دور جنگ کا خاتمہ
از، مولانا وحیدُ الدّین خان
انسان کی تاریخ بہ ظاہر جنگوں کی تاریخ نظر آتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہو سکتی تھی، مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے اس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیز بن چکی ہے۔
اب جنگ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) کام ہے۔ وہ سب کچھ، جس کو حاصل کرنے کے نام پر جنگ کی جاتی تھی، وہ اب جنگ کے بغیر زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُر تشدد ذرائع کے مقابلے میں جدید پُر امن ذرائع کہیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔
قدیم زمانے میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلے کے تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی دیگر راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ ان کے سامنے بہ ظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative) موجود نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دو ایسی چیزیں موجود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا نا گزیر بنائے ہوئے تھیں: ایک، خاندانی بادشاہت، اور دوسری، زرعی اقتصادیات۔
قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت کا طریق چلا آ رہا تھا۔ اس نظام کے بنا پر ایسا تھا کہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی؛ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکم ران کو قتل یا معزّول کر کے اس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔
موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجے میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکم رانی کا نظام قائم ہوا۔
اب سیاسی حکم ران دَوری انتخابات periodical) election) کے ذریعے چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کے نکاس (outlet) کا موقَع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرّر میعاد (term) کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔
دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحِصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحب مال ہے، اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحب مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے زمین دے دے۔
ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلے کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی؛ یہ کہ وہ مالک زمین سے لڑ کر اس سے زمین چھیننے اور اس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلے کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانے میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بہ ظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا: یا تو مستقل اپنی غربت پر قانِِع رہے، یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔
موجودہ زمانے میں اس پہلُو سے ایک نیا واقِعَہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورتِ حال کو یک سَر بدل دیا۔ اب ہزاروں بَل کہ اَن گِنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آ گئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اس کو بہ جا طور پر معاشی انفجار (economic explosion) کہنا درست ہو گا۔
یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بہ ظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقِعہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عُذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو وہ جدید مواقِع کو استعمال کرتے ہوئے، پُر امن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔
ایسی حالت میں جنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔
الرسالہ، فروری 2016