سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور عوام
از، معصوم رضوی
کوشس یہی ہوتی ہے کہ سیاست کے علاوہ کسی اور موضوع پر لکھا جائے تا کہ کچھ مقصد تو ہو مگر ملک میں سیاست اس قدر حاوی ہے کہ یہ کوشش اکثر ناکام ہو جاتی ہے۔ تو جناب آج کل سیاسی تھیٹر پر چلنے والا ڈرامہ اس قدر بودا اور بیہودہ ہے کہ ڈائریکٹر کو شاباش دینے کا دل چاہتا ہے، گزرتے وقت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی صلاحتیں ماند پڑتی جا رہی ہیں، نہ اسکرپٹ نہ ڈھنگ کے اداکار، نہ کہانی میں کوئی موڑ، بس ایک سپاٹ اور بے سمت فسانہ دہرایا جا رہا ہے نہ کوئی سر ہے نہ پیر، مگر ایک اچھے شہری کی طرح قومی سلامتی اور ملکی مفاد کی خاطر تمام تحفظات بالائے طاق رکھ کر اس پر کامل ایمان ضروری ہے ورنہ کم از کم ملک دشمن ہونے کا الزام تو لگ ہی سکتا ہے۔
مانا کہ سیاست دانوں کی بدعنوانی، بدانتظامی پر کوئی دوسری رائے نہیں، مگر کیا یہ کرپشن ٖصرف ن لیگ اور نواز شریف نے کی ہے اگر ایسا نہیں تو پھر تمام تر ہتھیار صرف ان کے خلاف کیوں، پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے فسانے اب کیوں نہیں دہرائے جاتے اس کا کسی کو علم نہیں بلکہ اب تو پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے قریب سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی زرداری صاحب ہیں جو جنرل راحیل شریف کے دور میں صرف ایک بیان دینے پر چھ ماہ سے زائد رضاکارانہ جلاوطنی کاٹ چکے ہیں، سرے محل، سوئٹزرلینڈ کے اکائونٹس کی داستانیں زبان زد خاص و عام رہیں اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کہانیاں اور سندھ حکومت کی بدعنوانیاں میڈیا کی زینت ہوا کرتی تھیں، مگر اب ہاتھ ہولا ہے اور راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
کچھ عرصے پہلے خیبرپختونخواہ میں بھی کرپشن کی کہانیاں چلا کرتی تھیں، وزیر اعلیٰ سمیت کئی مشاہیر کے نام بھی سامنے آئے مگر اب اسکرپٹ میں راون کا کردار صرف اور صرف ن لیگ کا ہے۔ مجھے نہ ن لیگ سے ہمدردی ہے نہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت سے دلچسپی، میری تمام سیاسی ہمدردیاں عوام سے منسلک ہیں کیونکہ ستر سالوں سے چلنے والے اس سیاسی تھیٹر کا سب سے زیادہ نقصان عوام الناس نے اٹھایا ہے۔
یکایک بلوچستان کے وزرا کے ضمیر جاگ اٹھے، عوام کے ہمدروں نے ایسی قلابازیاں کھائیں کے سرکس والے بھی پریشان رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بن گئے جنہوں نے عام انتخابات میں 544 ووٹ حاصل کیے تھے۔ قدوس بزنجو کا تعلق مسلم لیگ ق سے ہے جو اس معجزے ایسی انگشت بدنداں رہ گئی کہ ردعمل دینے سے بھی قاصر نظر آئی۔ ثنااللہ زھری سے چھٹکارا حاصل ہو گیا اب عوام دوست وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کا تاریخی دور شروع ہو چکا ہے، بلوچستان میں مکمل جمہوریت ہے، حاکم مہرباں، رعایا عیش کر رہی ہے۔ امن عامہ مکمل کنٹرول میں ہے، خوش حالی کا دور دورہ، کرپشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں، سب کو انصاف، صحت، تعلیم، صاف پانی کی سہولت حاصل ہے، ایک پیسے کی کرپشن ممکن نہیں ہے۔ کچھ شرپسند صحافی سینیٹ الیکشن سبوتاژ کرنے کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ظاہر ہے یہ صرف من گھڑت قصہ اور بے چینی پھیلانے کی سازش ہے۔ مستقبل کا منظر نامہ بالکل واضح ہے کہ اگر فردوس بروئے زمیں است، ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است، (ہمیں سے مراد فی الوقت بلوچستان ہے) بس سوال اٹھانے والوں اور سازشیں پھیلانے والوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب کی صورت حال قدرے مختلف ہے، یہاں ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں آگ و پانی کو یک جا کرنے کا انوکھا تجربہ کیا گیا، عمران خان اور آصف زرداری ایک ہی کنٹینر پر تو نظر آئے مگر ٹرین کی دو پٹریوں کی طرح، اب کچھ تجزیہ کار اعتراض کرتے ہیں کہ مشترکہ اپوزیشن کا جلسہ ایک نیم دلانہ کوشش تھی، رہنما زیادہ اور حاضرین کم تھے تو ایسے حاسدین کی باتوں پر کون اعتبار کرے، ویسے آپس کی بات ہے کہ فرمائشی جلسے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، طاہرالقادری اور نعیم الحق کے وضاحتی بیانات بھی حقیقت حال کے عکاس ہیں۔
خیر جلسے میں لوگ کم تھے یا زیادہ، ٹی وی پر پورا دن نشریات جاری رہیں، حکومت اب گئی کہ جب، تجزیہ کار پانی میں آگ لگاتے رہے۔ آپس کی بات ہے شہداء ماڈل ٹائون کے لیے برپا کیے جانیوالے اس جلسے میں سب سے کم ذکر اسی سانحے کا تھا۔ صورت حال یہ ہے کہ مہربانوں کی خصوصی توجہ ہے پنجاب پر جہاں تمام تر کوششوں کے باوجود ہر ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی ریت کے تمام قلعوں کو ڈھا دیتی ہے۔
مذھبی سیاست نے کچھ کم رنگ دکھائے تھے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کی دیگ میں مسلکی سیاست کا حلیم پکایا جا رہا ہے، کل جب یہ مسلکی سیاست اپنا رنگ دکھائے گی تو سب بھول جائینگے کہ اس خوفناک جن کو بوتل سے باہر کس نے نکالا تھا۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ انتخابی معرکہ پنجاب میں ہونا ہے لہذا سب سے زیادہ توجہ بھی وہیں مرکوز ہے، سیاست دانوں کی بھی اس اسٹیبلشمنٹ کی بھی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ تمام الزامات، فیصلوں اور افواہوں کے باوجود ن لیگ اپنا ووٹ بینک متحد رکھنے کی کوششوں میں کامیاب نظر آتی ہے جس کے باعث اسٹیبلشمنٹ فرسٹریشن کا شکار ہے۔ معاملہ کرپشن سے غداری کے الزامات تک پہنچ چکا ہے مگر ووٹ اب بھی ن لیگ کو پڑ رہے ہیں، اس کا کوئی توڑ اب تک سامنے نہیں آ سکا۔
ملک کی تباہی کی جنتی ذمہ داری سیاسی اور فوجی حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے شاید اس سے کچھ زیادہ ذمہ دار ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جو ستر سال سے ہر معاملے میں چونچ اڑانے کے فرائض رضاکارانہ طور پر انجام دے رہی ہے۔ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی اس جنگ کا نتیجہ ہے کہ کہ ستر سال بعد بھی پاکستان کو ایک نابالغ ریاست تصور کیا جاتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ صرف اور صرف عوام کی قیمت پر لڑی جا رہی ہے۔
حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کو فرصت ملے تو عوام کے بارے میں سوچیں، قصور میں زینب کے معاملے پر پورا ملک مضطرب نظر آیا مگر اس کے فوری بعد، جہلم، مردان، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں معصوم بچیوں کے ساتھ یہی بہیمانہ سلوک دہرایا گیا، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں پولیس اہلکاروں نے نوجوان انتظار کو سرعام قتل کر ڈالا، بدقسمت نوجوان نقیب محسود کا قتل آج سندھ پولیس پر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، مگر کل ہم یہ سب بھول جائیں گے، تحقیقاتی کمیٹیوں کو ثبوت نہیں ملیں گے اور یہ قاتل اور درندے اسی طرح عوام کا نشانہ بناتے رہیں گے۔
عوام پانی، صحت، تعلیم اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل کو جھیلتے جان سے گزر جائیں گے مگر سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی جنگ دھوم دھڑکے سے جاری رہے گی۔ سیاست دان، اسٹیبلشمنٹ اور معزز ادارے کسی بھی طرح اپنے بندوں کو بچا لیتے ہیں کہ عوام منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور انصاف کی دیوی کالی آنکھوں پر کالی پٹی باندھے کھڑی رہتی ہے، یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔
کبھی کبھار پانچ سال بعد عوام کو ایک بار احتساب کا حق ملتا ہے تو وہ جھوٹے نعروں، پرفریب وعدوں اور درپردہ سازشوں میں کہیں کھو جاتا ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے یہ لٹیرے اس وقت تک کامیاب رہیں گے جب تک عوام انکا گریبان نہیں پکڑتے، اپنی طاقت نہیں پہچانتے۔ یقین جانیے صرف ووٹ ہی آپ کی نسل کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، راہبری کے لیے جسے چاہیں منتخب کریں مگر خدارا جھوٹی وفاداریوں، نعروں کے خوابوں سے باہر نکل آئیں، ووٹ اسے دیں جو کام کرے، آپ کی دسترس میں ہو، آپ جیسا ہو ورنہ بربادی کی اس کہانی میں سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ ذمہ دار آپ ہوں گے اور آئندہ نسل آپ کو کوس رہی ہو گی۔