پائیدارمعاشی ترقی اور ماحولیاتی مسائل
محمود حسن
تیسری دنیا میں معاشی ترقی کے خِیرہ کن خواب نےجہاں نسلِ انسانی کو بہت سے سماجی مسائل سے دوچار کیا ہے وہیں اِسے ایسے ماحولیاتی مسائل سے بھی دوچار کر دیا ہے جن کی گہرائی کا ادراک نہ تو وہاں کی حکومتوں کو ہے اور نہ ہی سِول سوسائٹی کو۔ ان ممالک میں سماجی اور ماحولیاتی مسائل کی ڈور اس قدر اُلجھ چکی ہے کہ اس کا سِرا ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ پاکستان بھی تیسری دنیا کا ایسا ہی ایک ملک ہے جس میں عوام بہت سے سماجی اور ماحولیاتی مسائل کے گرداب میں گھرے ہوے ہیں۔
میرے پاس ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس کی بنیاد پر میں ثابت کرسکوں کہ معاشی ترقی کے حوالے سے پاکستان میں کس حکومت کا دور بہتر تھا اور کس کا بد تر، لیکن یہ بات ضرور واضح ہے کہ ملکی سماجی اور ماحولیاتی مسائل کی کھوج اور اِن کا علاج آج تک کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن مسائل کا حل ڈھونڈنے میں ناکامی کی بڑی وجہ قیامِ پاکستان سے آج تک قائم ہونے والی تمام آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہے۔
ترقی یافتہ ریاستیں سماجی عدم مساوات اور ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے اپنی تمام توانائی صرف کرتی ہیں۔ یہاں کی سول سوسائٹی قوانین سازی کے عمل پر نہ صرف گہری نظر رکھتی ہے بلکہ حکومتی احتساب کا عمل بھی ہر لمحہ جاری و ساری رکھتی ہیں۔ حکومت کی ذرا سی غلطی عوام میں اس کی ہر دلعزیزی (پاپولیریٹی) کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ عوامی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینے پر مجبور رہتی ہے اور کوئی ایسا بل پاس نہیں کر سکتی جس سے ان کے ذاتی مفادات کو تحفظ حاصل ہو سکے۔
اگر یہ ممکن ہو سکتا تو امریکہ میں بہت سے ایسے ہر دلعزیز صدور ہو گذرے ہیں جو انتخابی قوانین میں ترمیم کرکے صدارت کی تیسری ٹرم بھی حاصل کر سکتے تھے۔ ایسا صرف شعوری بلوغت سے محروم سول سوسائٹی کی موجودگی میں ہی ممکن ہے کہ عدالتوں سے سزا یافتہ سیاستدان پھر سے سیاسی پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور دوبارہ انتخابی عمل کا حصہ بن جائیں۔ اس لیے پاکستان جیسے ممالک میں جہاں سول سوسائٹی حکومتی فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، ریاست ہی بالآخراس بات کی ضامن اور ذمہ دار ہے کہ وہ سماجی مساوات پر مبنی مالی وسائل کی تخصیص اور ماحولیاتی تحفط کو یقینی بنائے جس کی درج ذیل تین بنیادی وجوہات ہیں۔
اول یہ کہ حکومت ہی تمام ریاستی وسائل بشمول ماحولیاتی وسائل مثلا ہوا، پانی اور زمین کی مالک و مختار ہے اس لیے ماحول کا تحفظ بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ مثلا اگر حکومت کسی فرد کو ملک کے کسی حصے میں کان کنی کے لیے زمین لیز کرتی ہے، مِل کا پرمٹ الاٹ کرتی ہے یا کسی بھی قسم کی تجارتی سرگرمی کا لائسنس فراہم کرتی ہے تو اس علاقے کے ماحول کے تحفظ کی ذمہ داری بھی اُ سی فرد پر ڈالے۔
دوم یہ کہ ماحولیاتی مسائل کسی ایک ملک تک محیط نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر موجود ہیں اس لیے یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف تمام بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے بلکہ عوام کو ان قوانین پر عمل درآمد کا پابند بنائے اور سوم یہ کہ معاشی سرگرمیاں ہی ماحولیاتی مسائل کا باعث بنتی ہیں اور اِن معاشی سرگرمیوں میں مصروف پرائیویٹ سیکٹر کی نظر صرف اپنے منافع پر ہی مرکوز ہوتی ہے۔ کیونکہ ماحولیاتی تحفظ میں انہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نظرنہیں آتا بلکہ ان کے منافع میں کمی کے امکانات زیادہ واضح ہوتے ہیں اس لیے وہ ماحولیاتی تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں یہ حکومت کے لیے ہی ممکن ہے کہ وہ ایک ایسا ریگولیٹری میکانزم وضع کرے جو نجی شعبہ کو ماحولیاتی تحفظ پر مجبور کرے۔
پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک کی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرح کے مسائل کو کتنی ترجیح دے۔ چونکہ ہمیشہ ہی سےسماجی مسائل یعنی تعلیم، صحت، روزگار ہماری حکومتوں کی پہلی ترجیح رہے ہیں اس لیے ماحولیاتی مسائل کے حل کی جانب بہت کم توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2015-16 میں تعلیم کے لیے 2 اعشاریہ 3 فیصد بجٹ مختص کیا گیا، شرح خواندگی 40 فیصد رہی جبکہ 20 فیصد اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اب بھی بیروزگار ہیں۔ ملک کی 84 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ صاف پانی مہیا کرنے کی صرف 72 فیصد سکیمیں ہی کام کر رہی ہیں جن میں سے 84 فیصد کا پانی پینے کے قابل نہیں اورپانی سپلائی کی 14 فیصد اسکیموں میں آرسینک کی مقدار عالمی معیار سے پچاس گنا زیادہ پائی گئی۔ یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ غربت، نام نہاد معاشی ترقی اور ماحولیاتی تباہی آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
غریب آدمی کا مسئلہ ماحول کی حفاظت نہیں بلکہ اپنا، اپنے بچوں اور مویشیوں کا پیٹ پالنا ہے۔ جبکہ امیر آدمی کے لیے نایاب جنگلی جانوروں کا شکا ر فقط ایک کھیل ہے۔ زیارت وادی (بلوچستان) میں بسنے والے ایک غریب چرواہے کو اس بات سے کوئ سروکار نہیں کہ وہاں پاے جانے والے جنی پر کےجنگلات دنیا کے قدیم ترین جنگلات میں سے ایک ہیں اور یہ اس نسل کے درختوں کا دنیا میں پایا جانے والا دوسرا بڑا جنگل ہے۔
اسے تو بس یہ علم ہے کہ اس درخت کی لکڑی سردیوں میں اُسے اور اُس کے بچوں کو زندگی بخش حِدت دیتی ہے اور سارا سال اس کے مویشیوں کا چارہ بنتی ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں کے باشندوں کے لیے برفانی چیتا فقط ایک درندہ ہے جو رات کو اُن کے مویشیوں پر حملہ آور ہوتا ہے اورسارے ریوڑ کو برباد کر دیتا ہے اور اسی طرح مارخور ان کے لیے فقط مفت کا گوشت ہے۔
دوسری جانب ماحولیاتی جانچ پڑتال کے بغیر شروع کی گئی ڈیویلپمنٹ کی تمام اسکیمیں بھی ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ مثلا ڈیویلپمنٹ کے نام پر پنجاب گورنمنٹ کی لاہور میں شروع کی گئی بہت سی اسکیمیں فضائی آلودگی، نندی پور پاور پروجیکٹ نہری پانی کی آلودگی اور حال ہی میں مکمل کیا گیا ساہیوال کول پاور پراجیکٹ شدید قسم کی فضائی آلودگی کا باعث ہے۔ پائیدار معاشی ترقی تبھی ممکن ہے جب ماحول، اقتصادیات اور معاشرے کے سماجی مسائل کا کو ئی مشرکہ حل ڈھونڈا جائے۔
قدرتی وسائل اور ذرائع کا استعمال یہ سوچ کر کیا جائے کہ جیسے یہ وسائل اور ذرائع ایک مقدس امانت ہیں جس کو ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرنا ہے۔ ہم اپنے دریاوں کو آلودہ نہ ہونے دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی صاف پانی پی سکیں۔ ہم پانی ضائع کرنا بند کردیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پیاسی نہ رہ جائیں۔ ہم اپنی زمینوں کو آلودہ نہ کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس سے اناج حاصل کرسکیں۔ ہم کول پاور پلانٹ لگا کر اپنی فضائیں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر کی مختلف گیسوں سے آلودہ نہ کریں تاکہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار نہ بن جائیں۔ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں سانس کی بیماریوں کا شکار نہ ہو جائیں۔ اور ہم جامع اور مکمل جانچ پڑتال کے بغیر ترقی کی کوئی بھی ایسی اسکیم شروع نہ کریں جس کے دور رس منفی اثرات موجودہ فوائد سے زیادہ ہوں۔
دنیا میں پائیدار معاشی ترقی کا کوئی ایسا مخصوص یونیورسل فارمولا نہیں جو ہر ملک اور ہر قوم پر اپلائی کیا جا سکے۔ ہر ملک کے لوگ مل کر ہی اپنے لیے کوئی پلان تیار کرسکتے ہیں جو ان کی اپنی ضروریات کے مطابق ہو۔ جرمنی دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے ڈیزل اور پیٹرول سے چلنے والی کاریں استعمال کرنا ترک کردیا ہے۔ کینیڈا کا صوبہ اونٹاریو 2014 سے اپنے تمام کول پاور پلانٹ بند کرچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی تمام ماہرینِ ماحولیات، اقتصادیات اورسماجیات مل کر ان مسائل کا کوئی ایسا مشترکہ حل تلاش کریں جو پاکستان کے لیے قابلِ عمل ہو۔
جب تک تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ بیک زبان آبادی کے کنٹرول کے حامی اور وکیل نہیں بنیں گے پائیدار ترقی کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ ترکی یا چین کی کمپنوں سے کوڑا اٹھوانے سے کچرے کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوسکیں گے، جب قوم کا ہر فرد زیرو ویسٹ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگا تو کوڑا خود بخودختم ہوجا ئےگا۔ فضائی آلودگی کم کرنی ہے تو ہر بڑے صنعتکار کو “کیپ اینڈ ٹریڈ “کے قانون کے تابع لانا ہوگا۔ کوئلے کی بجائےسولر اور ونڈ پاور کو استعمال میں لانا ہوگا۔ ڈیموں کو سلٹ سے بچانا ہے تودریاؤں کے کیچ منٹ ایریاز میں شجرکاری کرنا ہوگی۔ سیف الملوک، کھبیکی، اچھالی، مانچھر اور کینجھر جیسی جھیلوں کو بچانا ہے توان میں انسانی فضلہ کی ڈمپنگ بند کرنا ہوگی۔ زیارت کے حسین اور نایاب جنگلات کو بچانا ہے تو اس علاقے سے غربت ختم کرنا ہوگی اور ایکو ٹورازم کو فروغ دینا ہوگا۔
ملک کی پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کےلیے کی تمام ملکی اور غیر ملکی کارپوریشنز کو قانون کے شکنجے میں لانا بھی اشد ضروری ہے۔ بہت سی غیر ملکی کمپنیاں صرف اس وجہ سے تیسری دنیا میں کاروبار کرتی ہیں کیونکہ یہاں انہیں کم اجرت پر ملازم مل جاتے ہیں جبکہ ماحولیاتی تحفظ کے قوانین بھی کچھ زیادہ سخت نہیں ہوتے جس سے فائدہ اُٹھا کر یہ ڈھیروں نوٹ کماتے ہیں۔ نیسلے پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ ایک سوئس جرنلسٹ” ریس گہریجر” کے مطابق نیسلے پاکستان میں موجود اپنے پلانٹس میں زمین سے اس قدر پانی نکال چکا ہے کہ پلانٹس کے اردگرد موجود تمام دیہات میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک گر چکی ہے۔ لوگوں کے نل خشک ہو چکے ہیں اور دیہاتی جوہڑوں سے گندا پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ نیسلے کا مہنگا پانی نہیں خرید سکتے۔
چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ 12 سال قبل 5 اکتوبر 2005 میں سردی کا موسم زلزلہ زدگان کی ریسکیو میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا جبکہ 8 اکتوبر 2017 میں سردی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
بہت اعلی تحریر ہے اور آپ نے اس میں کئی ایک ایسے مسائل کا احاطہ کیا ہے جس کے بارے ہماری حکومت کو خبر تک نہی اور عذاب ہمارے سروں پر آن کھڑا ہے.
8اکتوبر کے زلزلے کی مثال بھی بہت اعلی ہے. لیکن جب بات ہوتی ہے کول پاور پلانٹس کی تو وہاں گورنمنٹ کو خیال کاربن ڈائ آکسائیڈ کی طرف نہی جاتا بلکہ کمیشن کی طرف جاتا ہے.
بہت بامقصد تحریر ہے.
ایک ہے حد موثر اور کار آمد تحریر ۔ مزید تحقیق کی ضرورت ہے