فکری میلان کے اظہار پر انتہا پسندی کی ہتھ کڑیاں
از، نعیم بیگ
حالات و حوادث زندگی کے ہر شعبے کی طرح ادب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اردو ادب سے جڑے لوگ بھی اس کلیے سے مُستثنیٰ نہیں۔ موجودہ زمانے کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے لوگ سقراطی حد تک خود آگاہ ہو چکے ہے؛ اتنے خود آگاہ کہ سوچوں کا لازمی نتیجہ ذہنی انتشار اور بے یقینی میں بدل گیا ہے؛ بل کہ اکثر یہ mistrust کی حد تک جا کر مُجوّزہ فکری و عملی اقدامات کو مکمل رَد کر دیتے ہیں۔
یوں ادبی شرح اور تفہیم کئی ایک لحاظ سے قابلِ قبول نہیں رہتی کیوں کہ وہ سب کچھ لکھاری کے نقطۂِ نظر سے پرے مَن ترا حاجی بگویم، تو مرا ملا بگو کی نذر ہو جاتی ہے اور وہ مجلس جہاں یہ ماحول ہو، انجمنِ ستائشِ باہمی کا ادارہ بن جاتی ہے۔
یہ تجربہ مجھے کئی برسوں سے لاہور میں ہونے والے روایتی مجلسی تنقید کے اجلاسوں میں بھی ہوا۔ چند ہفتے پہلے ایک شاعر دوست نے__ جو دوسرے صوبے سے ہیں اور لاہور کے باسی نہیں__ اس جانب توجہ مبذول کرائی۔
میرا اِن سے مختلف اوقات میں مکالمہ بھی ہوا، لیکن ادبی دنیا کی ہما ہمی میں کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔
خیر میں اس بات کا اردو کی ادبی تاریخ کے حوالوں سے شاہد ہوں کہ ہر عہد میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ ہم خیال اور ہم ذہن ادباء اور شاعر ایک ساتھ ایک گروپ کی صورت رہے ہیں اور اپنے نظریاتی مِحوَر کے گرد ہی گھومتے رہے ہیں، لیکن اِن کے ساتھ تب یہ ضرور تھا کہ ادبی polarisation انتہا پر نہ تھی۔
ہم سمجھتے رہے کہ صرف سماجی اور سیاسی میدان گرم ہے، ایسا ادبی میدان میں نہیں ہو سکتا؛ وقت نے ثابت کیا کہ اب ایسا ہو سکتا ہے۔
چہروں پر مسرت اور خوش گوار تأثر رکھتے ہوئے، اکثر دوست اب خطر ناک حد تک آپ کی سوچ کے خلاف ہوتے ہیں؛ ظاہر کریں نہ کریں، لیکن آپ سے مکالمہ تک نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا فطری رد عمل ہو؛ اور اگر ایسا ہے تو بنا مکالمہ آپ کیسے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ حق سچ کیا ہے؟ یوں یک طرفہ تحاریر پروپیگنڈا کا اوزار بن رہی ہیں۔
ادب کا مارکسی نظریہ جو ہمیں بہت کچھ دے سکتا تھا ہم نے اس سے کوئی بر وقت فائدہ نہ اٹھایا، بل کہ نئی نسل کے سماجی شعور میں جذب ہونے سے پہلے ہی اسے عملی طور پر معلق کر کے نئی نسل اور سماج کو مُلّا کے مذہب کے سوا ہر طرح کے نظریے یا تحریک سے الگ کر دیا۔
آج یہ صورت ہے کہ نہ ہم لبرل رہے ہیں، نہ قدامت پرست؛ ترقی پسند مارکسٹ رہے ہیں نہ جدیدیت پسند۔ ایک آپا دھاپی ہے کہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سیاسی و معاشی ابتری نے اجتماعی اور انفرادی شعور کو انتشاری سطح پر منجمد کر دیا ہے۔ ادیب واضح طور پر منقسم ہو چکا ہے۔
ہر چند کہ رائٹ اور لیفٹ ونگ کی اصطلاح اب متروک ہو چکی ہے لیکن اس اصطلاح کو نیا نام دیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ہو وہی رہا ہے جو منقسم سماج میں عدم برداشت و انتہا پسند سوچ کا مطمح نظر ہے۔ اور اِس کی ایک خاص وجہ سامنے ہے کیوں کہ میں ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ گذشتہ چالیس برس سے کچھ زائد ہونے کو آیا ہے۔
پوری قوم کو جہاں سیاسی و سماجی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں تعلیم سے محرومی نے ایک ایسے اجڈ mob کو تشکیل دیا ہے جہاں طاقت اور ہتھیار ایک مؤثر جادو کی چھڑی بن گئے ہیں جس سے ہر دروازہ کھل جاتا ہے۔ تہتر برس دانستہ جاہل رکھا گیا، تا کہ استعمار اور کالونائزرز/مالکوں کو اَن پڑھ مذہبی فائٹر میسر ہوتے رہیں۔
چند روز پہلے ممتاز ناول و افسانہ نگار نیلم احمد بشیر نے اپنے ایک مضمون پائے لاگوں بانو آپا جو ہم سب ویب سائٹ پر شائع ہوا اور فیس بک پر ان کی وال پر موجود ہے، اس میں انھوں نے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بارے میں چشم کشا واقعات رقم کیے ہیں۔ دیکھیں کوئی سچ کو کب تک دبائے بیٹھا رہے گا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو ان کی فیملی بالخصوص اپنے والد معروف ادیب و صحافی احمد بشیر کے حوالے سے چشم دید تھے۔
وقت نے ثابت کیا کہ حق سچ کھل کر سامنے آ ہی جاتا ہے۔ گینگ آف فائیو (میں ضیاء کے عہد میں پھلنے پھولنے والے ایلیٹ ادباء و شعرا کی فہرست میں ٹاپ فائیو کو گینگ آف فائیو کہتا ہوں) کے کَچے چٹھے کو آخر ایک دن کھلنا ہی تھا، سو نیلم احمد بشیر نے کھول دیا۔
ہمارے ہاں آج بھی عہدِ ضیاء کا تسلسل ہے۔ صرف اس نے اپنے اطوار بدلے ہیں، طریقۂِ کار بدلا ہے۔
اس ضمن میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، بیش تر ترقی پسند ادیب و شاعر اپنے دائرے میں مقیّد وہی ذہنی و جسمانی اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں، جو اُس ضیاء کے تاریک زمانے کا خاصا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیشہ مذہب کو استعمال کیا۔
اس عالمی سرمایہ دار نیو لبرل ازم کے تحت چرچ (وسیع تر معانی میں) کو مضبوط کر رہا ہے اور اپنی نو آبادیوں میں اِن ملکوں کے متعلقہ مذاہب کو، تا کہ سرمایے کا ارتکاز حسبِ منشاء مزید سکڑ کر دوسری دنیا، یعنی سوشلسٹ دنیا سے نکل جائے۔
ہمارے ہاں نئی ترامیم اور نئے قانون اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مذہبی انتہاؤں کو اب قانون کا سہارا دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں پنجاب میں تحفظِ بنیادِ اسلام مسودۂِ قانون اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، جس سے آزاد علم و فکر اور اذہان کے مؤثر اظہار کو پابندِ زنجیر کر دیا ہے۔