فیری میڈوز ایک خواب سی حقیقت
بیال کیمپ سے نانگا پربت میرے بالکل سامنے تھی یا یوں کہیے اوپر گرنے کو تھی۔ تب میرے اور اس قاتل پہاڑ کے درمیان ایک مکالمہ ہوا، ”اے ہیبت ناک پہاڑ میرا تجھ سے وعدہ ہے کہ میں کبھی تجھے سر کرنے کی گستاخی نہیں کروں گا۔ تیری اونچائیاں تجھے مبارک مگر مجھے اپنا دیدار کرنے دینا جب کبھی میں راما میڈوز پہنچوں، جب کبھی میں ترشنگ کے راستے روپل آؤں، جب کبھی میں شیوسر جھیل کے کنارے تیرا انتظار کروں، تو بس میرے سامنے رہنا بادلوں میں گم نہ ہو جانا۔“
از، حسین جاوید افروز
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فطری مناظر سے نوازا ہے۔ فطرت کے سبھی عناصر جن میں سمندر، پہاڑ، ریگستان اور ہریالی شامل ہیں، ہماری اس ارضِ پاک میں موجود ہیں۔”شمالی پاکستان“ ان گنت حسین وادیوں، جھرنوں، گلیشیئرز کی بستی ہے جس کی رنگینیوں کو دیکھنے کے لیے سیاح دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔
اس سِحَر انگیز شمالی پاکستان میں تین مقامات اپنی دل کشی کی بناء پر سرِ فہرست قرار دیے جا سکتے ہیں جن میں بلتستان کا دیوسائی، بالائی ہنزہ میں خنجراب پاس اور دیامیر کا فیری میڈوز شامل ہیں۔
فیری میڈوز کو دنیا کے خوب صورت مقامات میں اساطیری حیثیت حاصل ہے۔ جولائی کے مہینے میں اس جنت نظیر وادی میں جانے کا اتفاق ہوا تو علم ہوا کہ اسے فیری میڈوز کیوں کہا جاتا ہے؟
ہم بابُوسر پاس کے سر سبز راستے کے ذریعے گلگت بلتستان میں داخل ہوئے۔ بابُوسر پاس نا قابلِ فراموش ویرانہ ہے جو وادئِ کاغان کا بلند ترین مقام ہے۔ یہاں سے راستے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیر پختون خواہ کو نکلتے ہیں۔
اس کی اترائیوں میں لا تعداد چشمے بہتے ہیں جس کے ساتھ گوجر اپنے بھیڑ بکریوں کے ہم راہ دکھائی دیتے ہیں۔
بابوسر ٹاپ پر درجۂِ حرارت بہت کم ہوتا ہے اور سرد ہوائیں سائیں سائیں کی آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ مگر جیسے جیسے آپ چلاس کی جانب نیچے اترتے جاتے ہیں تو موسم ڈرامائی طور پر بدلتا ہے اور گرمی کی شدت بڑھتی رہتی ہے۔
گونر فارم کی بستی سے گزر کر چلاس شہر شروع ہوتا ہے جو اس خطے کا گرم ترین شہر ہے۔ چاروں طرح سنگلاخ پہاڑ اور دریائے سندھ، یہ چلاس شہر کا لینڈ سکیپ ہے یہاں سے 58 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم رائے کوٹ برج پہنچے۔ یہاں سے دائیں جانب ایک کچا راستہ فیری میڈوز کی بلندیوں کی جانب جاتا تھا۔
اس کے لیے ہم نے جیپ کا بندوبست کیا اور اپنے اپنے رَک-سَیک لیے۔ اس میں سوار ہو گئے۔ شروع میں منظر بہت دل نشین تھا جب رائے کوٹ پل بہت چھوٹا دکھائی دے رہا تھا یکا یک ہم ایک تنگ سی سڑک پر آ گئے۔
ہمارے دائیں جانب پہاڑ کی دیوار جب کہ بائیں جانب گہری کھائیاں تھیں اور اس کچی سڑک پر ایک وقت میں ایک جیپ ہی چل سکتی تھی۔ اب ہم نانگا پربت کے رحم و کرم پر تھے۔ ہمیں پندرہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے تاتو گاؤں پہنچنا تھا۔
یہ سفر ایک گھنٹہ میں مکمل ہوا مگر کچھ سمجھ نہیں آئی ہم زمین پر تھے یا عالمِ برزخ میں۔ جب سامنے سے آنے والی جیپ کو اوور ٹیک کرنا ہوتا تو جیسے خوف کی لہر سی بدن میں دوڑ جاتی۔
بلا شبہ اس ٹریک کا شمار دنیا کے خوف ناک جیپ ٹریکس میں کیا جا سکتا ہے۔ اس راستے کو ”پل صراط“ سے تعبیر کرنا کچھ غلط نہیں۔ بالآخر ہم تاتو گاؤں پہنچے جہاں گرم پانی کا ایک چشمہ بھی پایا جاتا ہے۔
”تاتو“ کے معنی گرم پانی کے ہیں۔ یہاں سے ہمارے لیے گھوڑوں کا بندوبست کیا گیا۔ کیوں کہ مزید تین گھنٹے کا سفر ابھی باقی تھا۔ اس راستے کو ”بولڈر رِج“ بھی کہا جاتا ہے۔ ہم نے ٹریکنگ بھی کی اور کہیں کہیں گُھڑ سواری بھی کرتے رہے مگر اس راستے میں پگڈنڈیاں اتنی تنگ تھی کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس پر خود چلنا محفوظ ہو گا یا گھوڑے کے اوپر بھروسا کیا جائے؟
بہ ہر حال تاتو کے بعد ییل گاؤں بھی گزر گیا۔ راستے میں کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ بھی آتے رہے۔ اب نانگا پربت ہمارے سامنے تھا۔ اور سچ پوچھیے تو سفید برف میں ملبوس یہ برف کا مَعبد دل کش بھی بہت لگتا تھا، مگر ہم پر اپنی دہشت بھی جماتا تھا کہ تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو میرے دامن میں 70 سے زائد کوہ پیماء ابدی نیند سو چکے ہیں۔
مسلسل بلندی کی جانب سفر سے طبیعت بوجھل بھی ہو رہی تھی اور موسم سرد بھی ہو رہا تھا۔ آخر کیوں نہ ہو 3000 فٹ کی بلندی پر ہم محوِ سفر تھے۔ اور شام ڈھلے ہم فیری میڈوز پہنچ ہی گئے۔ رائے کوٹ سفاری کے مالک رحمت نبی نے ہمارا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اور کچھ دیر بعد ہم رائے کوٹ سفاری کے نہایت آرام دہ لکڑی کے کیبن میں رہائش پذیر ہو چکے تھے۔
ہمارے روم میٹ ہمارے ہنزائی دوست شیر علی تھے جن کا کہنا تھا کہ گھوڑوں پر کیوں بیٹھتے ہو؟ مجھ میں پہاڑی طاقت ہے میں تو چل کر جاؤں گا اور اس نے کر دکھایا۔ شمال کے باسی واقعی پہاڑوں کے بیٹے ہوتے ہیں پل میں تین گھنٹے کا سفر ایک گھنٹے میں چوکڑیاں بھرتے طے کر لیتے ہیں۔ شیر علی نے ہمیں energise دیا جس سے ہم ہشاش بشاش ہو گئے۔
فیری میڈوز نانگا پربت کے دامن میں ایک خوب صورت چراگاہ ہے جہاں پائن، صنوبر کے حسین جنگلات، الپائن، جینیپر، جنگلی گلاب، ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ ماہرینِ نباتات کے لیے یہ ایک قدرتی لیبارٹری کی حیثیت رکھتا ہے۔
رائے کوٹ سرائے کے پیچھے ”فنتوری“ کا خوب صورت گاؤں ہے جہاں چند مکانات ہیں اور ان کی چمنیوں سے نکلتا دھواں ایک اور ہی سماں پیدا کرتا ہے۔ فنتوری والے سیاح سے ایک ہی امید رکھتے ہیں کہ بے شک اس فیری میڈوز کو اپنے وجود میں جذب کر لو مگر ہماری پرائیویسی کا بھی خیال کرو۔
یہاں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے جس کو مستنصر حسین تارڑ کے نام پر ”تارڑ جھیل “ قرار دیا گیا ہے۔ اسی جھیل سے کچھ فاصلے پر ایک اور جھیل بھی موجود ہے۔ فنتوری گاؤں میں چھوٹے چھوٹے جھرنے ہر طرف بہہ رہے ہوتے ہیں۔ فیری میڈوز میں گویا زمانہ ٹھہر سا جاتا ہے اور آپ موبائل فون، لیپ ٹاپ،بخبروں کے جھنجھٹ سے دور ایک ایسے پرستان میں ہوتے ہیں جہاں تین آوازوں کا ہی راج چلتا ہے جن میں گھوڑوں کی ہنہہناہٹ، تاتو نالے کا شور اور نانگا پربت سے آتی سرد ہوا کی سائیں سائیں کی آوازیں شامل ہیں۔
نانگا پربت کسی ایک پہاڑ کا نام نہیں بَل کہ قطار در قطار چوٹیوں کا مجموعہ ہے جن میں چونگرہ، جولی پور، بولدار، گنالو اور رائے کوٹ پیک شامل ہے۔ 8126 میٹر بلند اس پہاڑ کو قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ جسے سب سے پہلے 1950 کی دَھائی میں سر کیا گیا یہ دنیا کا ۹ واں بڑا پہاڑ ہے مگر کہا جاتا ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنا آسان ہے مگر نانگا پربت کو زیر کرنا ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
مشہور کوہ پیما ”میسنر“ نے یہ پہاڑ تو زیر کیا مگر اپنا بھائی کھو دیا۔ ہماری منزل اب بیال کیمپ تھی جو پانچ کلومیٹر پر واقع ایک خوب صورت، آوارہ سا ٹریک ہے۔ راستے میں سر سبز درختوں کے جھنڈ، سورج سے چمکتے جھرنے ملتے ہیں۔ اس حسین ویرانے میں جڑی بوٹیوں کی 400سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ سفر بھی ہم نے گھوڑوں پر انجام دیا۔
اس مسلسل گُھڑ سواری سے یہ گمان ہونے لگا جیسے یہاں Once upon time in the west یا The good, bad, and ugly کی عکس بندی کی جا رہی ہو اور کلنٹ ایسٹ وڈ کا رول ہمیں ملا ہو۔
بیال کیمپ سے نانگا پربت بیس کیمپ کا یہ سفر، تاتو سے فنتوری کے سفر کے مقابلے میں بالکل خطرناک نہیں ہے۔ بَہ قول رحمت نبی یہاں راستوں کو پختہ نہیں کرنا چاہیے آخر کچھ تو ایسے جنت نظیر مقامات ہوں جہاں تھوڑی سی تکلیف اٹھانے کے بعد پہنچنا چاہیے۔ اگر فنتوری تک راستہ پختہ ہو گیا تو یہ جگہ کمرشل ہو جائے گی اور پائن کے درختوں کا یہ لا زوال ذخیرہ یادِ ماضی بن جائے گا۔
یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ ہمارے گائیڈ عزیز اللہ نے ہمیں بتایا کہ اکتوبر میں ان کو یہاں سے کوچ کرنا پڑتا ہے کیوں کہ موسم کی ہول ناکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ سب لوگ چلاس کے ساتھ گونر فارم میں سردیاں گزارتے ہیں اور یہاں برفوں میں بھیڑیے اور مارخود کا راج شروع ہو جاتا ہے۔ نانگا پربت کے ساتھ ہی بولدار پہاڑ ہے جس کے پیچھے استور شروع ہو جاتا ہے اور وہاں نانگا پربت کا دیدار ”راما میڈوز“ سے کیا جاتا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ نانگا پربت بھارتی زیر انتظام کشمیر کے ”بارہ مولا “ضلع سے بھی دکھائی دیتا ہے۔ فنتوری گاؤں سے نانگا پربت کے بالکل الٹ دور بلند چوٹیوں کا دیدار کیا جا سکتا ہے کہا جاتا ہے کہ یہ راکا پوشی ہے جو ہنزہ سے دکھائی دیتی ہے۔
شیر علی نے بیال کیمپ سے لے کر فیری میڈوز کے رائے کوٹ سفاری تک ہر منظر کی صبح سے شام تک عمدگی سے تصویر کشی کی۔ شیر علی اسی طرح پُر جوش تھے جیسے سفاری پارک میں قید کسی شیر کو سندربن میں چھوڑ دیا جائے۔
بیال کیمپ سے نانگا پربت میرے بالکل سامنے تھی یا یوں کہیے اوپر گرنے کو تھی۔ تب میرے اور اس قاتل پہاڑ کے درمیان ایک مکالمہ ہوا، ”اے ہیبت ناک پہاڑ میرا تجھ سے وعدہ ہے کہ میں کبھی تجھے سر کرنے کی گستاخی نہیں کروں گا۔ تیری اونچائیاں تجھے مبارک مگر مجھے اپنا دیدار کرنے دینا جب کبھی میں راما میڈوز پہنچوں، جب کبھی میں ترشنگ کے راستے روپل آؤں، جب کبھی میں شیوسر جھیل کے کنارے تیرا انتظار کروں، تو بس میرے سامنے رہنا بادلوں میں گم نہ ہو جانا۔“
شاید نانگا پربت کو میری بات بھا گئی تبھی راما اور شیوسر کنارے مجھے اس کا ساتھ ملا۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جن کو بہت دل کشی سے بیان کیا جاتا ہے مگر وہ حقیقت میں اتنے حسین نہیں ہوتے لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ فیری میڈوز ہر گز over-hyped نہیں ہے۔
یہاں زندگی فطرت کے رنگوں میں جوان رہتی ہے۔ وقت نکالیے اور جوانی میں یہاں آئیے کیوں کہ جیسے جیسے آپ کی عمر ڈھلتی ہے پہاڑ آپ کے لیے اور اونچے ہو جاتے ہیں۔
اور جناب ہم جرمنوں سے زیادہ مصروف زندگی تو نہیں گزارتے جو اپنے کئی پیاروں کو کھونے کے با وُجود یہاں آنے کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ انشا اللہ ہم جلد ہی کرونا کی قید سے آزاد ہوں گے اور ایک بار پھر سے اپنے ارضِ پاک کے دیدار کے لیے رختِ سفر باندھیں گے۔