‘۔اس میں گیت، آزاد نظمیں اور نثری نظمیں شامل تھیں۔اس میں نثری نظمیں کم کم تھیں کیوں کہ میرا رجحان گیت نگاری کی طرف زیادہ تھا۔میری آزاد نظموں میں بھی گیت کا سا ترنم ہوتا تھا۔نثری نظم میں میرے بعد ذی شان ساحل اور افضال احمد سیدنے بے حد قابلِ ذکر کام کیا ہے۔ میں نے ان کا ذکر اپنی ایک نثری نظم میں بھی کیا ہے۔ ان دونوں شاعروں کی اٹھان بہت شان دار تھی، انہوں نے بعد میں اپنے آپ کو جس طرح منوایا، سب جانتے ہیں۔
سوال: آپ نے اپنا پہلا افسانہ کب لکھا اور کون سا؟
اسد محمد خاں: ’’ باسودے کی مریم‘‘ میرا پہلا افسانہ تھا۔اسے لکھتے ہوئے میں یہ سمجھ رہا تھا کہ میں اپنی یادداشتیں یا خاکہ لکھ رہا ہوں۔وہ ایک زندہ کردار تھا۔انہوں نے ہماری اور ہماری بہنوں کی پرورش میں ہاتھ بٹایا۔انہیں ہمارے گھر والے مریم بوا کہتے تھے۔ وہ وسطِ ہند کے علاقے باسودے کی رہنے والی تھیں۔میرے پاس ان کے نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا تھا کہ ان پر خاکہ سا لکھوں گا۔وہ ایک افسانے کی شکل اختیار کر گیا۔یہ میری پہلی کہانی تھی جو میں نے قمر جمیل کے کہنے پر لکھی تھی۔ جب انہیں دکھائی تو انہوں نے کہا بہت اچھا افسانہ ہے ۔تم اسے سوغات کو بھیجو۔’’ مئی دادا‘‘ بھی ان کے کہنے پر لکھا۔ یہ بھی ایک حقیقی کردار تھا۔ان کا اصل نام عبدالمجید خاں تھا۔
سوال: آپ نے جس دور میں افسانہ نگاری شروع کی، تب اردو افسانے کے افق پر علامت اور تجرید کا راج تھا؟ اور کہانی گم ہوجانے کا غوغا برپا تھا۔ اس صورتِ حال میں آپ نے حقیقت پسند افسانے ہی کیوں لکھے؟
اسد محمد خاں: میرے ان دو مشہور افسانوں کے بعد میرے جتنے افسانے بھی آئے،ان کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔میں نے عالمی ادب میں علامتی شاعری اور علامتی افسانے کو تلاش کر کے اس طرح پڑھا تھا جس طرح کوئی ہفتوں کا بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ تاہم مجھے گمان سا رہتا تھا کہ یہ کسی طرح کا ’’ گِمِک‘‘ ہوسکتاہے جو چل رہاہے۔مغرب دھیرے دھیرے story tellingسے دور ہو رہا تھا۔کیوں کہ کہانی کے اس پہلو سے بے زار ی بڑھتی جا رہی تھی۔کیوں کہ ان کے ہاں فلم کا بہت طاقت ور میڈیم آچکا تھا،اور ٹی وی بھی آچکا تھا۔انہیں روز ایک نئی پروڈکشن کی طلب ہو نے لگی۔یہ بے زاری دھیرے دھیرے ان کے ہاں نافذ ہوئی اور بعد میں ختم ہو گئی۔
ہماری اردوایک کھِلتی ہوئی، وقت کے ساتھ اجلتی ہوئی زبان ہے۔افسانے میں اردو نے زبر دست طریقے سے قدم جمایا۔پریم چند سے انور سجاد تک ایک سے بڑھ کر ایک شان دار افسانہ نگار اردو کے افق پر نمودار ہوئے۔منفرد افسانہ نگار بلراج مین را کا افسانے کے ساتھ کمٹ منٹ قابلِ تقلید ہے۔ تاہم ایک گڑبڑ چلتی رہتی ہے جب کوئی تخلیق کار کچھ دریافت کرتا ہے تو وہ اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ بلراج مین را کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے آپ کو اردو کا سب سے بڑا آدمی سمجھنے لگا تھا۔میں نے اسے سمجھایا کہ یہ بات دوسرے لوگ کہیں گے۔تم یہ مت کہا کرو۔وہ کہنے لگا کہ یار توُ میرا کام تو دیکھ۔میں نے کہا کہ خدا کرے تو ایسا ہی کام کرتا رہے۔ اور رہی عظمت تو اس کا پتہ بعد میں چلے گا بیٹا۔ معلوم نہیں میری اس بات کا کچھ اثر اس پرہوا بھی یا نہیں۔دراصل اس دور میں علامت اور تجرید کے ڈھول بج رہے تھے۔انور سجاد اور مین را اِسے خوب بڑھاوا دے رہے تھے۔بلراج مین را دو مرتبہ پاکستان آیا اور انور سجاد کے ہاں لاہور میں ٹھہرا۔ انہوں نے اسے اس کا پشتینی گھر بھی دکھایا۔ہم چاہتے تھے کہ وہ اس طرح آئے جس طرح بڑے لوگ آتے ہیں۔’’ بڑے لوگ‘‘یعنی منشی پریم چند کی طرح منکسرالمزاج۔۔۔ تکبر کے ڈھول تاشے بجاتے گزرنے والے نہیں۔
سوال: آپ کی کتاب ’’ کھڑکی بھر آسمان ‘‘ کی اشاعت پر ادبی حلقوں کی جانب کیسا رد عمل سامنے آیا؟
اسد محمد خاں: اسے پذیرائی ملی تھی۔بہت پسند کیا گیا تھا۔اس کتاب کی خصوصیت یہ تھی کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ افسانے اور نظمیں ایک کتاب میں یک جا کردی گئی تھیں۔چونکہ وہ کتاب میں خود شایع کر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ نظموں کے لئے الگ سے مجموعہ کیوں شایع کروں۔اس میں تیرہ افسانے اور چالیس بیالیس نظمیں ایک ساتھ چھپیں۔اس کتاب کی رقم ہماری بیگم نے گھر گرہستی سے روپے بچا کر ہمیں فراہم کی تھی۔یعنی فی الاصل ہماری پہلی کتاب کی پبلشر ہماری بیگم تھیں۔یہ ۱۹۸۲ء کا واقعہ ہے۔اس سے اگلا افسانوی مجموعہ ’’ برجِ خموشاں‘‘ ۱۹۹۰ء میں شایع ہوا۔یہ بھی’’ کھڑکی بھر آسمان‘‘ کی طرح اپنے وسائل سے شایع کیا گیا۔
سوال: آپ نے ’’ کھڑکی بھر آسمان‘‘ میں ’’ منشور‘‘ نامی ایک تحریرمیں دعوی کیا تھا۔’’ادب صرف اپنے آمروں کو پہچانتا ہے اور میں بڑی بے شرمی کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ میں بھی اپنی ایک چھوٹی سی قلم روتراش کر اس کی حدوں میں اپنا حکم نافذ کرنے آیا ہوں۔‘‘آپ کو کم و بیش چالیس پچاس برس ہوگئے لکھتے ہوئے۔اب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی قلم رو تراش سکے یا نہیں تراش سکے؟
اسد محمد خاں: وہ دعوی تو ایک نوجوان ذہن کی پیداوار تھا۔میں تو صرف اتنا چاہتا تھا کہ مجھے اردو افسانے کے حوالے سے پہچانا جائے۔بس اتنا کافی ہے۔ دیکھیے’’ قلم رو ‘‘تو تراشی تھی منٹو صاحب نے۔ایک عمر گزارنے کے بعد یہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ منٹو صاحب اپنی زندگی میں کمرشل کام بھی کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ڈھائی سو فلمیں لکھیں، وا للہ علم۔اور ریڈیو کے لئے بھی وہ لکھتے رہے۔اس لئے کہ یہ ایک ہی کام انہیں آتا تھا۔اردو میں کہانی کہنا۔یہ کام انہوں نے بہت سلیقے سے کیا ۔میرا مسئلہ بھی یہی تھا۔والد صاحب نے مجھے انجینئر بنانے کی کوشش کی۔میں سب گڑبڑ کرکے بیٹھ گیا۔ میرا شعبہ فائن آرٹس کا تھا۔میں اگر جے۔ جے۔ اسکول سے ڈگری حاصل کرلیتا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔یہاں مجھے کتنے ہی لوگوں نے کہا کہ اگر تمہارے پاس جے جے اسکول کی ڈگری ہوتی،تو ہم تمہیں بڑی نوکری پر لگوادیتے۔ میں کہتا، میرے پاس سرٹیفیکیٹ ہے۔وہ کہتے نہیں۔
اگر تمہارے پاس ڈگری ہوتی تو تمہیں کسی اشتہاری کمپنی میں لگوا دیتے۔اس زمانے میں بہت تنخواہ بھی ملتی۔میں نے اپنے لیے یہ راستہ خود تلاش کیاکہ جہاں مجھے مکمل آزادی ہو۔ میں جو چاہوں آزادی سے لکھ سکوں۔کراچی پورٹ ٹرسٹ نے مجھے یہ سہولت دے دی۔وہاں ملازمت شروع کرنے کے بعد جب ان لوگوں کو یہ معلوم ہواکہ میں ادیب شاعر ہوں اور میں نے گیت ’’ انوکھا لاڈلا‘‘ لکھا ہے! وہ حیران ہوئے کہ یہ تم نے لکھا ہے۔بھئی ہمیں تم سے ایسی اور چیزیں چاہئیں۔ہمارے افسر نے چیف انسپیکٹر سے بلا کر کہاکہ یہ جو سپروائزر ہے اسد محمد خاں۔ان سے کوئی کام نہیں لینا ہے۔اس لیے کہ یہ تو قومی کام کر رہے ہیں۔صابر صاحب ان کا نام تھا۔وہ بڑے افسر تھے۔انہوں نے مجھے یہ سہولت دے دی۔انہوں نے کہا کہ دیکھیے اِدھرکا کام تو ہوتا رہے گا۔ان کی وجہ سے میں ۱۹۹۳ء تک یعنی اپنی ریٹائرمنٹ تک کے پی ٹی کی سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کے کام بھی کرتا رہا۔ کمرشل کام کا پوچھتے ہیں تومیں نے کل سات آٹھ سیریل لکھے ہوں گے۔ مجھے تو ان کے نام بھی یاد نہیں رہے۔ ہاں سنجیدہ کام جو میں نے کیا۔ اس کے بارے میں ادب پڑھنے اور تحقیق کرنے والے جانتے ہوں گے کہ اسد محمد خاں اپنی قلم رو تراش سکا یا بس کاغذ کالے کرتا رہا۔