تارکین وطن اور مقامی مافیا

MH Chauhan
پروفیسر محمد حسین چوہان

تارکین وطن اور مقامی مافیا

از، پروفیسر محمد حسین چوہان

وطن عزیز سے جو بھی بیرونی ممالک میں قسمت آزمائی کے لئے جاتا ہے اس کی باقی ماندہ زندگی پیچھے گھر والوں کے لئے وقف ہوجاتی ہے، وہ دیار غیر میں سب کچھ اپنے وطن اور عزیز و اقارب کے لئے وقف کر دیتا ہے ، مگر یہ سب کچھ باہمی اعتماد و مروت کی فضا کے درمیان ہی ہوتا ہے،اگر مستفید ہونے والے اپنے عزیز کی مشقت کی سنگینی سے آگاہ نہ ہوں تو یہ رشتے بھی کانچ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں۔

بیرونی ممالک میں محنت ومشقت کرنے والے ہر طرح کی قربانی دیکر اپنے اعزہ کی غرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، مگر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق ان کے سرمایہ کی قدر نہیں کی جاتی اور مفت کا مال کھانے سے وہ صرف ہڈ حرام نہیں بن جاتے بلکہ مفت کا مال انہیں منشیات کے نشئی کی طرح بنا دیتا ہے۔

یہ صورتحال ہمیں اپنے دیہی علاقوں میں دیکھنے میں آتی ہے،جہاں کسی کا باپ بیٹا یا بھائی یورپ یا مڈل ایسٹ میں چلا گیا ،پیچھے گھر والوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔کچھ اللوں تلوں میں اس کی کمائی کو اڑا دیتے ہیں، کچھ بے فکری میں نشے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ کوئی اپنا رعب جمانے کی خاطر لڑائی جگھڑوں میں جمع پونجی لٹا دیتے ہیں۔بعض کو سیاست کا ایسا شوق چڑجاتا ہے کہ مقامی سیاست کا حصہ بن کر دولت کو رشوت اور سیاسی میلوں ٹھیلوں پر خرچ کر دیتے ہیں ۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی دوسری شادی نہیں کر سکا تو عاشقی کی پینگیں ضرور بڑھا لیتا ہے۔

یہ سارا کمال بیرونی ممالک میں آباد مشقت کی چکی میں پسنے والے اس مزدور کا ہوتا ہے جو اعتماد کر کے اپنا سب کچھ ان پر لٹا رہا ہوتا ہے،لیکن یہ صورتحال ہر کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی مگر اس کے مظاہر اکا دکا دیکھنے کو ضرور ملتے ہیں۔وہ تارکین وطن جن کے زر مبادلہ پر نہ صرف اس کا خاندان بلکہ پورا ملک انحصار کرتا ہے ،جب وہ اپنے ملک کو سدھارتا ہے تو اس کو قدم قدم پر عدم تحفظ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔اس کا اگر کوئی پلاٹ ہے تو وہ سرے سے غائب ہوتا ہے یا اس پر جھگڑا چل رہا ہوتا ہے۔

داد رسی کے لئے مقامی سیاستدان کے پاس جائے تو پہلے ہی اس کے زہن میں خیال آتا ہے چلو ایک مرغا پھنس گیا ہے۔عدالتوں والے بھی کسی یورپی اور ولائیتے کو دیکھ کر ایسے پھنسا دیتے ہیں کہ وہ مقامی سیاسی مافیا کے جال سے باہر نہیں نکل سکتا۔دیہاتی اور پہاڑی علاقوں میں قانوں و ادارے مقامی سیاسی مافیا کے زیر اثر چل رہے ہیں،جہاں کوئی بھی کام سیاسی مداخلت کے نغیر نہیں ہوتا۔اس بنا پر ایک متولی آدمی بھی مقامی سطح پر کبھی بھی سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوتا۔میرپور آزاد کشمیر میں ایسے واقعات روزانہ سننے کو ملتے ہیں،جن کی اکثریت یہاں برطانیہ میں آباد ہے

پہلے تو یہی سننے میں آتا تھا کہ ولائیت سے جانے والوں کو ائیر پورٹ پر کسٹم والوں نے دھر لیا،راستے میں پولیس ٹریفک نے زائد جرمانہ کی رقم بطور رشوت لے لی،برادری کے حاسدین نے اطلاع ملنے پر ڈاکووں سے اس کو لٹوا لیا۔پیسے جمع کر کر کے جو وہ بھجتا رہا گھر جانے پر معلوم ہوا کہ گھر والوں نے اللے تللوں میں اڑا دیا۔یا معیار زندگی اتنا اونچا کر دیا کہ باقی کچھ بچا ہی نہیں،مگر کس کو معلوم کہ اس مظلوم پردیسی نے نہ جی بھر کر نیند پوری کی اورنہ ہی فرصت میں چبا چبا کر نوالے کھائے۔

اس پر طرہ یہ ک جب یہ اپنے ملک میں جاتا ہے تو سب عزیز و اقارب نے اس کے ضروری استعمال شدہ چیزوں پر گہری نظر رکھی ہوتی ہے۔موبائل فون اور لیپ ٹاپ سر فہرست ہوتے ہیں۔واپسی پر ان کو ازراہ مروت ہتھیانے کی بھرپور کوششوں کا سلسلہ تیز تر ہوجاتا ہے۔بلئزر اور کوٹ بھی ان کی نظر بد سے نہیں بچ سکتا۔اس نے اعتماد کر کے اپنا کوٹ ہینگر پر لٹکا دیا تو لحاظ کر کے اس کو تو وہیں رہنے دیتے ہیں مگر بٹوہ یا رقم ضرور غائب ہو جاتی ہے، کسی متمو ل ولائتیے نے نوکر چا کر رکھ لیا تو وہ صرف تنخواہ پر گذارہ نہیں کرتا بلکہ بیٹی بیٹیوں کے تعلیمی اور شادی کے اخراجات کی لمبی فہرست آگے رکھ دے گا۔


مزید دیکھیے:  کبڑے کو لگی لات میں شفا کے امکانات از، شکور رافع


پیر و مولوی بھی خاص اہتمام سے ملیں گے تعریفی القابات سے ایسے نوازیں گے جو برطانیہ میں ملکہ کو بھی نہیں دیے جاتے تاکہ نذرانہ کی رقم میں اضافہ ہو سکے۔مگر دوسروں کی مدد و تالیف قلب پر کسی ولا ئیتی اور مڈل ایٹرن نے کبھی شکوہ نہیں کیا، حسب استطاعت سب کی مدد کرتے رہتے ہیں۔اور ان ہی کے دم قدم سے مقامی سطح پر گدی نشینوں کے چراغ بھی روشن ہیں،اور سیاست کا دیا بھی جلتا ہے،اور اپنے بیگانے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ہم سارا الزام ان کو نہیں دیتے بلکہ یہ بھی خدمت و مدارات میں اپنا حق ادا کر دیتے ہیں۔سب سے زیادہ تشوشناک بات یہ ہے کہ کہ بہت سے تارکین وطن مقامی سطح پر نہ صرف اپنے بینک اہلکاروں بلکہ اپنے عزیزوں کے ہاتھوں سے بھی لٹ چکے ہیں، ابھی ایک آدمی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد پمز میں داخل ہے، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بیٹوں کی شادی کرنے کے لئے آزاد کشمیر گیا، جہاں اس نے کئی سالوں میں جمع کر کے پچاس ہزار پونڈ اپنے بھائی کو بھیجے تاکہ مستقبل میں کام آ سکیں مگر جب وہ وہاں گیا تو دوسرے دن سارا گھر آگ کی لپیٹ میں آگیا، ساری جمع پونجی جل گئی۔

تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں مقامی سطح پر لوگوں نے نجی طح پر سودی کاروبار چلا رکھا ہے اور اس کی ساری رقم اس سود کی ادئگیوں کی نذر ہو گئی ہے،بھائی نے ڈرامہ رچا کر وہ رقم ہضم کرنے کے لئے گھر کو آگ لگا دی،متاثرہ ہ تارکین وطن صدمے کے باعث سیدھا ہسپتال پہنچ گیا،اسی طرح ایک کاروباری شخص بینک اہلکار کے ہاتھوں لٹ گیا اعتماد کر کے وہ چیک بک پر اپنے دستخط کر کے بینک ملازم کو دے آتا کہ میرے کہنے پر اتنا اتنا چیک فلاں آدمی کے لئے کاٹ دینا،پھر وہ بر طانیہ پلٹ آتا۔اب معلوم ہوا کہ اس کی ایک کروڑ سے زائد رقم بینک میں موجود ہی نہیں ہے۔

وجہ یہ تھی جب بھی وہ بینک میں جاتا تو اس کو اسپیشل پروٹو کول دیا جاتا جس سے سادہ لوح برطانوی ان کے چنگل میں پھنس گیا۔ایک معذور محنتی شخص نے کچھ عرصہ پہلے مقامی سطح پر زمین خرید کر کچھ دکانیں بنائیں،اب وہاں کی انتظامیہ اس سے پچیس لاکھ رشوت مانگ رہی ہے ورنہ وہ ان کو اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ کو بخوبی علم ہے کہیہ برطانوی شہری ہے اس کے پاس وقت نہیں،پھنس کر اتنی رقم دیکر گلو خلاصی کر دے گا۔اسی طرح تحصیل سہنسہ میں سودی کاروبار کرنے والا ایک تگڑا ا مافیا تیار ہو چکا ہے جس کے واردات ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بھاری شرح پر قرض دیتا ہے جن کے رشتہ دار بیرونی ممالک میں آباد ہیں اور اس کے عوض ان سے اسٹام پر دستخط کروا لیتا ہے،مطلوبہ رقم جب ان سے ادا نہیں ہوتی تو عدالت میں ان پر مقدمہ کر دیا جاتا ہے اور ان کی زمینیں حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اس مجبوری میں ان کے بیرونی ممالک میں قیام پذیر رشتہ دار وہ رقم ادا کرتے ہیں۔اسی طرح منشیات فروشوں کا گروہ متحرک ہے،جو ملفوف اشیا تحفے کی صورت میں برطانیہ اور مڈل ایسٹ جانے والے کے ہاتھ بڑی ہنر مندی سے تھما دیتے ہیں جن میں اکثریت پکڑی جاتی ہے اور عمر بھر کے لئے وہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔اسی طرح اسٹامپ پیپرز پر جاہل دیہاتیوں سے دستخط کر کے مہنگے داموں مال مویشی فروخت کیے جاتے ہیں،پھر مقررہ وقت پر رقم نہ ملنے پر ان پر عدالتوں میں کیس کئے جاتے ہیں۔

اس سارے کاروبار کے ڈانڈے برطانیہ میں آباد لوگوں کے رشتہ داروں سے ملتے ہیں ،جہاں سے مجبوری کے عالم میں یہ رقوم ادا کی جاتی ہیں۔اس مقامی مافیا پر کوئی ہاتھ ڈالنے کے لئے تیا رنہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مقامی سیاسی بر سر اقتدار جماعت کا ووٹر یا سپوٹر ہے یا اس کی برادری سے اس کا تعلق ہے کیونکہ جب تک محاسبہ اور احتجاج کی مقامی سطح پر سیاست نہیں ہو گی سماج دشمن عناصر کو ان معاشرتی برائیوں سے پاک نہیں کیا جا سکے گا ۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مقامی سطح پر منر ومحراب بھی خموش ہیں،پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست بھی گونگی ہے،ترقی پسندوں کی سماجی استحصال کیخالاف بھی آواز بلند نہیں ہوتی ۔صوفی بھی مفادات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، انتظامیہ بلیک میلنگ اور پیسے بٹورنے میں مصروف ہے، مفاداتی اور گروہی سیاست خیر کو پنپنے نہیں دیتی۔ روائیتی طرز سیاست نے کرپشن کو صوفیانہ مسلک کا درجہ دے رکھا ہے۔ برادری ازم نے میرٹ و انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔اس سلسلے میں مقامی سیاستدانوں کا اولین فرض بنتا ہے کہ برادری کی سیاست اور سیاسی مفاد سے بالاتر ہو کر اس مافیا کے خلاف کریک ڈاون کریں۔

چیف جسٹس آزاد کشمیر سے گزارش کرتے ہیں کہ اس طرح کے پس منظر سے تعلق رکنے والے اسٹامپ پیپرز کو کالعدم قرار دیا جائے،جو بھنسوں اور سودی قرضوں کی صورت میں لکھوائے جاتے ہیں۔منشیات فروشوں کے بڑے گروہوں پر ہاتھ ڈالا جائے ،جن کیوجہ سے سینکڑوں کنبے تباہ ہوچکے ہیں،ہزاروں افراد صحت سے محروم ہو چکے ہیں،درجنوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں۔منشیات کی کمائی سے اداروں کوخرید لیا گیا ہے،سیاسی ایوانوں کو طاقت بخشی گئی ہے،سماج دشمن سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ا عام لوگوں کی آنکھوں میں دحول جھونکنے کے لئے انتظامیہ چھوٹے پڑی فروشوں کو تو پکڑ لیتی ہے مگر ان کے مرکزی کردار سیاستدانوں کیساتھ بدستور سلفیاں لیتے رہتے ہیں۔