(ذوالفقار علی)
بہت چخ چخ ہو چُکی غریبوں کے حقوق، عورتوں کے، بچوں کے، حیوانوں کے۔ مُجھے تو سمجھ نہیں آتی حقوق کے اس کھیل یا یوں کہیے سازش بلکہ ڈرامہ زیادہ مُناسب لفظ ہے پر اتنا واویلا مچانے کے باوجود ہوتا کپچھ نہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو اجتماعی حقوق مل سکے اور نہ ہی انفرادی بلکہ اُلٹا واویلا کرنے والے ہی اپنے حقوق کے نام پر پابند کر دیئے گئے۔
لہذا اب حقوق کے اس گورکھ دھندے سے نکل کر ہم اُن کے حقوق کو دل سے تسلیم کریں بلکہ پلے باندھ لیں جو انہیں بیچنے اور دینے کا دھندہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اُن کے پیدائشی، تاریخی اور فطری حقوق کو اُجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ اس “مظلوم” طبقے کے حق میں بھی آواز اُٹھائی جا سکے۔ ذرا رُکیے ان کی موٹی موٹی نشانیاں کیا ہیں۔ یہ رہتے کہاں ہیں، کرتے کیا ہیں ان کی شناخت کیا ہے یہ کس برادری، علاقے، زبان اور ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتنے ظلم کی بات ہے جو طبقہ اپنی شناخت کے بحران کا شکار ہو اُس پے رحم کرنا ہم سب پے لازم ہیں۔ ہم رحم کرنے کی بجائے ان بے چاروں کو کوستے رہتے ہیں۔ تبھی تو یہ ہم جیسوں پر بھی رحم نہیں کرتے۔
یہ حقوق دینے اور بیچنے والے اپنی شناخت کے بحران پر قابو پانے کیلئے ایسے ایسے کارنامے کر گُزرتے ہیں کہ بس نہ ہی پوچھو تو اچھا ہے۔ سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں جو نہیں سمجھتے وہ بھی سمجھ جائیں گے۔ عام طور پر ان سادہ لوح لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ جیسی گُنجلک اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا وہ کردیا، اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی وہ نہیں چاہتی جیسے فقرے سُن سن کے میرے تو کان پک گئے ہیں۔ پہلے ان کو سمجھ تولیں یہ ہیں کیا بلا۔
وہ مُٹھی بھر لوگ جو کسی تنظیم یا ادارے کے اختیارات کا خوب استعمال کر سکیں، پالیسیاں بنا سکیں اور اُن پالیسیوں کو اپنے علاوہ باقی ماندہ افراد پر لاگو کروا سکیں۔ جیسے عدلیہ میں جج، آرمی میں کور کمانڈر، ریاست میں وزیراعظم، وزیر اعلی ، گورنر وغیرہ، کسی بھی منظم مذہبی ادارے کا امام/سربراہ، سینئیر سول سرونٹ سیکرٹری وغیرہ یا سیاسی یا مذہبی پارٹیوں کے سربراہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ طبقے کے نُمائندے ہیں۔
یہی لوگ پالیسیاں بناتے ہیں، نظریات کا کاروبار بھی کرتے ہیں اور اپنی شرائط پر کھیلتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ وہ لوگ ہیں جو باقی ماندہ لوگوں کیلئے TORs بناتے ہیں اور پھر ان TORs کو جب چاہیں ختم بھی کر دیتے ہیں۔ یہ بے چارے انتظام وانصرام کا بھاری بھرکم بوجھ اپنے کندھے پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ سمجھتے ہیں کہ دُنیا کے سیاہ و سفید کے مالک بھی یہی ہیں۔ مگر یہ اتنے سادہ لوح ہیں کہ کبھی بھی اپنے حقوق کیلئے انہوں نے آواز بُلند نہیں کی اور نہ ہی کبھی کوئی یونین بنائی جو ان کے حقوق کو اُجاگر کر سکے۔ ہاں البتہ باقی ماندہ لوگوں کی طرح طبقاتی مسئلہ یہاں پر بھی پایا جاتا ہے۔
جیسے مقامی اسٹیبلشمنٹ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ، مذہبی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ میں مقامی طور پر بااثر افراد جیسے ہمارے مُلک میں جاگیردار، سرمایہ دار، مذہبی پیشوا اور ملٹری میں کور کمانڈر، جنرل وغیرہ، مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں مُلکی لیول کے امام یا دینی جماعتوں کے سربراہ، سیاسی اسٹیبلشمنت میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان، سینٹرل کمیٹی یا کور کمیٹی کے ممبرزاور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ میں مُختلف ممالک کے سربراہان، بڑے بڑےاداروں کے سربراہان، امیر ترین افراد، ملٹی نیشنلز کمپنیوں کے مالک، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ کے اہم عہدوں پر فائز افراد اور ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے سربراہان یہ سب اس حرارکی کا حصہ ہیں۔ میرے خیال میں ان کی شناخت کا مسئلہ تو کسی حد تک ہم نے حل کر دیا اب شناخت کے بعد ان کے حقوق کا تعین بھی ہونا چاہیے کیونکہ شناخت اور حقوق کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
1۔ پیدائشی حقوق
دُنیا کے وسائل کو اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو مگر پوری دُنیا کے انسانی وسائل سے لے کر قدرتی وسائل تک رسائی اور اُن کا استعمال یہ پیدا ہوتے ہی کرنے لگتے ہیں۔
2۔سیاسی حقوق
پالیسیاں بنانا، حکمرانی کرنا، سیاسی پارٹیاں بنانا اور توڑنا، باقی ماندہ لوگوں کیلئے حقوق کا تعین کرنا، نظریہ گھڑنا، حکومتیں لانا اور اُن کو گرانا، جنگیں کرنا اور اُن کو رُکوانا، وسائل کی بندر بانٹ کرنا، جنت اور دوزخ میں داخل و خارج کروانا، ڈیوٹیاں بانٹنا اور ڈیوٹیاں لگانا ، پتہ اور لاپتہ کروانا یہ سب ان کے سیاسی حقوق ہیں۔
3۔ ثقافتی حقوق
فیشن ٹرینڈز سیٹ کرنا، منظور نظر زبانوں اور اقدار کو پروان چڑھانا، ہلال اور حرام کا تعین کرنا، مذہب اور دین کا اپنانا یا رد کرنا، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنا، تاریخ کو مُرتب اور مسخ کروانا، پسماندگی اور ترقی کے معیار کو طے کرنا ان کے ثقافتی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔
4۔ معاشی حقوق
دُنیا کو یہ منڈی کا مال سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک سب کچھ قابل خرید اور قابل فروخت ہے۔ یہ ہر قسم کے کاروبار کرتے ہیں اور اُس کاروبار کے نتیجے میں ہونے والے منافع کو یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ، جنسی استحصال، ڈرگ کا لین دین، اسلحے کی خرید و فروخت، قدرتی وسائل پر قبضہ گیری اور عقل و دانش کی ملکیت ان کے مشہور معاشی حقوق ہیں۔
5۔ مذہبی حقوق
مذہبی حقوق سے یہ رضا کارانہ طور پر دست بردار ہو گئے ہیں۔ مذہب کو انہوں نے معاشی حقوق کے خانے میں فٹ کر رکھا ہے۔
6۔انسانی حقوق
یہ بھی انہوں نے باقی ماندہ لوگوں کیلئے رکھ چھوڑے ہیں۔
لو جی اب بات کرو کتنے مہان لوگ ہیں نہ مذہبی حقوق لیتے ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق۔ ان حقوق کی قُربانی دینا کوئی آسان کام ہے؟ ہمیں دیکھ لو ہم ان حقوق کیلئے کتنا سنجیدہ رہتے ہیں۔ ہر وقت گلا پھاڑ پھاڑ کے انسانی حقوق اور مذہبی حقوق مانگتے رہتے ہیں۔ آو مل کر ان کے مذہبی اور انسانی حقوق کی جدو جہد کریں تاکہ ان کو بھی حقوق کے ضابطوں میں جکڑا جا سکے اور یہ بھی ہماری طرح “outsider” نہ رہیں۔ چلئے آخر میں غالب کی غزل پڑھئے کیونکہ یہ بے چارہ اردو شعرا کرام کا سربراہ ہوتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں بن سکا اور ہمیشہ اُن کےدر سے واپس لوٹ آیا۔تبھی تو اوپراور نیچے والی اسٹیبلشمنٹ نے “گودے” کو خوب سبق سکھایا:
ستائش گر ہے زاہد ، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع ، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا
دکھاؤں گا تماشہ، دی اگر فرصت زمانے نے
مِرا ہر داغِ دل ، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا
مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولٰی برقِ خرمن کا ، ہے خونِ گرم دہقاں کا
نہیں معلوم ، کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا