“اور جب وہ مسکرائی” انگریزی ناول از ڈاکٹر صولت ناگی

Saulat Nagi صولت ناگی

“اور جب وہ مسکرائی”  انگریزی ناول از  ڈاکٹر صولت ناگی

نعیم بیگ

صولت ناگی کے ناول “اور جب وہ مسکرائی،”  کو پڑھتے ہوئے مجھے چالیس سال پہلے ہمیشہ یاد رہ جانے والا گبرئیل گارشیا ماکیز کا ناول  ” لو اِن دا ٹائم آف دی کالرہ”  یاد آ گیا، جس میں وہ کہتا ہے ۔” محبت ایک عجيب و غریب جذبہ ہے، جوں جوں ہماری عمر بڑھتی ہے، وہ جذبہ حساس تر ہوتا جاتا ہے۔  اور جب ہم مرنے کے مقام پر پہنچتے ہیں ، تو محبت کا  یہی جذبہ جسم کی ضروریات سے بڑھ کر ہمیشہ کے لیے  ہماری روح کے اندر  لازوال محبت کا وعدہ بن کر ابدیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔

تاہم “اور جب وہ مسکرائی” میں اس ناول کا مصنف صولت ناگی ایک نئے خیال سے ہمیں حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت میں دنیا کا کوئی بھی شخص اس بنیادی رومانی (رومانوی) ڈھانچے کے بغیر نہیں ہوتا، بغیر سے مراد اس حد تک جہاں محبت سے لبریز اس کی امیدیں زندگی کی اتھاہ گہرایوں میں نہ اتر جائیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ان خوشیوں کو پا لے جو حد درجہ قربانی کی متبادل ہوں۔

آئیں ایک اور طرح سے اسے دیکھتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیشہ تک  صرف محبت کی پرستش کرنے کے لیے، لیکن اصل میں، اس پر عمل کرنے کے لیے وہ جسمانی محبت زندہ رہے، جو ایک گہرے جذبے کی بنیاد پر ایک طویل زندگی کے جینے کو ممکن بناتی ہو؟ اور اس سے  کہیں زیادہ انسان کی جمالیاتی و حسیاتی آسودگی اس کی جنسی ضروریات کا متبادل بن جائے؟  زندگی کی وہ خوفناکی، جو جسم  کی ضروریات سے  جڑ کر محبت سے محروم ہو جانے پر ،یا اس کے نتیجے میں جنسی ضروریات کی تشویش کے ختم ہوجانے پر، وہ خود کو زندگی کی فکر سے آزاد کر دیتا ہے،کیا نئی سوچ کی متقاضی ہے؟

ناول کے ابتدا میں احمد اور فاطمہ کی کہانی گو سست رفتار رہی، لیکن آگے چل کر ماریہ کے ظہور پر یہ کہانی اپنی منطقی سطحوں کو، واقعی میں، ایک عظیم  فلسفے سے انسلاک کرتی نظر آتی ہے۔ فاطمہ کا خیال ہے کہ اپنے وجود کو آزاد کرنا معاشرے کو آزاد کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ وہ غیر معمولی سوالات ہیں  جو مصنف “اور جب وہ مسکرائی” میں بڑی کامیابی سے اٹھاتا ہے۔

یہ ناول اپنی اساس میں انقلابی ہے کہ  جب احمد یہ کہتا ہے کہ محبت کی اساس قربانی کے جذبے کے تحت  (جبکہ کچھ لوگ اسے بے وقوفانا طرز کی محبت سمجھیں گے ) لازوال بن جاتی ہے اور زندگی میں اپنائے گئے اصولوں پر مبنی جب کوئی غیر معمولی محبت کے محاذ پر ایک بڑا اعزاز حاصل کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی وہ مؤثر طریقہ ہے جو جسم کی ضروریات کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے دستبردار ہو جائے۔ آج ہو سکتا ہے، اور پوری تاریخ گواہ ہے کہ ایک ایسا انقلابی خیال جو فکشن کی گہری متنوع سوچ کو ایک فلسفے کا روپ دے اور ایسے سوالات کو جنم  دے، صولت ہمیں بڑی خوبصورتی سے  اس ناول میں ہمیں یہ بتاتا ہے  کہ ایسا کس طرح ممکنہ طور پر ہوتا ہے۔.

یونانی سمندر کے خدا “پوسیڈون” کا حوالہ دیتے ہوئے جب وہ  “ایتھنا” کے مندر میں خوبصورت “میڈوسا” سے محبت کا جسمانی کھیل کھیتا ہے تو سپر ایگو “خدا” اسے سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے. یہاں پر اس ناول کا ایک کردار بے ساختہ بول اٹھتا ہے  “میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ “خدا” ایسی محبت کرنے پر قادر نہیں، لہذا ایسی جسمانی محبت  انہیں ناراض کر دیتی ہے اور وہ انسان کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں۔”

70 اور 80 کی دھائی کے رومانی دور کے گزر جانے کے بعد موضوعاتی سطح پر فکش میں ایک متنوع دور آیا۔ جو کسی بھی مصنف کے لیے محبت کے فلسفے پر کام کرنے کے لیے ایک دشوار دور تھا اور اب بھی ہے۔ کیونکہ فکشن کی اعلیٰ اقدار کے پیش نظر عالمی سطح پر مزید متنوع کہانیاں سامنے آئیں۔ ایسے میں محبت کی ناآسودگیاں، اسکی پیچیدگیاں اور ابہام  کسی بھی مصنف کے بیانیہ کو فکشن کے دشوار گزار راستوں پر لے جا سکتی ہیں۔

اس ناول کے تناظر میں یہ استدلال پیش کیا جا سکتا ہے کہ کیا یہ محبت کو سمجھنے کے لیے واحد ایماندار طریقہ ہے؟ جس میں معاشرہ اور اس کے قوانین، محبت کو کسی سطح پر بے نقاب کرتے ہوئے سماجی اندھیروں اور مذہبی ٹیبوں کے بغیر، محبت کو ورسٹائل طور پر رومانی اور جنسی تناظر میں کھلے طور پر قبول کر سکتے ہیں؟  ہمارے سماجی تناظر میں اس لحاظ سے  یہ ناول ایک ایسے نئے خیال کی نمائندگی کرتا ہے۔

کہانی کی بُنت، اسکی ٹریٹمنٹ کے بارے میں بڑی اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ ناول غیر معمولی، لیکن نمایاں طور پر ابتدا میں قارئین کی دلچسپی کو فروغ دیتا ہے، اگرچہ ناول کی رفتار بعد ازاں سست ہوجاتی ہے، لیکن ناول میں فاطمہ کو احمد کے طویل خط ملنے پر کہانی کے اندر ایک نیا ٹوئسٹ در آتا ہے، یہاں مصنف اپنی مہارتِ تخیل سے قاری کو ایک بار پھر جکڑ لیتا ہے۔

” میں مرنے سے نہیں ڈرتی۔۔۔”  بسترِ مرگ پر لیٹی نقاہت بھری آواز میں ماریا اپنے دکھ بیان کرتی ہے۔ ” “لیکن مجھے یہ افسوس ہی رہے گا کہ میں نے اپنی زندگی اپنے آدرشوں اور خوابوں کے مطابق ان لوگوں کی طرح نہیں گزاری، جنھیں یہ موقع ملتا رہا۔ زندگی بذات خود ایک طوائفانہ پنجرے میں بند ہے۔ لوگوں کو صرف یک طرفہ خوبصورتی کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ انھیں مخصوص طرز پر خوبصورتی کا وہ حصہ نمایاں کر کے دکھایا جاتا ہے جو جسم سے متعلق ہے۔ وہ جلد بازی میں وہی کرتے ہیں جنھیں شروع سے یہی سکھایا جاتا ہے۔ تیز ترین رفتار انھیں جمالیات سے ہٹا دیتی ہے۔ وہ دیکھتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے۔۔۔ وہ کچھ کرتے ہیں لیکن یہ سرگرمی نہیں ہوتی۔۔۔ وہ جسمانی طور پر ملتے ہیں لیکن حقیقی خوشی نہیں ملتی۔ یہی ان کا مقدر ہے۔۔۔”

تاہم یہ کہنا بعید از قیاس نہ ہوگا کہ ناول اپنے اختتام تک  پہنچتے پہنچتے اپنے بڑے خیال اور کینوس جو ابتدا میں فلسفیانہ طور پر پیش کیا گیا تھا، سے معمولی سا ہٹ جاتا ہے اور قاری کو ایک بالکل مختلف دنیا میں لے جاتا ہے اور ایک جگہ تو کہانی اچانک اپنے کرداروں اور مکالموں میں جذباتی رحجانات کے ساتھ سطحی طور پر سامنے آتی ہے۔

اس کتاب کے تبصرے کے آخر میں یہی کہوں گا کہ میں نے بڑے عرصے بعد  ایک حیرت انگیز ناول کو پڑھا ہے۔ اس کے حتمی باب کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ مصنف نے اس ناول میں قاری کو ایک سمفنی کی طرح اس کے متحرک سروں اور رفتار میں یقینی طور پر، موٹر بوٹ کی طرح اپنے سفر میں اپنے ساتھ رکھا ہے۔ وہ زندگی بھر کے تجربے کے ساتھ، زندگی کے دریا پر، سوالات ، شکایات اور شفقت کے لہجوں کے درمیان نایاب ہم آہنگی کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ ناول پڑھنے لائق ہے۔

نوٹ : اس ناول پر لکھا ہوا راقم کا انگریزی میں بک ریویو “ڈیلی ٹائمز” پاکستان  27 ستمبر 2017 کو شائع ہو چکا ہے ۔ یہ اردو تنقیدی جائزہ اسی مضمون کا  اردو ترجمہ ہے۔ احقر نے کوشش کی ہے کہ ترجمے کو محتاط طریقے سے انہی الفاظ کے ساتھ پیش کیا جائے جو اس مضمون کی روح تھے۔ تاہم بیک وقت مصنف اور مترجم ہونا میرے لیے یہ پہلا تجربہ ہی تھا۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔