اقبال فہیم جوزی، غیر مانوس جمالیات تک کا سفر
از، رفیع اللہ میاں
اچھے اچھے شاعر ہیں، غزل میں کھوئے ہوئے، نئی معنویت کو منکشف کرتے ہوئے۔ ادھر ہمارے آس پاس اصناف اور ہیئت کا پرانا جھگڑا بھی ہے۔
کچھ تہمتیں ہیں جو ہیئتوں پر دھری جاتی ہیں۔ کبھی غزل پر عورت سے باتوں کی تہمت، کبھی نثری نظم پر مضامین ہائے تنوع اور پیچیدگی کی تہمت۔ جمیل الرّحمان کے ہاں معنی کی بہت زیادہ موضوعیت کے باعث اگر پیچیدگی ہے، لیکن فکر کے وسیع تناظر کے ساتھ، تو ابرار احمد کے ہاں گاؤں اور شہر، خالص انسان اور زندگی کے نئے ہنگاموں کے درمیان ایک سادہ پگ ڈنڈی ہے، جس پر رائیگانی کا شدید احساس نظمیں بکھیرتا ہے۔ نصیر احمد ناصر کے ہاں نثری نظم کی ایک اور ہی شان ملتی ہے، کتنے موضوعات ہیں وہاں، کتنی گہرائی اور وسعت ہے، اور ایک طرزِ بیان۔
اور اب اقبال فہیم جوزی کا مجموعہ میں کوئی اور آپ چاہیں تو گھر کی پوری چھت کھول کر سموچا آسمان سمیٹ لیں، چاہیں تو شام سمے ایک کھڑکی کھول کر ٹھنڈی ہوا آنے دیں۔
جوزی نے بھی نظمیں کہتے کہتے ایک کھڑکی کھولی __ محبت کی، من بھیتر کی، محبوب کی سمت، ایک من چاہی عورت، ایک اورا، ایک وجود، ایک خوش بو اور ایک خیال۔
جوزی نے غزل کی طرح محسوس ہونے والی نظمیں بھی لکھی ہیں۔ نظمیں ہیں جو کہتی ہیں کہ ہمیں غزل کی طرح محسوس کر کے آگے بڑھ جاؤ کہ فاصلے ابدی ہیں، ہمارے اندر وہ خیال، وہ خوش بو، وہ محبوب مستور ہے، جسے تم برسوں تک سوچتے رہے ہو۔
ہم اب نثری نظموں کے مجموعے پڑھتے رہتے ہیں، لیکن ایک بات جو اس مجموعے کے مطالعے سے سامنے آتی ہے، ضرورت سے متعلق ہے؛ ان نظموں کا مطالعہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ایک کتاب آپ پڑھتے ہیں، اور سرشاری محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں واہ کیا نظمیں ہیں، اور ایک کتاب کہتی ہے میرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ یہ اقبال فہیم جوزی ہیں۔ کبھی کھڑکی کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، کبھی گھر کی چھت۔ جہاں ان کی نظم تھوڑی طویل ہوتی ہے، گھر کی چھت کھل جاتی ہے، غزل کا زورِ احساس نثری نظم کے وسعتِ احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور کبھی کبھی نظریے میں بدل جانے کا احساس۔
تجدید عزم و وفا تعارف و تبصرۂِ کتاب از، قمر سبزواری
سدرہ سحر عمران کی انتباہی شاعری از، ڈاکٹر صلا حُ الدِّین درویش
یہ نظمیں ہیں ایک بے انت پت جھڑ کی، بے کراں ہجر کی، بے حد دوریوں کی۔ کچھ نظموں میں میر کا درد محسوس ہوتا ہے، کچھ میں غالب کی شدت؛ کچھ نظموں میں شاعر کا پیچیدہ طرزِ خیال ملتا ہے اور کئی ساری نظمیں سادہ ہونے کے باوجود تکرار کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ نظمیں کہتی ہیں ہمیں پڑھے جانے کی ضرورت ہے، بار بار پڑھے جانے کی۔
میں کافی دنوں سے اقبال فہیم جوزی کا مجموعہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، کئی بار ناکامی ہوئی۔ پتا نہیں، آپ کبھی اس تجربے سے گزرتے ہیں یا نہیں، کہ کچھ اہم پڑھنا چاہیں اور کام یابی نہ ملے۔ کتاب اٹھائیں، ورق گردانی کریں اور رکھ دیں۔ پھر اٹھائیں، ورق گردانی کریں اور رکھ دیں۔ پھر اٹھائیں، ورق گردانی کریں اور رکھ دیں۔ کبھی خود پر غصہ آئے اور کبھی مصنف پر۔ آخرِ کار، وہ دروازہ مل جائے جس سے آپ کتاب کے متن میں داخل ہو جاتے ہیں، اور آپ کی ساری کوفت دور ہو جاتی ہے، بے زاری فنا ہو جاتی ہے، اور آپ جمالیاتی عناصر کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔
اقبال فہیم جوزی کی شاعری سے مانوس ہونا پڑتا ہے؛ یا ممکن ہے یہ صرف میرا ہی تجربہ ہو۔ قرات اور شاعری کا ایک تعلق یہ ہو سکتا ہے کہ قاری شاعر کی فکر تک رسائی کی جدوجہد کرے، یہ ایک الگ جمالیاتی سفر ہے۔ بَہ ہر حال، کتاب میں داخل ہونے کا دروازہ فن کا ایک ٹکڑا ہی ہو سکتا ہے، یعنی مانوس جمالیات سے غیر مانوس جمالیات تک کا سفر۔ یہ نظم تھی لیلیٰ کا نوحہ…۔ جب تک ان کی نظموں سے ہم کنار نہیں ہوا جاتا، اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اردو نظم کے ساتھ کس رفیعُ الشّان کھڑکی سے معاملہ کر رہے ہیں۔
لیلیٰ کا نوحہ میں ایک اسطوریائی آوارگی کو رقم کیا گیا ہے، کلاسیکل لفظیات کے رچاؤ کی حامل یہ نثری نظم ایک کھڑکی ہے جو اس کتاب میں اچھی طرح سے داخل کراتی ہے؛ یعنی مانوس جمالیات سے کتاب کی غیر مانوس جمالیات تک کا سفر۔
یہ غیر مانوس جمالیات کتاب کی پہلی نظم میں راستہ روکتی ہے، پھر چھوڑ دیتی ہے، مراجعت کے لیے۔ اس نظم کی معروضیت نشہ آور فسُوں طاری کرنے کی بَہ جائے آنکھیں روشن کر دیتی ہے۔ یہ نظم نفرت کا رزمیہ خود نفرت کے رزمیے کے خلاف ایک محاذ بناتی ہے، ایک محاذ جہاں وطن پرستی اور انسان دوستی کا پرچار آئس کریم کے ذایقے کی مانند لمحوں میں گھلتا ہے، اور ثقافتوں کے انبوہ میں دریدہ ہونٹوں کی تھرتھراہٹ بننے والے ایک واہمے سے زیادہ کچھ نہیں۔