روزگار کی مہارتیں اور ہماری تعلیم
از، عرفانہ یاسر
تعلیم شعور دیتی ہے؛ شخصیت کی تعمیر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر اس کی ایک معاشی جہت بھی ہے۔ کسی حاصل کردہ تعلیم کے اندر افراد میں معاشی خود کفالت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بدرجہ اتم موجود ہونا چاہئے۔ پاکستان میں زیادہ تعداد میں تعلیم حاصل کرتے بچوں کو یہ ہی پتا نہیں ہوتا کہ انہوں نے کس مضمون کو پڑھنا ہے اور کس کو نہیں۔ جب کسی چھوٹے بچے سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنےگا؟ تو جواب آتا ہے ڈاکٹر یا انجینئر: جس کوڈاکٹر نہیں بننا ہوتا، اس کو استاد یا پائلٹ بننے کا شوق ہوتا ہے۔ جو بچہ تھوڑا ذہین ہوتا اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ اس نے تو مقابلے کا امتحان پاس کرنا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا طالب علم بڑے کینوس پر سوچنے کے قابل ہی نہیں بنایا جاتا۔ نتیجتا ان زیادہ تر افراد کا تعلیم کا سلسلہ اس بات سے جڑا ہوتا ہے کہ ایک جماعت سے دوسری میں کیسے جایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ کون کون سے مضامین پڑھے جا سکتے ہیں نہ ہی طلباء کو پتا ہوتا ہے، نہ ہی استاد کو اور نہ ہی والدین کو۔ اسی طرح پرائیویٹ طور پر جو سٹوڈنٹس پڑھتے ہیں جہاں ان کو یہ کو فائدہ ہوتا ہے کہ وہ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، وہیں اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان سٹوڈنٹس کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ جس مضمون میں وہ ڈگری حاصل کر رہے ہیں کیا اس کے ہوتے ہوئے ان کو کوئی نوکری مل سکے گی۔ یا مضمون کو پڑھنے کے بعد ان کے پاس کون سا ایسا ہنر آئے گا کہ وہ نوکری کر سکیں گے۔
اس کا ایک اور اہم ذیلی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر نوجوان ایف اے، بی اے اور ایم اے کے بعد مناسب روزگار حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ ڈگری والے ڈگری لینے کے بعد خدا اور سرکاری نوکری کی طرف آس لگائے بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں افراد و خواتین کی رسمی تعلیم اگر اس طرح کی ہوتی کہ جس میں انہیں روزگار کے قابل بنانے کی بنیادی تربیتیں اور مہارتیں میسر ہوں تو یہ اپنے اور ملکی معیشت کے لئے زیادہ بہتر اور مفید کام سر انجام دے سکتے ہیں۔
اس چیزکومد نظر رکھتے ہوئے جہاں وفاقی حکوت نے ہر ضلع میں یونیورسٹی کے قیام یا یونیورسٹی کے سب کیمپس کا منصوبہ شروع کیا ہے جس سے دوردارز علاقوں میں رہنے والے بھی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر سکیں گے۔۔اور ایسے مضامین میں پڑھ سکیں گے جن کو پڑھنے کے بعد ان کو نوکری بھی مل سکے گی۔ وہیں حال ہی میں ہونے والی سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاس میں ایک ایسا منصوبہ منظور کیا گیا ہے جس میں وہ تمام لوگ جن کے پاس ڈگری تو ہے لیکن سمت نہین ہے ان کو سمت ملے گی۔ یاد رہے کہ سی ڈی ڈبلیو پی یا سینٹرل ڈویلیپمنٹ ورکنگ پارٹی ایک ایسا فورم ہے جس میں پورے ملک سے مختلف منصوبے منظور ہونے کے لئے آتے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اس منصوبے کے تحت تاریخ ، اردو، عربی، اسلامیات اور مختلف زبانوں میں ڈگری ہولڈرز کو مارکیٹ کی ملازمتوں کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ایسے کورسز کروائے جائیں گے جن سے ان کو آسانی سے نوکری مل سکنے کے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ان کی فعالیت سے کوئی کام سر انجام دینے کی صلاحیت میں بڑھوتری ہوگی۔
اس مقصد کے لئے ان کو مختلف مینجمنٹ سائنسز اور سکل ڈویلپمنٹ کے کورسز کروائے جائیں گے۔ ایچ ای سی نے پانچ یونیورسٹیز کے ساتھ مل کر ایسا کورس ڈیزائن کیا ہے جس سے ان کوسکھانے میں مدد ملے گی۔ ان اداروں میں لمز لاہور، آئی بے اے سکھر، مینجمنٹ سائنسز پشاور، بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کوئٹہ اور آئی بے اے کراچی شامل ہیں۔
اس اسکیم کے تحت جن مضامین کو کورسز میں شامل کیا جائے ، ان میں بزنس مینجمنٹ، بزنس ایڈمنسٹریشن، کمپیوٹر، کمیونیکیشن سکلز، ہوٹل مینجمنٹ، ٹرانسلیشن، اور سولر ٹیکنالوجی جیسے مضامین شامل ہیں۔ اس منصوبے کے تحت مقامی طلباء کو پانچ ہزار جبکہ باہر سے آنے والے طلباء کو دس ہزار روپے بھی دئیے جائیں گے تاکہ دور سے آنے والے طلباء و طالبات کو رہن سہن کے لئے کسی پریشانی کا سامنا نہ اٹھانا پڑے۔
یہ منصوبہ اپنے تئیں بہت منفرد اور مفید ہے۔ مگر اسے ایک عارضی اور ایمرجنسی حل کے طور پر لینا چاہئے۔ ایسا کوئی پروگرام ان بہت سارے ایسے ڈگری ہولڈرز جن کے پاس نظری اور لفظی تعلیم تو ہے، لیکن ان کی روزگار حاصل کرنے صلاحیت نا ہونے کے برابر ہے کے لئے ایک لائف لائن کا درجہ رکھتا ہے؛ موجودہ حالات میں ایسے افراد خود اپنے، اپنے خاندان کی خوشحالی، اور ملکی معیشت میں ایک بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ہمیں بطور معاشرہ ایسی مثبت بحث و تمحیص کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے جس میں تعلیمی مضامین اور شعبہ جات کے انتخاب کے متعلق فیصلے ملکی معیشت میں موجود مواقع اور ذاتی و شخصی رجحانات کی توازنی روشنی میں کئے جائیں۔
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ تعلیم بہرحال ایک جامع نظام عمل ہے۔ اسے عقل و شعور اور فہم و فراست دینے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیم یافتہ انسان کو معاشی طور پر آزاد اور خود مختار سماجی و معاشی تشخض بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کے نظام کو معرض وجود میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں اس طرح کے کیریئر کونسلنگ کے سیٹ اپ موجود ہیں ان کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات کو جوں کا توں رکھنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا؛ نا ملک کے اور نا ہی کسی ایسے غیر ہنرمند ڈگری ہولڈر کے لئے جو کہ ہمارا تعلیمی نظام پیدا کرتا آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ جات تعلیمات اور یونیورسٹیوں کو تخلیقی، زود اثر سرگرمیوں اور منصوبہ جات اور ذہنی توانائی سے سرشار ہوکر قائدانہ کردار ادا کرنے میں مزید دیر نہیں کرنا چاہئے۔