ماحولیاتی تبدیلیاں : سنگین خطرات

ماحولیاتی تبدیلیاں

ماحولیاتی تبدیلیاں : سنگین خطرات

ایشیائی ترقیاتی بینک کی یہ چشم کشا رپورٹ ہماری حکومت، اداروں اور عوام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آنے والے سالوں میں انتہائی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجۂِ حرارت بہت بڑھ جائے گا۔ ایشیائی بحرالکاہل کے بہت سے خطوں میں بارشیں پچاس فیصد تک بڑھ جائیں گی جن سے خطرناک سیلاب آئیں گے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی آئے گی اور غذائی قلت بڑھ جائے گی جس سے خطے کے کروڑوں افراد متاثرہوں گے۔ خاص طور پر پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور شمال مغربی چین میں اگلی صدی کے آغاز تک اوسط درجۂ حرارت میں 8 ڈگری تک اضافہ ہو جائے گا۔

بینک نے جرمنی کے ایک تحقیقی ادارے کے اشتراک سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسانوں اور حیوانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے اور متنبہ کیا گیا ہے کہ ایشیائی بحرالکاہل کا خطہ جس میں پاکستان اور بھارت بھی واقع ہیں خاص طور پر ان تبدیلیوں کا نشانہ ہو گا۔

یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ خطے کے بیس بڑے شہروں کی دوتہائی آبادی آئندہ چند عشروں میں ماحولیاتی نقصانات کا سامنا کرے گی۔ اس صدی کے اختتام تک جنوبی ایشیا کے کچھ ممالک میں چاول کی پیداوار نصف کے قریب رہ جائے گی۔ چٹانوں کو پہنچنے والے نقصان سے سیاحت اور ماہی گیری کی صنعتیں تباہ ہو جائیں گی۔

درجۂ حرارت بڑھنے سے لاکھوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ دوسری بیماریوں کے علاوہ ملیریا اور ڈینگی کے امراض میں اضافہ ہو گا۔ غذائی قلت، بیماریوں اور دوسرے مسائل کی وجہ سے لوگ اپنے ملکوں سے ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں اور ان کا رخ امکانی طور پر آسٹریلیا کی طرف ہو گا۔

ایشیائی ترقیاتی بینک مستقبل کے اس منظر نامے سے بچاؤ کے لیے ماحولیات اور زراعت پر سرمایہ کاری کا جائزہ لے رہا ہے۔ خاص طور پر فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے نئے طریقوں کے استعمال پر توجہ دی جا رہی ہے۔ دنیا کے بہت سے ادارے بنی نوع انسان کو پیش آنے والے متوقع خطرات کے مقابلے کے لیے غور وفکر کر رہے ہیں۔

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ تیس برس میں سنگین غذائی بحران پیدا ہونے والا ہے۔ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتی ہے کیونکہ یہاں زراعت کے شعبے میں بہت پرانے طریقوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ جدید طریقے اپنانے پر ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی جا رہی۔ زیادہ تر انحصار پانی پر کیا جا رہا ہے جس کی فراہمی کچھ قدرتی عوامل اور کچھ بھارت کی آبی جارحیت کی وجہ سے کم ہو رہی ہے،گلیشیر پگھل کر نابود ہو رہے ہیں جو ایک الگ مسئلہ ہے۔

ہمارے سمندر ہی نہیں دریاؤں اور نہروں کا پانی بھی تیزی سے آلودگی کا شکار ہے۔ ہمارے اپنے ادارے آب نوشی اور آبپاشی کے لیے اسے ناقابل استعمال قرار دے رہے ہیں۔ سمندری غذا خوراک کا اہم حصہ ہے مگر آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ عرب ممالک نے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے قطراتی نظام آبپاشی اپنایا ہے جس کے تحت فصلوں کو ضرورت کے مطابق پانی ملتا ہے اور ضائع بھی نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں بہت محدود پیمانے پر یہ طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز بنانے چاہئیں۔ پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ زرعی زمینوں کو بچانا چاہیے اور ان پر غیر ضروری تعمیرات کا پھیلاؤ روکنا چاہیے۔

جنگلات میں اضافے کے لیے درخت لگانے چاہئیں۔ درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے سخت قوانین بنانے چاہئیں گندم، چاول اور دوسری نقد آور غذائی فصلوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان کی نئی اقسام دریافت کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں پہلے سے جو کام ہو رہا ہے اسے مزید بہتر کیا جانا چاہیے۔ توقع ہے کہ حکومتی ادارے ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مضمرات کی سنگینی پر سنجیدگی سے غور کریں گے تاکہ آنے والےخطرات کے مقابلے کے لیے پیشگی اقدامات کئے جا سکیں۔


بشکریہ: اداریہ  روزنامہ جنگ 25 جولائی 2017