لطف اندوزی کے ذرائع اور انسان

منزہ احتشام گوندل

لطف اندوزی کے ذرائع اور انسان

از، منزہ احتشام گوندل

مجھے اکثر دوست اپنی قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ میں اپنی یکسانی بھری زندگی سے بہت بے زار ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اکثر بے زار رہتی بھی ہوں۔ وہ مجھے اس کیفیت سے نکالنے کے لیے مشورے دیتے ہیں جو عموماً ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً تم گھر سے باہر نکلو، بڑے شہروں میں جاؤ۔ وہاں لطف اندوزی کے ہزاروں ذرائع ہیں۔

میں پوچھتی ہوں کہ کون کون سے ذرائع ہیں، ذرا گِنوا تو دیجیے۔ وہ فرماتے ہیں۔ شہروں میں بڑے بڑے کلب ہیں، ہوٹل ہیں، شاپنگ پلازا ہیں، سینما ہال ہیں، تھیٹر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں پھر سوال کرتی ہوں کہ اگر ان سب ذرائع کو آزمانے کے بعد بھی میں لطف اندوز نہ ہو پاؤں تو؟ تو آگے سے دو جواب ملتے ہیں۔ جن میں سے ایک تو نا گفتنی ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ:
ہائے ظالم تو نے پی ہی نہیں

بات یہ ہے کہ مجھے دیہات کی مکیں ہونے کی وجہ سے دوست غلط اندازے لگاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دیہاتیوں کے لیے شہر اور ان کی رونقیں ایک بہت بڑی کشش ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایسا ہے۔ مگر یہ معاملہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ یکساں ہو۔ ہر انسان کے لطف اندوزی کے اپنے ذرائع ہیں۔ مثلاً میں بہت اچھی کتاب کا مطالعہ کرکے وہ لطف اٹھاتی ہوں جو کسی کو فائیو سٹار ہوٹل میں بہت مہنگا کھانا کھا کے آتا ہو گا۔

کسی کے لیے فرسٹ کلاس سینما ہال میں فلم دیکھنا لطف کا باعث ہے تو مجھے اچھی آرٹ فلم مکمل تنہائی میں دیکھنا پسند ہے۔ کسی کو مہنگی شراب کے ساتھ مجرا دیکھنا اچھا لگتا ہے تو مجھے ڈسکوری چینل پہ جہازوں کے کریش ہونے کی تحقیقاتی رپورٹس دیکھنے میں دل چسپی ہے۔

کوئی مہنگے کپڑے خرید کر بہترین میک اپ کے ساتھ مخلوط محافل کی شائق ہے تو میں بہار اور خزاں میں فضا میں اڑتے ابابیل دیکھنے کی شائق ہوں۔ وہاں اس چیز کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہائے ظالم تو نے پی ہی نہیں۔

لطف اندوزی کے ہمارے پیمانے در اصل ہماری نفسیات پہ انحصار کرتے ہیں۔ اس کے لیے ایک چیز شرط ہے کہ کوئی ایک فرد ہمیں ایسا میسر ہو جسے ہم پسند کرتے ہیں۔ جس کی موجودگی ہمیں مسرور کرتی ہے۔ اور وہ فرد بھی آپ کی موجودگی کو پسند کرتا ہے۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایسے آدمی کے ساتھ آپ کہاں بیٹھے ہیں۔

آپ ساحل سمندر پر ہیں یا کسی صحرا میں گرد اڑا رہے ہیں۔ آپ کسی اعلٰی معیار کے ہوٹل میں ہیں یا کسی سڑک کے کنارے کیکر کی چھاؤں میں بیٹھے مکئی کی چَھلّی کھا رہے ہیں۔ ہر جگہ اور ارد گرد کی ہر شے آپ کو حسین لگے گی اور آپ اس احساس اور ماحول کا لطف اٹھائیں گے۔ اب اگر آپ دونوں یعنی طالب و مطلوب چَنگڑ بھی ہیں تو اس جُھگّی کے اندر نشاط ہے۔

آپ بڑے شہروں کے لطف اندوزی کے بڑے بڑے ذرائع سے ہزار بار نا آشنا اور نا واقف ہو کر بھی اپنی زندگی کا مکمل ذائقہ چکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ آپ کے اندر ہے۔ زندگی کا یہ ذائقہ بلند و بالا عمارتوں کی سجاوٹ، لباس کی نزاکت، خوراک کے ذائقے سے مشروط نہیں، بَل کہ یہ سب چیزیں اس احساس کے ساتھ مشروط ہیں۔


مزید و متعلقہ:  طاقت، دولت، شہرت اور صنعتِ تفریح  از، نصیر احمد

ہمزاد کا المیہ  از، معصوم رضوی


ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس فرد کو اپنی زندگی میں تلاش نہیں کرتے جو ہماری مسرتوں کو دو بالا کر سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ قدرتی عمل ہے کہ ہر انسان کا ایک ہمزاد ہوتا ہے۔ ہم اس انسان کی تلاش کی بجائے سماجی پیمانے دیکھتے ہیں، اور ان سماجی پیمانوں کے مطابق ساتھی چنُتے ہیں۔ اب یہ ساتھی ہمارا قانونی شریک حیات تو ہوتا ہے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ نفسیاتی یا روحانی شریک نہیں ہوتا۔

یوں ایک بوریت جنم لیتی ہے۔ کچھ لوگ اس کمی کو اولاد میں پورا کر لیتے ہیں مگر بہت سے اس فن سے واقف نہیں ہوتے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ احساس اور رشتے کے حوالے ہمارے ہاں کچھ چیزیں بہت غیر فطری ہیں جو ایک بوجھل صورت حال کی وجہ بنتی ہیں۔

سماجی مطالعات میں اگر ہم مشرق بالخصوص پاکستان کو نکال کے دیکھیں تو محبت، رومانس اور شادی ان تین چیزوں کو تین الگ الگ خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ ہم مشرقی اذہان کو جو چیز سب سے زیادہ الجھاتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم تینوں کو ملا کے دیکھتے ہیں۔ ایسا کرنا ہمارا قصور نہیں البتہ مجبوری ضرور ہے۔ اور ہماری یہ مجبوری ہماری بے زاری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اس کے علاوہ جو عوامل ہیں ان میں ایک اہم عامل اپنے فریم سے نکل کر خواہشات رکھنا ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم اپنی چادر سے نکل جاتے ہیں۔ اور پھر جو چادر سے باہر کی برہنگی ہے وہ ڈھکنے کے چکر میں اکتاہٹ کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں۔ اور لطف اندوزی کے اپنے فطری ذرائع سے اور زیادہ دور ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ اصل نکتہ بھی ہے۔ جب کوئی فرد جان لیتا ہے کہ اس کی اصل خوشی کس چیز کے اندر ہے تو پھر کوئی اور بہلاوا اس کی توجہ اپنی طرف نہیں کھینچ سکتا۔

1 Trackback / Pingback

  1. ایک متناقضاتی شہر — aik Rozan ایک روزن

Comments are closed.