(شائستہ یاسمین)
انتہا پسندی جو معاشرے میں دوسرے کئی منفی رجحانات کو فروغ دینے میں اہم وجہ ہے۔ اس کی وجوہات کو دیکھا جائے تو وہ اگر چہ مختلف ہو سکتی ہیں مگر نتائج ہمیشہ نقصان کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ انفرادی طور پر ایک فرد کی زندگی جب اس انتہا پسندی سے تباہ ہوتی ہے تو اُس کے پیچھے ایک خاندان اُس کا خمیازہ بھگتا ہے اور پھر بلا واسطہ یا بالواسطہ اثر انداز تو ہوتا ہے لیکن نتیجتا مرد و خواتین بلا تفریق جنس، عمر، مذہب اور زبان اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنی زندگی میں رونما ہونے والے تمام مسائل سے آگاہ ہوتا ہے۔ غربت ، امتیازی سلوک ہیں جو بڑھ کر مایوسی میں بدل جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں موجود مسائل کو حل کرنے میں لگ جاتے ہیں اس میں زندگی کے معانی اور اس کے مقاصد ، گھر یا سکول کی زندگی میں مشکلات، سزا سے بھر پور زندگی، بورنگ سرگرمیاں، لا متناہی قوانین اور ضروریات اور کچھ دوستی کے مسائل شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ تمام مسائل عوامل ہیں جو کہ ایک انسان کو اس کے مسائل حل کرنے اور متبادل کی طرف پُش کرتے ہیں۔ جس سے انسان کا درد کم ہو جائے۔
ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہتی کہ اُسکی اولاد غلط راہ کو اختیار کرے اور منفی سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔ ماں کا خواب بچوں کا بہترین مستقبل دینا ہوتا ہے۔ ماؤں کو ابتدائی تنبیہی علامات سمجھانے کے لیے ڈرامہ سیریز “فصیل جاں سے آگے” (انکار) سے کہانی لی گئی ہے تاکہ مائیں انتہا پسندی کے عوامل کو سمجھ سکیں۔
کلپ1:
گھر میں چاہے کتنا اچھا اور مثبت ماحول ملے باہر اسے کئی لوگ ملتے ہیں جو اُن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کلپ2:
ماں بچوں میں ہونے والی مثبت اور منفی تبدیلیوں کو جلد سمجھ جاتی ہے۔
کلپ 3:
اگر والدین بر وقت کچھ نہ کر سکیں تو معاشرے کے ناسور عوامل نوجوان نسل کو مذہب اور زندگی کے دوسرے اہم معاملات میں غلط تشریحات پیش کر کے انہیں انتہا پسند سرگرمیوں کی طرف راغب کرتے ہیں۔
کلپ 4:
کلپ 5:
شہید کے ماں باپ سے بڑا تحفہ کچھ نہیں۔ میرے جنت میں جاتے ہی میرے صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہ معاف ہو جائیں گے۔
میرا کیا بنے گا؟ مستقبل؟
سب سے پہلے اگر ہم خاندان کی ظاہری شکل دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا ایک غریب گھرانا دکھایا گیا ہے۔ جس میں ایک والدہ اور ایک بیٹا رہتا ہے۔
ایک بات جو ان مکالموں سے سامنے آئی کہ ہم بالکل نہیں جانتے کہ کب ایک نوجوان انتہا پسندی کا راستہ اپناتا ہے لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے سے ایسے نہ تھے۔ پھر کیوں اس بچے نے ان انتہا پسند گروہوں میں شمولیت اختیار کی اور ان کی حمایت کی؟
1970کی ابتداء سے علماء، صحافی اور پولیس ماہرین نے کچھ لوگوں میں سے دہشتگرد عوامل کی تلاش شروع کی ۔ ان کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشتگرد مکمل پاگل یا برے نہیں تھے لیکن ان میں کوئی خاصیت بھی نہیں ہوتی۔ دہشتگرد پڑھے لکھے بھی ہو سکتے ہیں اور ا ن پڑھ بھی، یہ امیر یا غریب گھرانوں سے آتے ہیں۔ وہ اچھی طرح کسی بھی برادری میں ضمن ہونے صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اکیلے بھی ہو سکتے ہیں اور بچوں اور گھر والوں کے ساتھ بھی، وہ پہلے قانون پر عمل کرنے والے یا اکثر جرائم میں ملوث بھی ہو سکتے ہیں۔ دہشتگرد اپنی ابتدائی زندگی میں صدمے اور کسی بنا پر منفی روئیوں کا شکار ، یا پہلے ایک مستحکم اور پیار میں پرورش پانے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کو مختلف انداز سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کی منظر کشی کیلئے ماہرین نے پُش او ر پُل عوامل کی شناخت کی کہ کسی بندے پر دباؤ ڈالنے کا عمل کیا ہے جو انہیں دہشت گرد بنانے کی وجہ بنتا ہے۔ دہشتگردی کی طرف راغب کرنے کے عوا مل کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ساختی عوامل: غربت، سیاسی سرگرمیوں سے خروج، شکایات
نفسیاتی یا جذباتی عوامل: تعلق رکھنے والے، وقار، معنی، بدلہ
سماجی عوامل: خاندان ،ساتھی ،سکول
درجہ بالا عوامل میں اگر کہیں بھی کمی ہو جائے تو وہ فرد کو شدت پسندی کی طرف راغب کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پھر بہت سے انتہا پسندانہ واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر ان نوجوانوں کو کوئی راستہ دکھائی نہ دے تو صورتحال مزید بد تر ہو سکتی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے کہاں جائیں؟ کیونکہ نوجوان اپنے سوالات اور تجسس کو ختم کرنے کے لیے گھر سے باہر معاشرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو وہ مہم جوئی کا تجربہ کرنے کو بےقرار اور نئے لوگوں سے ملنے کے شوقین ہو تے ہیں۔ دنیا کو دلچسپ بنانے کے لیے نئے خیالات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس طرح وہ معاشرے اور اپنی حدود کو ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنے ساتھیوں کے مابین اپنی حیثیت کو سمجھانے کے لیے جذباتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر انہیں لگے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، اصل میں یا فرضی – تو وہ بدلہ لینے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ چاہے وہ بدلہ ان کا نقصان کرنے والے سے ہو یا معاشرے کے بے قصور لوگوں سے ہو۔ اس وقت ان سوالوں کے ساتھ نوجوان کسی بھی فرد، گروپ یا کسی تحریک کے پیغامات کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہوئے انہیں اپنا ہم نوا بنا سکتا ہے یا اس گروہ کی طرف راغب ہو سکتا ہے جو ان کی سوچ کے قریب ہو۔
بہت سے لوگ ،مقامات اور سرگرمیاں جو ماضی میں بچوں نے تجربہ یا مشاہدہ کیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدل چکی ہیں۔ میڈیا اور ٹیکنالوجی نے تبدیلی کے اس عمل کو تیز رفتار کر دیا ہے۔ جس ماحول میں ہم نے پہلے بچوں کی پرورش کی جاتی تھی۔ وہ بھی اب ویسا نہیں رہا جیسا ہم نے اپنے بزرگوں سے پایا۔ برادری/ خاندان کا ماحول شہروں میں ذریعہ معاش کی تلاش میں منتقلی سے بدل گیا۔ یہ بدلتے حالات ہمارے بچوں کے لیے ممکنہ خطرات اور چیلنجز کو بڑھا رہے ہیں۔ نوجوان اپنے اندر کچھ نیا کرنے کی اتنی بھر پور خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اس کے لئے اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ کسی بھی پُر خطر ، ناقابل بھرو سہ، غلط یا انتہا پسندانہ ذرائع کو بخوشی اپناتے ہیں۔ جو اکژ اوقات انسان کو سیاسی ، مذہبی ، لسانی یا کسی بھی دوسرے گروہ کے خلاف پر تشدد اور متعصب ہونے رویہ اپنانے کی وجہ بنتے ہیں ۔یا انتہا پسندانہ /منفی عناصر کی طرف سے کچھ مراعات اور دلچسپیاں ضرور ہوتی ہیں۔ وہ دلچسپ سرگرمیاں کسی تعلق یا مقصد سے پیش کر تے ہیں۔ وہ جوش و خروش اور امتیازی احساسات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اکثر ان کی ضروریات کو ان کی کمزوری سمجھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اور نوجوان ملنے والی حیثیت اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جس میں اکثر انہیں گاڑی یا اسلحہ استعمال کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی انتشار کی طرف راغب کرنے کے عوامل بھی ہوتے ہیں۔
پُل عوامل (Pull Factor(
قانونی یا غیر قانونی تنظیموں میں بھرتی کرنا
پیغام رسانی : سیاسی یا مذہبی نظریات یا حکایات
ایک حتمی وجہ جوکہ منفی انسان کے پُش اور پُل عوامل کے ساتھ ہے۔ یہ وجہ ذاتی مسائل یا چونکا دینے والے سانحے ہو سکتے ہیں جو کہ حتمی حوصلہ افزائی فراہم کرتے ہیں۔ نوجوان کو ان گروہوں میں بھرتی کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان گروہوں میں شامل کرنے والا دوست، رشتہ دار، واقف کاریا کوئی طاقتور اسپیکر ہو سکتا ہے جو انتہا پسند خیالات کو متعارف کروائے۔ اس صورتحال میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو پُل عوامل کے خلاف کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں؟ اس کے لئے ان کی روزمرہ مصر وفیات کو جان کر ، تنقیدی سوچ کو بڑھا وا دے کر، گھر میں بات چیت کر کے ،وسیع پیمانے پر حوصلہ افزائی کر کے اور خبر یا معلومات کے ذرائع فراہم کر کیان عوامل کو جانا جا سکتا ہے۔
■ بنیاد پرستی /انتہا پسندی کبھی کبھار اپنے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔ جب نوجوانوں میں شناخت بنانے کے مسائل عروج پر ہوتے ہیں۔ اگر انہیں معاشرے میں اپنا مقام نہ ملے تو وہ کسی اور کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں یا نشہ آور ادویات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور مائیں اپنی جوان اولاد کو ان کے شناختی بحران میں مدد کر سکتی ہیں اور انہیں ان کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق اچھا راستہ فراہم کر سکتی ہیں۔
■ پُش اور پُل عوامل سے بنیاد پرست انسان کی وضاحت کرنے میں آسانی ہوگی، یہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنے والا عمل ہے ۔ جہاں انسان انتہا پسندی کی طرف چل پڑتا ہے اور کسی بھی وقت راہ سے بھٹک جاتا ہے ۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ بہت سے انتہا پسند اور دہشتگرد لوگ گروہ میں یقین ، تعلق اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے شامل ہوئے جو انہیں ان کے بچپن میں نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی بھی اپنے والدین کی نگرانی میں ہیں۔ تو ایک خاندان کیا کر سکتا ہے؟ خاندان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ترتیب شدہ خاندان جہاں مامتا کا پیار بچے کو تبدیل کر سکتا ہے جب ماں قیادت کا پرچار کرے تو بچہ اسے رول ماڈل کے طور پر سمجھتا ہے۔ اس سے ان کے بچوں اور بچیوں میں ان کی حیثیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ ان کی اچھی مثالوں سے سیکھتیں ہیں۔
■ سب سے زیادہ اہم وقت بلوغت کا ہے ۔ 12سال کی عمر سے شروع ہونے والی بلوغت جہاں بچہ شناخت کے بحران سے دوچار ہوتا ہے ۔ بلوغت کا دور مزید 10سال تک چلتا ہے اور جس میں اسے معاشرے میں اپنا کردار بنانا اور جاننا ہوتا ہے۔ بالغ افراد اپنے اختیارات اور تعلیم ، مستقبل ، نوکری ، شادی اور عزائم کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔اگر وہ معاشرے میں اپنا مقام بنانے میں ناکام ہو جائیں تو وہ متبادل کی تلاش میں تشہیری مہم اور فلمی ستاروں کی نقل کر نے کا لبادہ ، مضبوط اور بنیادی عقائد اور کرشماتی رہنماؤں کی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا ناکامی کے درد سے وہ نشہ آور ادویات کا استعمال اور لا تعلقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔ یہ تمام نوجوانوں کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے مصیبت کا وقت ہوتا ہے۔ بالغ افراد کو بھی پیار، حمایت ، مشورے اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے۔
■بالغ افراد کے لیے جواب کا ملنا ضروری ہوتا ہے اور وہ اس عمل سے خود ہی گزرتے ہیں اور ان کے اپنے ہی تجربات ہوتے ہیں ۔ خاندان جو کہ نئے تجربات کرنے کی اجازت نہیں دیتے یا غلطی کیے جانے کے ڈر سے یا زیادہ تحفظ دینے کی وجہ سے بالغ افراد پُل عوامل کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ خاندان جو بہت زیادہ سخت ہوں ، قوانین سے بھر پور ہوں، خاندان جو بورنگ اور کشیدہ ہوں وہ بھی مسئلہ ہیں۔ ایک خاندان جو بالغ بچوں کو ان کے احساسات اور جذبات کا اظہار کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا، وہ فیصلہ کرتا ہے اور سرد ماحول نوجوانوں کو ان سے دور کرنے اور دوسرے حقیقی خاندان جو اسے وقار دے ، کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
■خاندان جو اپنے بچوں کو کھانا اور تحفظ کے علاوہ اچھی نوکری اور ایک مہذب زندگی پیش کرتے ہیں اگر والدین بچوں کے تجربات کو زیر بحث لائیں اور انہیں رہنمائی فراہم کریں۔ اس سے ایک اچھا اور بہتر تعلق استوار ہونے میں مد د ملے گی۔ ورنہ قوانین اور نا ہی حد بندی جس سے ان کے بچے اپنے آپ کو مشکل حالات میں زیادہ محفوظ سمجھیں گے۔ پرورش کرنا دھکیلنا نہیں ہے، نہ ہی بھولنا ہے، پرورش کرنا دیکھنا، مشورے دینا اور ضرورت پڑنے پر مدد کرنا ہے۔
■ بہت سے پُل عوامل قانون کے لبادے سے باہر موجود ہوتے ہیں جو کہ گھر اور معاشرے سے دھکیلے جانے والے بچے کا انتظار کرتے ہیں ، جو یا تو منشیات فروش، دہشت گرد تنظیموں کے مالک اور محلہ کے دھڑہ بند ہوتے ہیں ۔ کبھی تو یہ نوجوانوں کے لیے بہت ہی پر کشش تنظیمیں ہوتی ہیں۔ اب سوال ہے کہ یہ کیا کر رہے ہوتے ہیں ؟ یہ وہی کرتے ہیں جو حکومت اور گھر والوں کا کام ہے ۔ یہ نوجوانوں کو خود اعتمادی ، طاقت اور بامقصد بنانے کے احساس کے ساتھ روزگار بھی دیتے ہیں ۔اس ساری صورتحال میں ضرورت یہ ہے کہ ایک ماں خود کو ایکٹیو ماں بنائے اور گھر والوں کو پیچیدہ دنیا سے بچانے کے لیے اور بچوں کے ساتھ مثبت تعلقات اور صحت مندانہ طرز کی خوشی ، چیلنج اور مضبوط تعمیر میں مدد کرے تاکہ مضبوط بچے اور مستحکم خاندان بنانے میں مدد ہوسکے۔
■ بلوغت کی عمر میں لگاتار سیکھنے کے مرحلے ہوتے ہیں۔ جو دس سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے اور 25سال کے لگ بھگ تک رہتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچہ اپنے بارے میں سوالات کرنا شروع کرتا ہے ’’میں کون ہوں‘‘،’’ میں کہاں جا رہا ہوں‘‘ ایک بچے کی زندگی کا نقطہ نظر اس کے گھر سے ہی تبدیل ہوتا ہے جب وہ معاشرے کی طرف زیادہ دیکھتا ہے۔ یہ بلوغت کا وقت ہے جب نوجوان بچے اور بچیاں جسم میں ہارمون کی تبدیلی اور نئے سماجی تعلقات گھر اور باہر کی دنیا کے مابین بنانے کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں ۔
■ جب نوجوان کسی جدوجہد کا مقابلہ نہیں کر پاتے تو کیا ہوتا ہے؟ کیا انہیں اپنے غصّے کے اظہار کا کوئی مثبت راستہ نہیں ملتا؟اور کیا وہ مثبت رجحان کے باعث تبدیلی کی تلاش کرتے ہیں؟ (تجاویز: وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں ہیں جو انکے مسائل حل کرے اور ان کی مشکلات کم کرے۔ وہ غیر ضروری خطرہ مول لے رہے ہیں ، ناقابل بھرو سہ جوابات مل رہے ہیں۔ غلط اور انتہا پسند ذرائع، سیاق وسباق کے بغیر سوالات ، با مقصد یا معیاری جواب نہیں مل رہااور جس سے وہ مطیع ، رازدار، پہل میں کمی، اور پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔
■بالغ اور نوجوان افراد میں بنیاد پرستی/انتہا پسندی کا عمل ان کے شناختی بحران کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔ جہاں انہیں ذاتی اور سماجی دونوں سطح پر خطرہ ہوتا ہے جیسا کہ جذباتی خطرہ ، لاتعلقی ، ذاتی یا گروہی انتقام اور سماج میں اپنے کردار کی تلاش کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی حالات پر عدم اطمینان کہ وہ بُرے یا پاگل لوگ نہیں ہیں۔ اگر کوئی نوجوان یہ محسوس کرے کہ اس نے زندگی میں کوئی ناانصافی پر مبنی تجربہ کیا ہے۔ حقیقت میں یا تصوراتی طور پر وہ بھی بدلے اور معاوضے کا مستحق ہے۔
بنیاد پرستی کا راستہ چار مراحل پر مشتمل ہے۔
1: بلوغت کے دوران مشکلات ایک عام رجحان ہے یہ مشکلات انتہا پسندی کی بیرونی اثر اندازی کے لیے بہترین معاون ہیں اگر مرکزی یا مثبت سرگرمیوں کی طرف توجہ نہ دلائی جائے۔ خاندان اور معاشرے میں کچھ غیر بیانیہ قوانین اور غلط رسومات ہوتی ہیں اور نوجوان افراد کو ان کے بارے اپنی مایوسی ، فرقہ بندیوں میں دلچسپی اور خود کشی کے خیالات پر بات کرنے نہیں دی جاتی ۔ بڑے بچے (جوان افراد) دوسرے موضوعات جیسے کہ جنسی پریشانی اور شفقت کو گھر والوں کے درمیان بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
2: ذاتیات سیاسی ہوتی ہیں۔ انتہا پسندی کو مزید شدید بنانے کا راستہ بیرونی عوامل کی طرف سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ایک انسان کے سوالات اور شکایات سکول کے کام ، کھیل کے میدان میں اور آرٹ پر مناسب طریقے سے عمل درآمد نہ ہو تو نوجوان نا قابل اعتماد، غلط اور پر تشدد ذرائع سے معیار اور مقصد کی پرواہ کیے بغیر جواب تلاش کرتے ہیں۔ میڈیا مضبوط کردار ادا کرتا ہے مثلاً جو چیزیں نوجوان میڈیا پر دیکھ یا پڑھ سکتے ہیں اس سے وہ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ بنیاد پرستی کی تعلیم کے ذرائع انٹرنیٹ میں مواد کی شکل میں موجود ہیں یا انتہا پسند رہنما جو رول ماڈل بن جاتے ہیں ۔ مائیں ان بیرونی مداخلت کو مضبوط والد ینی رشتے استوار کر کے ، اہلِ خانہ کی سرگرمیوں کو سن اور منظم کر کے بچا سکتی ہیں ۔
3: تنہائی مجبور کر دیتی ہے۔ انتہا پسندی /بنیاد پرستی کا اثر براہ راست بھرتی کر نے والے سے ہو سکتا ہے ۔ ایک بندہ جو انتہا پسند تنظیم کے لیے کوئی ممبر تلاش کر رہا ہے ، بھرتی کرنے والا دوست، عزیز رشتے دار اور نیا واقف کار بھی ہو سکتا ہے۔ حمایت میں جواب پر وہ سننے کی پیشکش کر سکتے ہیں کہ جو گھر یا روزمرہ زندگی میں نہ ہو۔ کچھ بھرتی کرنے والے ان لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جن کی اس طرح کی ضرورت ہو۔ بھرتی کرنے والے مکمل اور جامع بات کرتے ہیں اور غلطی یا سوچنے کی گنجائش نہیں چھوڑتے۔
اس بات کا ثبوت ہے کہ والدین اور گھروالے ان انتہا پسند تنظیموں سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ماں مشکل سے مشکل چیز کو بھی منّظم کر سکتی ہے اگر اس کے گھر کے افراد کچھ غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔ ماں اپنے بچے کو انتہا پسند ی سے سماج پرستی کی طرف راغب کر سکتی ہے۔ جیسے ہی بچے سے انتہا پسندی کی حقیقت بے نقاب ہو گی ویسے ہی وہ درست سوچنے پر مجبور ہوں جائینگے ۔
4: باہر کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بنیاد پرستی/انتہا پسندی کی آخری حد ہے جب انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کے لیے اب کوئی راستہ نہیں بچا۔ انتہا پسند لوگوں کے لیے تشدد غیر اخلاقی نہیں ہوتا جب کہ اسکا کوئی مقصد ہو، جب کوئی حقیقی فائدہ یا صلہ ملتا ہو(پیسے یا گاڑی کی صورت میں)اور کوئی ذاتی ضرورت ہو۔ مائیں( نرم مزاجی سے بہترین تعلقات ، سننے سے، تعلیم دینے سے اور خود اعتمادی کو مضبوط کر کے) بچے کو انتہا پسندی کی سرگرمیوں سے دور کر سکتی ہیں ۔ اس کے لیے آپ کو حمایتی نیٹ ورک بنانے کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: اس آرٹیکل کا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور انتہا پسندی کو زیر بحث لانا ہے جو ہماری خواتین خاص کر ماؤں کی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ نوجوان نسل میں برداشت اور رواداری پیدا کرنے کے لئے ماؤں کے کردار پر بات کرنی ہے کہ کیسے اپنے بچوں کو خاص کر بیٹوں کو بہتر طریقے سے تربیت کر کے معاشرے کا پر امن شہری بنا سکتی ہیں اور دوسرے ماؤں کے بیٹوں اور رشتے داروں کو شدت پسندی سے بچا سکتی ہیں۔