امتحانی نقل کا واویلا یا اس کے تدارک کے عوامل پر عمل درآمد
(ابو سانول)
میٹرک اور انٹر کے امتحانات سے قبل،دوران اور کچھ عرصے بعد تک نقل مافیا کا واویلا رہتا ہے۔پھر وقت کی گرد میں یہ معاملہ ایسے ہی دب جاتا ہے جیسے 70 سال سے ہم ہر متنازعہ معاملے اور مستقبل کی پالیسیوں کو دفناتے آئے ہیں۔تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرتا۔لیکن یقین ڈگری،سرٹیفکیٹ اور وہ بھی اچھے نمبروں والے پر زیادہ پختہ ہے۔ سو امتحان تو ایک فالتو مگر لازمی ضرورت ہے ایگزیکٹ نے یہ کام بھی آسان کردیا تھا لیکن برا ہو FBI کا جس نے اس معاملے میں مداخلت کرکے ایک پیسہ پھینک ،ڈگری دیکھ ۔تعلیمی خدمت کا قلع قمع کر دیا ۔ورنہ ہمارے دنیا بھر میں مانے جانے احتساب کے ادارے تو اپنی تحقیقات میں گنجائش پیدا کر ہی چکے تھے۔ آگے چل کر ایگزیکٹ نچلی سطح پر بھی کام شروع کرسکتا تھا ! ہمارے نجی اور سرکاری اسکولز میٹرک تک پہنچانے کیلئے بچوں کی جو تربیت کررہے ہیں اسکا نتیجہ اگر یہ بھی نا نکلے تو کیا نکلے۔ ہماری بات پر یقین نہیں تو ہر اسکول کے کچی پہلی سے آٹھویں جماعت تک کا رزلٹ نکلوا کر دیکھ لیں قسم ہے جو ایک بچہ بھی نالائق ثابت ہوجائے ۔اگر کوئی خبطی استاد درست مارکنگ کر دے تو بچوں کے والدین کی چیخ و پکار سے مالکان اسکول کا دل اسطرح پسیج جاتا ہے کہ وہ رد عمل میں ایسے خبطی استاد سے اسکول کو پاک کرنا فوری ضرورت سمجھتے ہیں۔انکا دوسرا فیصلہ بچے کی عقل و دانش کو اے ون گریڈ کے نمبر دینے کا ہوتا ہے جس کے بعد نا صرف بچے بلکہ انکے والدین کی معاشرے میں جھکی ناک ایک بار پھر اونچی ہوجاتی ہے۔اور اسکول کے ریوینیو میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ رزلٹ کے بعد پینا فلیکس پر 100 فی صد اے ون گریڈ کی خوش خبریاں انکی آمدنی میں اضافے کا ہی باعث بنتی ہیں۔
ہر سُو معاشرے کی انحطاط پزیری کا رونا رونے والے والدین اپنے بچوں کی قابلیت پر کسی کو شک کی اجازت دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ۔یہ ممکن ہے کہ بچے کی قابلیت پر شک کا مطلب والدین کی قابلیت پر شک ہو سکتا ہے اس لیے عزت کا طریقہ یہی ہے کہ والدین ہر صورت یہ یقینی بنائیں کہ انکے بچوں کا رزلٹ شاندار ہی رہے۔عقل سے نقل کی اس سوداگری کو بورڈ کے امتحانات میں میڈیا کی بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ جن امتحانات میں لاکھوں بچے شریک ہوں ان میں چند بچوں کی نقل کی خبریں دینا کہاں کی شرافت ہے؟ تعلیم کا کاروبار شہروں میں اس قدر تیزی سے پھیلا ہے کہ سرکار چھپتی پھر رہی ہے اور اب تو بر ملا کہا جانے لگا ہے کہ سرکار اکیلی تعلیم کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی۔اسکے بعد اگر پرائیویٹ اسکولز کی تنظیمیں حکومتی احکامات ماننے سے انکاری ہوجائیں تو شکایت کیسی۔ اگر اسکولز امتحانی سینٹرز قائم کروانے کیلئے بورڈ اہلکاروں سے ملی بھگت کریں تو کیا کریں ؟زندگی کے ہر کاروباری شعبے میں ہر کاروبار کا ایک سیزن ہوتا ہے تعلیمی کاروبار میں بورڈز کے امتحانات بھی ایک سیزن ہے۔
مختصراً اس طائرانہ طنزیہ جائزے کے بعد ضروری ہے کہ ہم اس جانب آپ کی توجہ مبذول کروائیں کہ ہم من حیث القوم اگر اپنے روشن مستقبل پر اجتماعی غورو فکر نہیں کریں گے تو کسی فرد،استاد،بچے یا بچوں کے والدین سے یہ توقع رکھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ ترقی یافتہ دنیا میں جہاں تعلیم نے ترقی میں اہم کردار ادا کیا وہیں تعلیم کی عزت نے تعلیم کو عام کرنے کا فریضہ سر انجام دیا ۔ہم اب تک اپنے معاشرے میں علم کو قابل عزت بنانے میں ہی ناکام ہیں۔ ڈاکٹر،انجینئر،استاد،ماہر معاشیات،ماہر عمرانیات،ماہر سماجیات،ادیب،شاعر،فنکار، گریجویٹ،ماسٹرز،پی ایچ ڈی بھی اس وقت تک قابل عزت نہیں جب تک وہ اپنی تعلیم کے ساتھ دولت مند ہونا ثابت نہ کریں یا معاشرے میں ایسے مقام پر فائز نظر نہ آئے جہاں سے وہ معاشرے کے دیگر افراد سے نمایاں ہو۔ اس وقت تک ایک چوکیدار بھی اسے سلام کرنا اپنی بے عزتی سمجھے گا۔ روزانہ کتنے ہی تعلیم یافتہ نوجوان سڑکوں پر ٹریفک اہلکاروں اور پولیس کی چیکنگ میں ہتک آمیز سلوک کا شکار ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلے پر وردی والی کسی بھی سروسز سے منسلک افراد ہر جگہ قانون سے بالاتر ہونے کے احساس کے ساتھ جیتے ہیں۔ تعلیم کی عزت کا مقام معاشرے میں یہ ہو تو کیسے بچے تعلیم حاصل کرنے اور استاد بلاتفریق تعلیم دینے کا فریضہ پورا کریں گے۔
عمومی طور پر ملک عزیز میں کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ تاثر یہی ہے کہ یہاں طاقت کا نظام رائج ہے۔ جسے عرف عام میں جنگل کا قانون کہتے ہیں ۔ لیکن کئی دانشور اس سے بھی اختلاف کرتے ہیں انکا کہنا یہ ہے کہ جنگل کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ان آراء کے درست ہونے یا غلط ہونے کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں اورآپ کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جو کچھ ریاستی پالیسی کے نام پر ہوتا رہا ہے اس میں سے اس کے علاوہ کچھ نکل ہی نہیں سکتا تھا ۔لیکن وقت کے ساتھ ریاست کی اس پالیسی اور طرز عمل کا منطقی نتیجہ طاقت کے کئی ریاستی و غیر ریاستی مراکز کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔جس کی وجہ سے دستور و جمہور کے مطابق قانون کی عمل داری ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ریاستی عمل داری کو چیلنج کرنے والے ان عناصر کی بیخ کنی پہلے مرحلے میں ضروری سمجھی گئی جو ڈائیلاگ کی بجائے مسلح طاقت کے ذریعے ریاست کو مغلوب کر رہے ہیں ۔جب کہ اگلے مرحلے میں گروہی،سیاسی،طبقاتی بنیادوں پر قانون کی عمل داری روندنے والوں کا قلع قمع لازمی ہوگا ا س مرحلے کی کامیابی میں نہ تو ضرب عضب معاون ہوگی اور نہ ہی رد الفساد کار گر۔ بلکہ اس جنگ کو جیتنے کیلئے قوم کی اکثریت کو تعلیم کی عزت کرنا ہوگی،قانون کی پاسداری کو شعار بنانا ہوگا،خود احتسابی کا عمل اپنانا ہوگا ،جھوٹ سے نفرت کرنا ہوگی،برداشت پیدا کرنی ہوگی، تحقیق اور جستجو کرنا ہوگی،دوسروں کے مذہب،مسلک کا احترام،قوم و زبان کی عزت کرنا ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر سیاسی لیڈر شپ کی عقیدہ پرستی کی بجائے سیاسی شعور کو انتخاب کی بنیاد بنانا ہوگا۔ ہمارے خیال میں ان عوامل پر عمل کے آغازسے ہی نقل جیسے قبیح افعال خود بخود ختم ہوجائیں گے اور پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر ایک با عزت پُر وقار مملکت کی حیثیت سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔