بڑھاپے سے پیار کیوں ہوتا ہے
از، یاسر چٹھہ
تین، چار، پانچ دن پہلے میں نے FaceApp سے جب پہلی بار اپنی تصویر میں time transformation دیکھی تو اَوّل اَوّل کا احساس خوف اور بے چارگی کا تھا۔ خوف ایسا کہ جب کوئی چیز اچانک اور پَل جھپکنے میں آپ کے سامنے آن پھَن پھیلائے؛ بے چارگی کا احساس اس بات پر کہ ہم اپنی مختاری کی انانیت میں عناصرِ فطرت اور وقت کے آگے یوں ہیں جیسے کبھی دیوتاؤں کے آگے کسی انسان کی بَلّی چڑھنے کی آخری دو چار سانسیں۔
تصویر میں یہ تبدیلی، بَہ شرطِ زندگی، اس قدر حقیقتِ مُنتظر ایسی لگی کہ اپنی حیثیت کا ہر موجودہ لمحہ کسی آنے والے لمحے سے کئی گُنا بھلا لگا۔ حالاں کہ اکثریتِ انسانی در پیش لمحے سے گھبرا کر ماضی کے منتخب لمحات، دنوں، ہفتوں، مہینوں، سالوں میں پناہ گزین ہونا پسند کرتی ہے۔
اور یہ جوف اور بے چارگی کا مخلوط احساس، کسی ایک لمحے کا جُزو نہیں تھا، بَل کہ، وقت کے بے رحم اور جابر حقیقت ہونے کا احساس کئی اگلے لمحوں تک سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
نتیجہ، اُس لمحے آپ جبر و اختیار کے بُحران میں فوری طور پر جبر کے آگے وہ کبوتر بن جائیں جس پر بِلی جھپٹنے کو مستعد ہو؛ ہر چند کہ مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ ہارنا اور ہار قبول کر لینا میری پہلی پہلی ترجیح نہیں ہوتی، اور ایسا ہو جانے کو انسانیت کی کم ہمتی اور تضحیک سمجھتا ہوں۔ پر اس لمحے، جو تھا، وہ کئی اعتقادات کا بھرشٹ تھا۔
بس، بَہ ظاہر، چپ سی لگ گئی، لیکن ذہن و شعور میں البتہ شور سا بپا تھا۔ وہ جس انسان کو ہم نے ابو جہل سے تعبیر کرنا عادت بنائی ہوئی ہے، وہ جس کا نصیبہ نبی اکرمﷺ کی دعا کی قبولیت کے لمحے کسی اور کے حق میں پھسل گیا تھا، اس کی موت کا لمحہ یاد آ رہا تھا۔
ہمارا آرٹ، ادب اور فنون کی آزادی و حریت کی گرامر اور عمومی عادات و ردِّ عادات سے لرزیدہ معاشرت تھوڑا سا شخصی و معاشرتی اعتماد حاصل کر لے تو اس لمحے کو celebrate کرنے کے لیے، اس کے علاوہ کسی کی بھی شکستگی کے لمحے واسطے نمونۂِ اجتہاد و ہدایت نکالا جا سکتا تھا۔ اس وقت میں بھی اپنے اس نا بیان کردہ اور صرف اشارہ شدہ لمحے کی کسی پرچھائی میں بھی تھا۔ اس لمحے کے خاموش طوفان کی کچھ اور تفصیل کرتا ہوں۔
یہ بھی کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اچھا بھلا جذباتی انسان بھی ہوں۔ جذبات و احساسات کو انسانی سرمایۂِ کُل میں سے، اور اہم صفات میں سے ایک اہم درجے کی صفت سمجھتا ہوں۔ اپنی تصویر کی digital time forwarding, and its just twisting my picture’s pixels into a new reality کا شکار، یا شاہ کار، نئی تصویر میرے موجودہ چہرے اور آنکھوں میں ہلچل مچانے کی ہر حد تک گئی۔ آنسو بھی آنے کو اُمڈے؛ پر فریدُون اور جہاں یار (راقم کے بیٹے) پاس تھے، ضبط کو اپنا احساسی فرض بنانا پڑا۔
وجہ یہ تھی کہ فریدون ہم والدین کی کسی تکلیف اور احساس کا بَہ غور مشاہدہ کرتے ہیں، اور اس پر فعّال اور ہم احساسی سے مُعَطّر ردِّ عمل دیتے ہیں۔ وہ تو پھولوں، پودوں، گھاس کے پتوں، ہوا، پانی، اپنے کھلونوں، اپنے کارٹونی ناشر موبائل فون سے بھی ایسے باتیں کرتے ہیں کہ جیسے ان کے اندر زندوں جیسے احساسات ہوں۔
شاید یہ احساس اپنے دادا، پردادا، اور اپنے ابا سے جینیاتی یاد داشت کے پَروں اور کاندھوں پر بیٹھ کر آج فریدون تک پہنچے ہیں۔ جہاں یار ابھی جذبات کی نسبتاً زیادہ معروف شکلوں اور اظہارات کو اپنی روح اور خیال بیانی کے رُوئیں رُوئیں میں سمیٹنے کا شعور حاصل کر رہے ہیں۔ ابھی وہ ہمارا مشاہدہ زیادہ کرتے ہیں، ردِ عمل اور عمل معروف انداز میں کم تخلیق و بیان کرتے ہیں۔ وہ رونے اور ہنسنے میں اپنی بِپتائیں ظاہر کرتے ہیں۔
ابھی جینیاتی یاد داشت کی بات کی ہے تو عرض کرتا ہوں کہ مجھے یاد ہے اپنے بچپن میں جب ہم گاؤں میں رہتے تھے تو ہمارے دادا اپنی سواری کے لیے استعمال ہونے والی گھوڑی کو پُتّر کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح بیلوں کی بھی بڑی پذیرائی ہوتی تھی۔ فصلوں اور درختوں کو بھی ذی روح مانا جاتا تھا۔ (بس جی آج کے millennial شعور و تخیل کے لیے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک lame سا جذباتی مزاحیہ متن ہو، سادہ لوحی اور احمقانہ پَن کو روحانی اور وجودی tame digital expression کا لغو،absurd، نمونہ لگتا ہو۔ پر جو ہے، وہ ہے۔) ہماری یاد داشتیں اپنے خاص clock رکھتی ہیں۔ کسی William Blake کو کبھی کسی دنیا دار قسم کے کتابی و فکری تاجر کو ایک خط لکھنا پڑا تھا، جس کی کچھ ٹُکریاں نقل کرتا ہوں:
And I know that this world is a world of imagination and vision. I see every thing I paint in this world, but everybody does not see alike.To the eyes of a miser a guinea is far more beautiful than the Sun, and a bag worn with the use of money has more beautiful proportions than a vine filled with grapes. The tree which moves some to tears of joy is in the eyes of others only a green thing which stands in the way. Some see nature all ridicule and deformity, and by these I shall not regulate my proportions; and some scarce see nature at all. But to the eyes of the man of imagination, nature is imagination itself. As a man is, so he sees.
[…]
You certainly mistake, when you say that the visions of fancy are not to be found in this world. To me this world is all one continued vision of fancy or imagination, and I feel flattered when I am told so.
بس تو پھر کہوں گا کہ کسان اور دیہاتی فطرت کی گود میں پلتا ہے، فطرت کو اپنی تعلق دار اور، زندہ وجود و شعور سمجھتا ہے۔
پس فریدون اور جہاں یار کے متعلق اس لمحے میں سوچا کہ یہ دونوں پوری طرح ان عمروں میں نہیں کہ انہیں جذبات کے وقتی بحران یا شاید کچھ قارئین کے لیے melodrama کے سپرد کروں۔ اسی لیے ضبط کی بوجھلتا کو بَہ مشکل جھیلا، اور جھیلنا تھا۔
کچھ وقت گزرتا ہے۔ کسی بھی نوع کا صنف کا لکھنے کا لمحہ، اور، بَہ طورِ خاص، نثر لکھنے کا لمحہ بَہ ہر حال، جس کیفیتی سچ کا اظہاریہ ہو، وہ کوئی دیگر اور پسِ تجربہ نوعیت کا لمحہ بھی ہوتا ہے … بہت حد تک۔
سو، دوسرے زاویے، یعنی macho man perspective، سے دیکھوں تو یہ کم زوری کا لمحہ تھا۔ علمی اندازِ فکر رکھنے والی اکثریتِ افراد کے لیے تو یہ بات تقریباً ایک بَہ دیہی اعتقاد ہے کہ ہمارا زاویۂِ نظر ہمارے مشاہدے کا تعین و تحدید کرتا ہے۔
اس نئے لمحے میں جو شاید عمومی دنیا داری کا لمحہ تھا، کہ آپ داری کا لمحہ تو اب بِیت چکا تھا، فوری طور پر میں نے فون سے FaceApp، اس کی edited تصویر سمیت حذف، delete، کر دی۔
دو، چاردن، شاید پانچ دن خوف، بے چارگی، حذف کاری، اور macho man feeling کی ٹُکریوں کے پار گزرتے ہیں… ۔
بہت سارے لوگوں کو سوشل میڈیا پر اس دوران اپنی edited تصاویر شیئر کرتے دیکھتا ہوں۔ وقت کے وقفوں سے یہ app اپنا تاثر عمومیت کے ایک نوع کے وقوفی میدان، cognitive domain، میں لے آتی ہے۔
آج پھر وہی FaceApp انسٹال کرتا ہوں۔ (یہ آج پتا نہیں کون سی آج ہے، میں اس کو مُعیّن نہیں کر رہا، ہر ایک کی یہ کوئی اپنی مختلف آج ہو سکتی ہے۔ یہ کسی پر بھی اپنے چنیدہ لمحے میں آتی ہے، یا وہ لے آتے ہیں۔) دل بڑا کر کے پھر اپنی تصویر edit کرتا ہوں۔
اس app میں سے عمر کو آگے بڑھا کر پیش کرنے کا option اختیار کرتا ہوں۔
اس آج میں احساسات عجب طریقے سے بدلتے ہیں۔ آج تصویر تو وہی ہے، پر آج تصویر سے محبت کا وہ پہلو سامنے آیا کہ جس سے رنگ لے کر میری شکل صورت بنی۔ آج اپنے بڑھاپے کی تصویر کے اندر سے مجھے میرے ماں باپ کے خد و خال نظر آتے ہیں۔
آج ٹیکنالوجی نے مجھے خوف زدہ ہونے کے احساسی box میں نہیں ڈالا۔ آج مجھ میں، میری آنکھوں میں، میری آنکھوں کی کناریوں اور کنپٹیوں سے ذرا پہلے کی جگہوں میں میرے جنمنے والے جھلکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی مجھے کوئی دندناتی، menacing، چیز نہیں لگی۔
کیا ٹیکنالوجی مجھے اپنے دادا کی گھوڑی تو نہیں لگنے لگی؟ یہ میرا مجھ سے ایسا سوال ہے، جس کا جواب بھی مجھے ہی دینا ہے۔ لیکن آپ اپنے آپ سے پوچھیے، خود کو آئینے سے رُو بَہ رُو کیجیے اور سوچیے کہ آپ ٹیکنالوجی سے کس رشتے میں منسلک ہیں؟ مخاصمانہ، antagonistic، یا برادرانہ fraternal…؟ یا، پھر خوف آمیز و خوف آلود؟